علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ

   
تاریخ : 
۲ اپریل ۲۰۱۲ء

گزشتہ دنوں روزنامہ پاکستان میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کے بارے میں خصوصی ایڈیشن دیکھ کر بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہوگئیں اور مولانا کے حوالے سے مختلف مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کے ساتھ میری ذاتی دوستی تھی اور متعدد دینی تحریکوں میں ہمیں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سیاسی و دینی رفاقت نے ایک حد تک بے تکلفی کا رنگ بھی اختیار کر لیا تھا۔ ان کے ساتھ ہلکی پھلکی شناسائی تو طالب علمی کے دور میں بھی تھی کہ میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ۱۹۶۲ء سے ۱۹۷۰ء تک طالب علمی کا دور گزارا ہے جبکہ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ اور ان کے خاندان کا تعلق حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ اور حضرت مولانا حافظ محمد گوندلویؒ سے تھا۔ وہ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے جبکہ میں متصلب دیوبندی و حنفی ہوں۔ گوجرانوالہ کے اہل حدیث مرکز جامعہ محمدیہ چوک نیائیں اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے درمیان چند منٹ کا پیدل فاصلہ ہے۔ چوک نیائیں میں اہل حدیث حضرات نے اسلامی دارالمطالعہ کے نام سے ایک مرکز قائم کیا ہوا تھا جہاں طالب علمی کے کم و بیش پورے دور میں عصر کے بعد جانے کا میرا معمول رہا ہے۔ اخبارات و جرائد کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہاں پڑھنے کے لیے کتابیں بھی میسر ہوتی تھیں۔ اب میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں صدر مدرس ہوں اور جامعہ محمدیہ چوک نیائیں میری روزانہ گزرگاہ ہے۔ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ کے ساتھ میری رہائش ہے، صبح نماز فجر کے بعد دس پندرہ منٹ درس دینے کا معمول ہے اس کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم پیدل جاتا ہوں، راستے میں جامعہ محمدیہ کا پرانا مرکز ہے۔ حال ہی میں شہر کے ایک بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ عبد المنان نور پوریؒ کا انتقال ہوا ہے، وہ جامعہ محمدیہ میں صبح کی نماز کے بعد درس دیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں جب وہاں سے گزرتا تو وہ درس سے فارغ ہو کر واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے ہوتے، ان کے ساتھ علیک سلیک ہوتی اور ہم ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے۔

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے بزرگ خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور حضرت مولانا اسماعیل سلفیؒ کے درمیان دوستی تھی اور وہ اہم کام باہمی مشورہ سے کیا کرتے تھے۔ مولانا اسماعیل سلفیؒ کے بعد یہ تعلق ان کے فرزند مولانا حکیم محمود سلفیؒ اور راقم الحروف کے درمیان اسی طرح رہا۔ مسلکی اختلافات کے باوجود ہمارے درمیان دوستی کا یہ رشتہ روایتی تھا۔مختلف دینی تحریکوں میں ہم نے اکٹھے کام کیا، اہم دینی معاملات میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت رہتی تھی، اور اختلافات بھی چلتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ مولانا حکیم محمود سلفیؒ نے کسی مسئلے میں ہمارے خلاف ایک پمفلٹ شائع کیا اور ہم تینوں یعنی والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ، چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی اور راقم الحروف کے بارے میں اس پمفلٹ میں ’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ کی پھبتی کسی جس سے میں بہت محظوظ ہوا۔ حکیم صاحب مرحوم کی دکان پر میرا وقتاً فوقتاً جانے کا معمول تھا، وہاں چائے بھی ملتی تھی اور کوئی ہلکی پھلکی بیماری درپیش ہوتی تو مفت دوائی بھی مل جایا کرتی تھی۔ بلکہ ایک طرح سے انہیں میرے گھریلو طبیب کا مقام حاصل تھا کہ گھر میں کوئی تکلیف ہوتی تو میں حکیم صاحب مرحوم کو تشریف آوری کی زحمت دیتا اور وہ بلا تکلف تشریف لے آتے۔ مولانا حکیم محمود سلفیؒ کا وہ پمفلٹ پڑھنے کے بعد میں ان کی دکان پر جا پہنچا اور سلام و کلام کے بعد عرض کیا کہ حکیم صاحب! آپ نے ہمارے خلاف جو پمفلٹ لکھا ہے وہ تو دکھائیں۔ وہ بھی مسکرائے اور کہا کہ یار یہ باتیں تو چلتی رہتی ہیں۔ بے تکلفی کی یہ باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اب اس قسم کا ماحول نہیں رہا کیونکہ ہم عام طور پر مسلکی اختلافات کے حوالے سے ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں جیسے پاکستان اور بھارت آپس میں برسرپیکار ہوں۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کا تعلق جامعہ محمدیہ کے اس ماحول سے تھا اور میرے خیال میں سیاسی سوچ اور فکری مزاج انہیں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ سے ودیعت ہوا تھا جس پر وہ زندگی بھر کاربند رہے اور اجتماعی تحریکات میں پیش پیش رہے۔ وہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر تھے اور میں ایک عرصے تک ان کا قاری رہا۔ مختلف جلسوں میں ان کے خطابات بھی سنے، ان کی خطابت کا انداز احراری تھا، بلند آہنگی، جوش و جذبہ، گھن گرج ان کی خطابت کا حصہ تھے اور علم و مطالعہ اس کے لوازمات میں سے تھے۔ البتہ ان کے ساتھ میری ملاقاتوں کا آغاز نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ڈیرے سے ہوا تھا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کا لاہور میں سیاسی دفتر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے اور اسے بہت سی سیاسی تحریکوں کے سرچشمے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس دفتر میں جانا وقتاً فوقتاً میرے معمولات میں شامل تھا، وہاں جن سیاسی رہنماؤں سے تعلقات استوار ہوئے اور پھر رفاقت کی صورت اختیار کرتے گئے ان میں ایک علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ بھی تھے۔

۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ ہمارے ان سیاسی و تحریکی تعلقات کا نقطۂ عروج ہیں۔ بیسیوں عام اجتماعات اور خاص میٹنگوں میں ہم شریک ہوئے۔ پھر صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ کے دور میں سیاسی فکر کا رخ کسی حد تک تبدیل ہونے لگا تھا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ فوجی حکومت کے شدید ترین مخالف تھے جبکہ پاکستان قومی اتحاد جنرل مرحوم کی حکومت میں شریک ہوگیا تھا اور کچھ عرصہ تک یہ شرکت رہی۔ میں ذاتی طور پر ضیاء حکومت میں شامل ہونے کے حق میں نہیں تھا اور جب جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے فوجی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اجلاس کی کارروائی میں باقاعدہ اختلافی نوٹ لکھوایا تھا، لیکن اس کے باوجود میں پارٹی ڈسپلن کا پابند رہا۔ اس دور میں مارشل لاء حکومت کے خلاف علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کی خطیبانہ گھن گرج قابل دید ہوتی تھی اور وہ اپنے پورے زور خطابت کے ساتھ مارشل لاء حکومت کو نشانہ بناتے تھے۔

علامہ شہیدؒ ذاتی طور پر میرے ساتھ بہت محبت اور احترام کا معاملہ رکھتے تھے۔ ایک بار میں چوک رنگ محل سے لکشمی چوک تک تانگے میں جا رہا تھا، نسبت روڈ پر وہ اپنی گاڑی میں سوار کہیں جا رہے تھے، مجھے روک کر گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ اگر جلدی نہ ہو تو پہلے گھر چلتے ہیں، چائے وغیرہ پی کر پھر آپ کو چھوڑ آؤں گا۔ میں نے مولانا محمد اجمل خانؒ سے ملنے کے لیے قلعہ گوجر سنگھ جانا تھا جہاں وہ میرے انتظار میں تھے اس لیے معذرت کر دی۔

ایک دور میں دینی جماعتوں کے درمیان نفاذ اسلام کے لیے اتحاد قائم کرنے کی غرض سے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ، ملک محمد اکبر ساقی مرحوم، اور راقم الحروف چند ماہ بہت متحرک رہے۔ ہم نے جمعیۃ علمائے اسلام درخواستی گروپ، جمعیۃ اہل حدیث پاکستان، اور جمعیۃ علمائے پاکستان کے درمیان سہ جماعتی اتحاد قائم کرنے کے لیے بہت سا کام کیا حتیٰ کہ تینوں جماعتوں کے سربراہوں سے ایک ڈیکلیریشن کے لیے دستخط بھی کرا لیے۔ ان دنوں ہم تینوں کی مشترکہ سرگرمیوں کو دیکھ کر روزنامہ جنگ کے کالم نویس جاوید ڈسکوی مرحوم نے ہم پر ’’تین کا ٹولہ‘‘ کی پھبتی کسی تھی، مگر بوجوہ اتحاد کی یہ بات مزید آگے نہ بڑھ سکی۔

۱۹۸۷ء میں علمائے کرام کے ایک وفد کے ساتھ مجھے ایران کے سفر کا موقع ملا۔ ہم سرکاری مہمان تھے اور ایرانی انقلاب کے بہت سے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ہماری ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس دوران ایک اعلٰی سطحی میٹنگ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ اور ان کی ایک کتاب کا تذکرہ میں نے جس انداز سے سنا اس پر مجھے بہت حیرت ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔ واپسی پر میں نے علامہ شہیدؒ سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور اس پر اپنے تاثرات ظاہر کیے تو انہوں نے بے نیازی کے ساتھ سر کو جھٹک دیا۔

میری ان سے آخری ملاقات اس کیفیت میں ہوئی کہ وہ شدید زخمی حالت میں پٹیوں میں جکڑے ہوئے میو ہسپتال کے ایک وارڈ میں بیڈ پر تھے اور انہیں علاج کے لیے سعودی عرب بھجوانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ میں انہیں دیکھنے کے لیے میو ہسپتال پہنچا تو بہت زیادہ رش تھا اور بظاہر ان تک رسائی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر گوجرانوالہ کے ایک اہل حدیث نوجوان کی ڈیوٹی تھی جو علامہ شہیدؒ کے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور مجھے پہچانتے تھے۔ انہوں نے ہمت کر کے اس قدر رش کے باوجود مجھے ان کے بیڈ تک پہنچایا۔ میں نے علامہ شہیدؒ کے چہرے کی طرف دیکھا، آنکھیں چار ہوئیں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس حالت میں وہ مجھے پہچان پائیں گے۔ ان کے لبوں کو حرکت ہوئی تو میں نے کان قریب کر لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’حضرت صاحب سے میرے لیے دعا کی درخواست کرنا‘‘۔ حضرت صاحب سے مراد میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ تھے۔ اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ علامہ شہیدؒ نے مجھے پہچان لیا ہے۔ اس حالت میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے پرنم آنکھوں کے ساتھ وہاں سے واپس آگیا۔ دوسرے روز وہ جنت البقیع میں اپنا گھر بسانے کے لیے سعودی عرب کی طرف عازم سفر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر بے حساب رحمتوں کی بارش نازل کریں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter