حفاظتِ قرآن کا تکوینی نظام

   
تاریخ : 
۳۰ نومبر ۲۰۰۲ء

رمضان المبارک قرآنِ کریم کا مہینہ ہے کہ اس مہینہ میں قرآنِ کریم کا نزول ہوا اور اس میں قرآنِ کریم کی تلاوت عام دنوں سے بڑھ جاتی ہے۔ ہر دیندار مسلمان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس مبارک ماہ کے دوران وہ قرآنِ کریم کی اہتمام کے ساتھ تلاوت کرے اور تراویح اور نوافل میں قرآنِ کریم سننے کی سعادت حاصل کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے کہ عام طور پر سال بھر کی غفلت اور بے توجہی کی کسی نہ کسی حد تک اس مہینہ میں تلافی ہو جاتی ہے اور ایمان اور عمل کی بیٹری ایک سال کے لیے پھر چارج ہو جاتی ہے۔

اس بات کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے کہ انفرادی طور پر قرآنِ کریم کی تلاوت اور سننے اور سنانے سے ہٹ کر اجتماعی طور پر تراویح اور نوافل میں اس ماہ کے دوران دنیا بھر میں کتنی بار قرآنِ کریم پڑھا جاتا ہے؟ اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی جدید ترین سسٹم بھی شاید دنیا میں رمضان المبارک کے دوران قرآنِ کریم سننے اور سنانے کے حوالے سے اعداد و شمار کو مرتب کرنے کی مہم سر نہ کر سکے۔ یہ قرآنِ کریم کا اعجاز بھی ہے اور اس کی حفاظت کا ایک ’’فول پروف سسٹم‘‘ بھی کہ قرآنِ کریم کے الفاظ کو اتنی بار دہرایا جائے اور اتنی بار سنا اور سنایا جائے کہ اس میں کسی حرف کے داخلہ یا کسی حرف کی کمی کا کسی سطح پر کوئی امکان باقی نہ رہ جائے۔

قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی بے نیاز ہے اور اس کی صفات بھی بے نیاز ہیں، اس لیے قرآنِ کریم کو بھی حفاظت کے ظاہری اسباب سے بے نیاز کر دیا گیا ہے۔ کسی کتاب کی بقا اور حفاظت کے ظاہری اسباب چمڑا، تختی، کاغذ، قلم، ڈسک، سی ڈی اور کیسٹ وغیرہ ہیں۔ یہ اسباب موجود ہوں تو کتاب کا وجود بھی ہے، اور اگر خدانخواستہ ان اسباب کا وجود باقی نہ رہے تو کسی کتاب کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ لیکن قرآنِ کریم ان تمام اسباب سے بے نیاز ہے کہ ان میں سے ایک سبب بھی باقی نہ رہے تب بھی قرآنِ کریم پر اس کا رتی بھر اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ وہ لاکھوں سینوں کی کیسٹوں میں محفوظ ہے اور اتنی بار پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ کتاب کے وجود اور بقا کے ظاہری اسباب کی موجودگی یا غیر موجودگی اس کے لیے ایک جیسی ہو گئی ہے۔

چند سال قبل کی بات ہے میں کراچی میں تھا، جامعہ انوار القرآن گرین ٹاؤن کراچی میں چند نوجوان ملاقات کے لیے آئے اور اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ مختلف غیر مسلم گروپوں نے قرآنِ کریم کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس بنا رکھی ہیں جن پر وہ قرآنِ کریم کی سورتوں اور آیات کے ساتھ ساتھ اس سے ملتی جلتی سورتیں اور آیات اپنی طرف سے گھڑ کر قرآنی آیات اور سورتوں کے ساتھ خلط ملط کر رہے ہیں جن سے ایک نا واقف شخص الجھن اور دھوکہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مجھے چند سورتوں کے پرنٹس بھی دیے جو قرآن کریم کی طرز پر گھڑی گئی ہیں اور انہیں قرآنی سورتوں کے انداز میں ان ویب سائٹس پر دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے بعض سورتوں اور آیات میں قرآنی تعلیمات کا مذاق اڑایا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔

میں نے ان نوجوانوں سے عرض کیا کہ ان کی پریشانی بجا ہے۔ ہر مسلمان کو قرآن کریم کے بارے میں اس قسم کی صورتحال پر پریشان ہونا چاہئے اور یہ پریشانی قرآنِ کریم کے ساتھ ایک مسلمان کی محبت کی علامت ہے۔ کیونکہ غیرت اور غصہ وہیں آتا ہے جہاں محبت ہوتی ہے اور جہاں عقیدت و محبت نہ ہو وہاں نہ کسی کو غصہ آتا ہے اور نہ ہی اس کی غیرت جوش مارتی ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اس پریشانی اور غیرت پر آپ حضرات بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہیں لیکن اس پریشانی کو خود پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قسم کی حرکتوں سے قرآنِ کریم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس طرح کے سینکڑوں گروپ بھی انٹرنیٹ پر قائم اور متحرک ہو جائیں تو وہ قرآنِ کریم کے ساتھ کوئی چیز خلط ملط کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

میرے اس جواب پر ان میں سے ایک نوجوان نے حیرت بلکہ قدرے خفگی کا اظہار کیا تو میں نے وضاحت کی کہ انٹرنیٹ کے جن دو چار گروپوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان جیسے بیسیوں گروپ اور وجود میں آجائیں اور قرآنِ کریم کی ایک سو چودہ سورتوں کے ساتھ ان سے ڈبل تعداد میں سورتیں گھڑ کر بیسیوں ویب سائٹس کے ذریعے سامنے لے آئیں تو ہمیں ان سب کے کام کو واچ کرنے اور اس کی چھانٹی کرنے کے لیے کسی لمبے چوڑے بندوبست کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بس پندرہ سال کا ایک ایسا بچہ کافی ہو گا جس نے قرآنِ کریم یاد کرنے کے بعد چار پانچ دفعہ سنا لیا ہے۔ اور ایسے بچے پندرہ سال کی عمر میں ہزاروں مل جائیں گے۔ اس بچے کو کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے بٹھا دیں اور اس کے سامنے سے ان انٹرنیٹ گروپوں کا قرآن کریم کے بارے میں مذکورہ عمل گزارنا شروع کر دیں۔ وہ بچہ چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ ایک دن اور رات میں اس سارے کام کی چھانٹی کر کے رکھ دے گا کہ یہ سورۃ صحیح ہے اور یہ جعلی ہے، اس سورۃ میں یہ آیت صحیح ہے اور یہ جعلی ہے، اس آیت میں یہ لفظ صحیح ہے اور یہ جعلی۔ وہ بچہ قرآنِ کریم کے ایک لفظ کا ترجمہ نہیں جانتا اور کسی ایک سورۃ کا مفہوم اور شانِ نزول بھی اس کے علم میں نہیں ہے اور قرآنِ کریم کا عالم نہیں ہے بلکہ صرف حافظ ہے اور اس نے طوطے کی طرح قرآن کریم کے الفاظ رٹنے اور سننے سنانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن انٹرنیٹ کے اس جدید ترین اور سائنٹفک ورک کو جانچنے اور اس کی چھانٹی کرنے کی لیے وہ بچہ کافی ہے۔ چنانچہ جس کام کو جانچنے اور چھانٹنے کے لیے پندرہ سال کا ایک بچہ کافی ہو اس سے قرآنِ کریم کی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

یہ قرآنِ کریم کی حفاظت کا تکوینی نظام ہے اور اس کے ہوتے ہوئے قرآنِ کریم میں کسی ردوبدل اور اس کے کسی لفظ کے آگے پیچھے ہونے کا کوئی امکان کسی درجہ باقی نہیں رہا۔ رمضان المبارک قرآنِ کریم کو سننے و سنانے اور پڑھنے و دہرانے کا خاص مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اہتمام کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھا جاتا ہے، سنا جاتا ہے، سنایا جاتا ہے، دہرایا جاتا ہے اور پورا سال غفلت میں گزارنے کے بعد مسلمان ایک بار پھر قرآنِ کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ کر لیتے ہیں۔ رمضان المبارک آخری مراحل میں ہے اور قرآنِ کریم کے نزول اور تکرار و تلاوت کا یہ مبارک مہینہ چند دنوں میں ہم سے رخصت ہونے والا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مہینہ ہمارے لیے قرآنِ کریم کے ساتھ اپنے تعلقات و معاملات کو درست کرنے کا ذریعہ ثابت ہو اور یہ مبارک مہینہ ہمیں صحت و عافیت اور توفیق و قبولیت کے ساتھ زندگی میں بار بار نصیب ہو، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter