حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ

   
تاریخ : 
۲۷ مئی ۲۰۰۴ء

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے ۸۷ سال کی عمر میں وفات پائی اور آخری چار سال بستر علالت پر گزارے۔ چند ماہ قبل میں نے ان کے ہاں حاضری دی تو گفتگو فرماتے تھے لیکن شناخت اور پہچان کی قوت کمزور پڑ چکی تھی۔ مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کی بھی آخری عمر میں یہی کیفیت تھی، ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو بہت باتیں کیں مگر پہچان نہ پائے، حالانکہ ان کے ساتھ طویل محفلوں کی رفاقت رہی ہے۔ مولانا مفتی زین العابدینؒ اور مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ فیصل آباد کی دینی شناخت تھے۔ ان کے ساتھ مولانا تاج محمودؒ کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ تکون مکمل ہو جاتی ہے جس کے ہاتھ میں طویل عرصے تک فیصل آباد کی دینی تحریکوں کی قیادت رہی ہے۔ فیصل آباد جو کبھی ’’لائل پور‘‘ تھا، فیصل آباد بھی انہی کی مساعی کے نتیجے میں بنا۔

مولانا مفتی زین العابدینؒ کا آبائی تعلق میانوالی سے تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے کسب فیض کیا او رفیصل آباد میں کچہری بازار والی مرکزی جامع مسجد کے خطیب کی حیثیت سے وہاں آئے۔ ایک عرصے تک خطابت کا جادو جگایا، سنجیدہ گفتگو کی پشت پر علم کا سمندر ہوتا تھا، اور خلوص و للٰہیت کی چاشنی اس کا مزہ دوچند کر دیا کرتی تھی۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ان کے جوہر کھلے جس میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا اور قید و بند کے مراحل سے بھی گزرے۔ ذہن سیاسی تھا اور سیاست کے داؤ پیچ خوب سمجھتے تھے مگر مزاج کو اس سے ہم آہنگ نہ کر سکے ورنہ وہ سیاست میں ہوتے تو بہت آگے جاتے۔ انہوں نے اپنی عملی تگ و تاز کے لیے دعوت و تبلیغ کے میدان کو منتخب کیا اور امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کی رفاقت میں اس میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ مولانا محمد یوسف دہلویؒ سے ان کی عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے سب بیٹوں کا نام یوسف رکھا، جو مولانا محمد یوسف اول، مولانا محمد یوسف ثانی، مولانا محمد یوسف ثالث، اور مولانا محمد یوسف رابع کہلاتے ہیں۔

تبلیغی جماعت کی جدوجہد کا میدان عالمی ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس دہلویؒ کی شروع کردہ یہ تحریک عام مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے اور دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم کو مسلم معاشرے میں عام کرنے کے لیے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہے۔ اور یہ معاملہ صرف تعلیم و معلومات فراہم کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے مطابق عملی تربیت دینے اور اس کے رنگ میں رنگنے کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ مولانا مفتی زین العابدینؒ نے بھی اسی میدان کو منتخب کیا اور دین کی بنیادی باتیں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا، لاکھوں لوگوں نے ان کے خطابات کو سنا، ہزاروں افراد کی زندگیاں ان کی صحبت میں بدلیں، اور علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے ان سے دعوت و تبلیغ کا سلیقہ سیکھا۔ علمائے کرام کے اجتماعات میں ان کے خطابات کا رنگ ہی اور ہوتا تھا کہ وہ علمی نکات بیان کرتے، عملی تجربات کا ذکر کرتے، اور منطقی نتائج کی منظر کشی کرتے ہوئے علمائے کرام کو دین کی دعوت و تبلیغ کے کام میں شریک ہونے کے لیے تیار کرتے۔ چنانچہ مولانا مفتی زین العابدینؒ کی جدوجہد کا بنیادی میدان دعوت و تبلیغ تھا اور وہ خود پر اس کے علاوہ کسی اور کام کی چھاپ نہیں لگنے دیتے تھے۔ البتہ دینی جدوجہد کے دیگر شعبوں سے لاتعلق بھی نہیں رہتے تھے بلکہ مشورے اور رہنمائی کی حد تک اس میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ فیصل آباد میں دینی تحریکات کو ہمیشہ ان کی سرپرستی اور راہنمائی حاصل رہی ہے۔ خود مجھے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے متعدد بار ان کی شفقتوں اور مشوروں سے حصہ ملا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی سرزنش کے مراحل سے بھی گزرا ہوں۔ وہ ہمارے کام پر نظر رکھتے تھے، جہاں ضرورت سمجھتے تھے مشورہ دیتے تھے، اہم معاملات میں رہنمائی کرتے تھے، کہیں غلطی دیکھتے تو ٹوکتے اور تنبیہ بھی کرتے تھے۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں اسلامائزیشن کے جو دستوری اور قانونی اقدامات ہوئے، ان میں حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ اور حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کی طویل محنت اور جنرل صاحبؒ سے ان کے مسلسل رابطوں کا بڑا حصہ ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی سب سے زیادہ انہی کے مشوروں پر اعتماد کرتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامائزیشن کے جو دستوری اور قانونی اقدامات ہوئے وہ اگرچہ عملی مراحل سے تو نہیں گزرے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو ختم کرنے اور اسے سیکولر ریاست کی حیثیت دینے میں وہی اقدامات اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ اور حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ جیسے بزرگوں کا خلوص اور دعائیں کار فرما رہی ہیں۔ بلکہ میں ان کے ساتھ حضرت مولانا پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ کو بھی شامل کرنا چاہوں گا کہ ان کے بغیر یہ تذکرہ شاید مکمل نہ ہو پائے کیونکہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی ان معاملات میں مشاورت اور رابطوں کے سرکل کا وہ بھی مسلسل حصہ رہے ہیں۔ مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ نے ایک مرحلے پر مجھے بھی اس دائرے میں لانے کی کوشش کی مگر میں اپنے سیاسی مزاج، افتاد طبع، اور جماعتی پس منظر کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا۔

مولانا مفتی زین العابدینؒ نے جہاں دعوت و تبلیغ کے عمل کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں دن رات ایک کیا اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچے، وہاں انہوں نے فیصل آباد میں ایک معیاری دینی درسگاہ بھی قائم کی جو پیپلز کالونی میں دارالعلوم فیصل آباد کے نام سے دینی تعلیم کے لیے مصروف کار ہے اور حضرت مفتی صاحبؒ کے صدقات جاریہ میں سے ہے۔ گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ تبلیغی جماعت کے بزرگ راہنماؤں میں سے تھے۔ انہوں نے بیک وقت دو محاذ سنبھال رکھے تھے کہ وہ تبلیغی جماعت کے بڑوں میں بھی شمار ہوتے تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی قیادت کا حصہ بھی تھے۔ ان کا حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ مجھے طویل عرصے تک مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی خدمت و نیابت کا شرف حاصل رہا ہے اور اب میں انہی کی جگہ پر خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کو پہلی بار مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے ہاں دیکھا تھا۔

مولانا مفتی زین العابدینؒ کا صدقہ جاریہ ان کی اولاد بھی ہے جو انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی و تعلیمی اور تبلیغی و دعوتی خدمات میں مصروف ہے۔ ان کے داماد مولانا مفتی محمد ضیاء الحق مرکزی جامع مسجد فیصل آباد کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ فرزندان گرامی دارالعلوم کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے فیصل آباد میں سرگودھا روڈ پر واقع نواز ٹاؤن کی ایک دینی درسگاہ جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں مولانا مفتی ضیاء الحق اور مولانا محمد یوسف ثالث سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ اس درسگاہ کے منتظم مولانا حفظ الرحمان بنوری ہیں جو مولانا مفتی ضیاء الحق کے داماد ہیں اور ان کی اہلیہ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی نواسی ہیں۔ دینی خدمات کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی تیسری پشت تک وسیع ہونے کی یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کی نشانیوں میں سے ہے۔

مفتی صاحبؒ یقیناً آج کے دور کے آدمی نہیں تھے، جس دور سے ان کا تعلق تھا اس کی چند ہی نشانیاں باقی رہ گئی ہیں۔ ورنہ زمانہ تبدیل ہو چکا ہے، اقدار بدل گئی ہیں، روایات نے پلٹا کھا لیا ہے، ماحول نے اجنبیت اختیار کر لی ہے، اور شرافت و وضعداری کا دور بھی لد گیا ہےکہ اب ان کی جگہ تصنع، بناوٹ اور تکلفات نے لے لی ہے۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی وفات نے اس تبدیلی کے احساس کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول کرتے ہوئے سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، اور ہم خوشہ چینوں کو ان کی حسنات و روایات کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter