’’غیرت‘‘ کے خلاف مہم

   
تاریخ : 
۲۳ اگست ۱۹۹۹ء

لندن سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ نے ۱۴ اگست کی اشاعت میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک مظاہرہ کی تصویر شائع کی ہے جس میں تین چار عورتیں سینہ کوبی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ

’’پاکستان کے بعض علاقوں میں غیرت کے نام پر ان عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے جو خاندان کے شرمسار ہونے کا باعث بنتی ہیں۔ گزشتہ دنوں اس رسم کے خلاف سینٹ میں تحریک بھی ناکام ہوگئی ہے۔ جمعہ کے روز اسلام آباد میں خواتین اس رسم کے خلاف مظاہرے کے دوران سینہ کوبی کر رہی ہیں۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس مظاہرہ کا اہتمام کسی این جی او نے کیا ہوگا کیونکہ این جی اوز ایک عرصہ سے اس مہم میں مصروف ہیں کہ ’’غیرت‘‘ نام کا جو جذبہ ایشیائی اقوام بالخصوص مسلمانوں میں ابھی تک موجود ہے اسے کسی نہ کسی طرح ختم کیا جائے تاکہ وہ بھی غیرت و حمیت کے حوالہ سے اس مقام پر آجائیں جو مغربی معاشرہ نے حاصل کر لیا ہے۔ اور جس کے بارے میں لاہور ایم اے او کالج کے ایک سابق پروفیسر نے، جو ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں، راقم الحروف کو بتایا کہ ان سے پاکستان میں ان کے ایک شاگرد نے ’’غیرت‘‘ کا انگریزی ترجمہ دریافت کیا تو تلاش بسیار کے باوجود وہ انگریزی میں غیرت کا مفہوم ادا کرنے والا کوئی لفظ معلوم نہ کر سکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شاگرد کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ مغرب کی سوسائٹی میں غیرت کا جذبہ سرے سے پایا ہی نہیں جاتا اس لیے ان کے ہاں کوئی لفظ بھی استعمال میں نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ جب کسی مسلمان کو غیرت کے حوالہ سے کوئی کام کرتا دیکھتے ہیں تو انہیں تعجب ہوتا ہے اور وہ بالکل نہیں سمجھ پاتے کہ آخر یہ کون سا جذبہ ہے جس نے اس شخص کو اتنے بڑے اقدام پر مجبور کر دیا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے غیرت کا سب سے بڑا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ، حضرت محمدؐ، قرآن کریم، اور اسلام کے کسی شعار کی توہین برداشت نہیں کر پاتا اور وہ اس کے ردعمل میں جان لینے یا جان دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ مگر یہ بات مغرب میں رہنے والوں کی سمجھ میں بالکل نہیں آتی اور وہ اسے جنون اور جذباتیت قرار دے کر مسلمانوں کی اصلاح اور انہیں اپنی طرح ’’سولائزڈ‘‘ کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح ماں، بہن، بیٹی، بیوی پر غیرت کھانا اور ان کے ساتھ کسی غیر مرد کے نامناسب روابط کو برداشت نہ کرنا بھی مسلمانوں کے اخلاق و روایات و اقدار کا حصہ ہے۔ اور یہ بھی مغرب والوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی عورت کسی مرد سے تعلقات استوار کرتی ہے تو اس میں کسی اور کو مداخلت کرنے کا آخر کیا حق حاصل ہے؟ اور عورت اپنی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے جذبات اور جسم کو کسی بھی مرد کے لیے مخصوص کرنا چاہتی ہے تو اس کے باپ، بھائی، خاوند، بیٹے، یا خاندان کو اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا حق کس نے دیا ہے اور انہیں آخر اس سے کیوں تکلیف ہوتی ہے؟

یہ دراصل دو الگ الگ فلسفے اور دو متضاد کلچر ہیں جو آپس میں ٹکرا رہے ہیں اور دنیا چونکہ دن بدن آپس میں قریب تر ہوتی جا رہی ہے اور فاصلے سمٹ رہے ہیں اس لیے یہ ٹکراؤ بھی روز بروز واضح تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں جب مغربی ملکوں کی سرپرستی اور بین الاقوامی اداروں کے مالی تعاون کے ساتھ پاکستان کی این جی اوز ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے خلاف سڑکوں پر مظاہروں کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں تو اس مہم کے مقاصد و اہداف کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا۔ عورت کے حوالہ سے ’’غیرت‘‘ کا اسلامی مفہوم کیا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے مگر یہ کالم زیادہ تفصیلات کا متحمل نہیں ہے اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات کی روشنی میں کچھ اصولی باتوں کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  • پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم نے مردوں اور عورتوں دونوں کو کھلے لفظوں میں ’’خفیہ مراسم‘‘ سے منع کیا ہے اور ولا متخذات اخدان اور ولا متخذی اخدان کے تحت ان خفیہ مراسم کو حرام کاری قرار دیا ہے۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے باہمی حقوق بیان کرتے ہوئے جناب رسول اللہؐ نے عورت کے ذمہ خاوند کے اس حق کی صراحت کی ہے کہ وہ اس کی غیر حاضری میں اپنے نفس اور اس کے مال میں اس سے خیانت نہ کرے، اور خاوند جس شخص کا گھر میں آنا پسند نہیں کرتا اسے گھر میں نہ آنے دے۔ اس سلسلہ میں خود حضورؐ کا ایک واقعہ احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ اپنی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس آئے تو ان کے حجرے میں ایک صاحب کو دیکھا۔ حضرت عائشہؓ کہتے ہیں کہ آپؐ کا یہ دیکھتے ہی چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ ام المومنینؓ پوری طرح مزاج شناس تھیں اس لیے فورًا وضاحت کی کہ یا رسول اللہ ! یہ افلحؓ ہیں جو میرے چچا لگتے ہیں۔ حضورؐ نے انہیں پہچانا تو معمول کی کیفیت بحال ہوئی۔ اس لیے یہ بات بطور اصول معلوم ہوتی ہے کہ گھر میں کسی غیر مرد کو دیکھ کر غیرت کھانا خود جناب نبی اکرمؐ کی سنت ہے۔
  • غیرت کے جذبہ کا احترام کرنا بھی آنحضرتؒ کی سنت ہے۔ حضورؐ نے اپنا ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں جنت میں ایک محل دکھایا گیا جو بہت خوبصورت تھا اور جس میں حوروں اور خادموں کی ہر طرف چہل پہل نظر آتی تھی۔ آپؐ نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کس کا محل ہے تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عمرؓ کا محل ہے۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ محل کو اندر جا کر بھی دیکھوں مگر مجھے عمرؓ کی غیرت یاد آگئی اور میں اندر جانے سے رک گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود غیرت کھانا اور دوسروں کی غیرت کا احترام کرنا یہ دونوں جذبے اسوۂ نبویؐ کا حصہ ہیں۔
  • حتیٰ کہ نبی اکرمؐ نے اس غیر ت کو ایمان کے تقاضوں میں شمار کیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ’’دیوث‘‘ جنت میں نہیں جائے گا۔ اور دیوث کا معنیٰ محدثین نے بے غیرت کیا ہے اور ہر اس شخص کو اس لقب کا مصداق ٹھہرایا ہے جو اپنے گھر میں غیر مردوں کا آزادی کے ساتھ آنا جانا دیکھے اور خاموشی سے برداشت کر لے۔

البتہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت اسلام کسی کو نہیں دیتا۔ اور ایسی کسی شکایت کی صورت میں ہر فریق کو عدالت سے رجوع کا حق دیتا ہے۔ حتیٰ کہ کسی مرد یا عورت پر چار شرعی گواہوں کی فراہمی کے بغیر بدکاری کے الزام کو مستقل جرم قرار دیا گیا ہے جسے ’’قذف‘‘ کہتے ہیں اور اس کی سزا قرآن کریم نے ۸۰ کوڑے بیان کی ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے اور شرعی گواہ مہیا نہیں کر پاتا تو اسے ’’قذف‘‘ کے جرم میں ۸۰ کوڑے سزا بھگتنا پڑے گی۔ جبکہ صرف خاوند کو اس سے ایک حد تک استثناء دی گئی ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو بدکاری کا مرتکب پایا ہے اور گواہ موجود نہیں ہیں تو وہ عدالت میں چار گواہوں کی جگہ چار قسمیں کھائے گا اور پانچویں قسم اس بات کی کھائے گا کہ اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اس کے جواب میں اگر بیوی خاموش رہی تو سزا کی مستحق قرار پائے گی اور اگر وہ انکار کرتی ہے تو اسے بھی اسی طرح کی پانچ قسمیں عدالت کے روبرو کھانا پڑیں گی جس کے بعد ان میں تفریق ہو جائے گی اور وہ آپس میں میاں بیوی نہیں رہیں گے۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’’لعان‘‘ کہتے ہیں اور اس کا یہ حکم خود قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ جب زنا کے ثبوت کے لیے چار عینی گواہوں کو شرعاً شرط قرار دیا گیا تو انصار مدینہؓ کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے جناب رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو بدکاری میں مصروف دیکھوں تو کیا میں اسے دیکھنے کے لیے چار آدمی تلاش کرتا پھروں گا؟ خدا کی قسم میں تو اسی وقت انہیں قتل کردوں گا۔ یہ سن کر حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ سعدؓ! میں تجھ سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ غیرت کا جذبہ اپنے مقام پر درست ہے مگر قانون وہی ہے جو شریعت نے بیان کیا ہے اور اسے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

پھر یہ غیرت صرف مرد کا حق نہیں بلکہ عورت کا بھی اسی طرح حق ہے۔ عورت کو بھی غیرت آتی ہے اور اس کے جائز طریقہ سے اظہار کا اسے بھی حق حاصل ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات حضورؐ میرے گھر تھے، اچانک رات کسی وقت میری آنکھ کھلی تو آپؐ کو موجود نہ پایا۔ خیال ہوا کہ کسی دوسری بیوی کے پاس نہ چلے گئے ہوں۔ اس کیفیت میں آپؐ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی، ادھر ادھر دیکھا تو حضورؐ کو جنت البقیع کے قبرستان میں پایا جہاں وہ دعا کر رہے تھے۔ فرماتی ہیں کہ مجھے خود ہی احساس ہوا کہ میں کس خیال میں ہوں اور حضورؐ کیا کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرتؐ کے بالوں میں انگلیاں ڈال کر دیکھا کہ آپؐ غسل کر کے تو نہیں آئے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حق میں دوسرے کی مداخلت یا شرکت کو محسوس کرنا اور اس پر ردعمل کا اظہار بھی غیرت کہلاتا ہے۔ اور شریعت میں اس جذبہ کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے بلکہ اس کے احترام کی تلقین کی گئی ہے اور اسے قابل تعریف جذبات میں شمار کیا گیا ہے۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ حضورؐ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں تھے کہ کسی دوسری زوجہ محترمہؓ کی طرف سے ایک برتن میں کھانے کی کوئی چیز آئی۔ حضرت عائشہؓ نے دیکھا تو ہاتھ مار کر اسے زمین پر گرا دیا، اس پر آپؐ نے حجرہ میں موجود دیگر افراد سے کہا کہ اٹھا کر کھا لو تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔

اس سلسلہ میں دور نبویؐ اور دور صحابہؓ کے بیسیوں واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں جو غیرت کے اسلامی جذبہ کی وضاحت کرتے ہیں اور اس کی حدود کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس لیے جہاں تک قانون کو ہاتھ میں لینے کا تعلق ہے اگر صرف اس حد تک بات کی جاتی ہے تو ہم اس کی تائید کرتے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینا کسی شہری کے لیے جائز نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی یک طرفہ بات ہوگی کیونکہ قانون کے حوالہ سے جہاں شہریوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں وہاں اسٹیٹ اور سسٹم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر بے لاگ عملدرآمد کی ضمانت مہیا کرے ورنہ اگر ایک فریق اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا تو قانون کا عمل دونوں ہاتھوں سے بجنے والی تالی کی بجائے ایک ہاتھ سے بجنے والا تھپڑ ہو کر رہ جائے گا۔

چنانچہ اگر عورتوں کے حقوق اور قانون کی عملداری کے نام سے چلائی جانے والی این جی اوز کی اس مہم کا مقصد ’’غیرت‘‘ کے جذبہ کی نفی کرنا اور اس کے خلاف نفرت پھیلا کر مسلم معاشرہ کو مغربی سوسائٹی کی سطح پر لانا ہے تو اسے کسی صورت میں بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اسے قبول کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی ناک کٹا شخص ناک والوں کو یہ مشورہ دینے لگے کہ دیکھو میں کتنا خوبصورت لگ رہا ہوں اس لیے میری طرح نظر آنے کے لیے تم بھی اپنی ناک کٹوا دو۔ اب مغرب والوں کو خوش کرنے کے لیے ہم اپنی ناک کٹوانے سے تو رہے!

   
2016ء سے
Flag Counter