آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کے لیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے مساجد کو محکمۂ اوقاف کی تحویل میں لینے کا عمل، مدارس کو قومیانے کی تجاویز اور وزیرمذہبی امور کی اس سلسلہ میں حالیہ تقریر انہی عزائم کی آئینہ دار ہیں۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سامراجی نظام یورپ کے عیسائی پادریوں کی طرح ملت اسلامیہ کے علماء کی سرگرمیوں کو بھی عبادات و اخلاق کے دائرہ میں محدود کرنے کی بتدریج مساعی میں مصروف ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس گمراہ کن نقطۂ نظر کا جائزہ لے کر عوام الناس کو اس کی فریب کاریوں سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ علماء اسلام کا سیاست میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے۔
(۱) سب سے پہلے اس امر کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام صرف عبادات و اخلاق کے کسی مجموعہ کا نام نہیں بلکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل نظامِ حیات ہے۔ اور اجتماعی و انفرادی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اسلامی تعلیمات کی افادیت و ضرورت سے انکار کرنا کفر ہے۔ عبادات و اخلاق دینِ اسلام کے شعبے ضرور ہیں لیکن صرف انہی میں اسلام منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ اسلام نے نظامِ حکومت، نظامِ اقتصادیات، نظامِ قانون اور نظامِ جہاد بھی انسانیت کو دیا ہے۔ اور ان نظاموں کو قبول کیے بغیر اسلام کا تصور بلاشبہ ناقص، ادھورا اور نامکمل رہے گا۔
مسلم معاشرہ میں ایک عادل اور صالح حکومت کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدینؓ نے یہ بہترین نظام نافذ کر کے اس کی حقانیت، ضرورت اور افادیت واضح کر دی ہے۔ مملکتِ اسلامیہ کے تمام شہریوں کے معاشی حقوق کی نگہداشت اور انہیں روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا اسلامی حکومت کے اہم فرائض میں سے ہے جسے پورا کیے بغیر وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ جرائم کے خاتمہ اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے اسلامی حدود و تعزیرات مثلاً زنا، شراب، قتل، ڈاکہ، چوری، ارتداد وغیرہ جرائم کی شرعی سزاؤں کا نفاذ ناگزیر ہے جس کے بغیر کوئی بھی حکومت اسلامی کہلانے کی حقدار نہیں ہو سکتی۔ اور اس کے ساتھ کفر کی سرکوبی اور مسلمانوں میں ملی غیرت و حمیت برقرار رکھنے کے لیے نظامِ جہاد ضروری ہے اور اس کے بغیر اسلامی سطوت و شوکت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔
یہ تمام امور ایسے ہیں جو براہِ راست قرآن و سنت سے ثابت اور مستفاد ہیں اور نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی طرح ضروریاتِ دین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن و سنت کا علم رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ان امور سے صرفِ نظر کرنا ناممکن ہے اور علم دین سے بہرہ ور کوئی بھی شخص عبادات و اخلاقیات کے ساتھ ساتھ حکومت، اقتصادیات، قانون اور جہاد جیسے اہم معاملات میں قوم کی صحیح اور مکمل راہنمائی کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں سے عند اللہ تعالیٰ و عند الناس عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
(۲) اس کے بعد اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ علماء اسلام نے ہر دور میں ملتِ اسلامیہ کی بھرپور سیاسی راہنمائی کی ہے۔ اور ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جو علماء کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے مسئلہ میں خاموش ہو۔ علماء اسلام نے جہاں مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت اور فقہ و تاریخ جیسے اسلامی علوم کی حفاظت و اشاعت کی ہے وہاں ملت اسلامیہ کو ظلم سے نجات دلانے، نظامِ عدل و انصاف کے مکمل نفاذ اور مسلم حکومتوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ تاریخ اسلام اس قسم کے بے شمار واقعات و شواہد سے بھرپور ہے۔ مثلاً حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی جدوجہد کو سامنے رکھیے، تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت امامِ اعظم کو جیل میں زہر پلا کر شہید کر دیا گیا تھا۔ جرم کیا تھا؟ کیا حکومتِ وقت نے انہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یا عبادات و اخلاص کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے سے روکا تھا؟ یقیناً ایسی بات نہیں تھی بلکہ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ حکومت وقت انہیں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کی مسند پر بٹھا کر بے لوث اصلاح و ارشاد کے لیے ان کی مضبوط آواز کو خاموش کر دینا چاہتی تھی۔ مگر حضرت امام صاحبؒ اس سیاسی خودکشی کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر حضرت امام اعظمؒ نے زہر کا پیالہ تو پی لیا مگر سیاسی جدوجہد سے اپنے قدم پیچھے نہ ہٹائے۔
حضرت امام اعظمؒ کے علاوہ حضرات تابعینؒ، و تبع تابعینؒ اور بعد کے ادوار میں حق و صداقت کی آواز بلند کر کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے علماء کرام کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ ان کے مختصر ذکر کے لیے بھی ایک مفصل کتاب درکار ہے۔ برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ علماء کرام کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے اور علماء کرام کی جدوجہد کو نظر انداز کر کے برصغیر میں ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بھی مکمل نہیں کیا جا سکتا۔
برصغیر کے علماء اسلام نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت مجدد الفؒ ثانی، اور حضرت ملا جیونؒ کی طرح حکمرانوں کی اصلاح کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔ حضرت امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ کی طرح فکر و نظر کے میدان میں سیاسی راہنمائی کی ہے۔ حضرت محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ، حضرت امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ، امیر المومنین حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ کی طرح نظامِ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اسلامی قوانین و اصلاحات کے نفاذ کی مساعی کی ہیں۔ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت علامہ فضل حق خیرآبادیؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت حافظ ضامن شہیدؒ، حضرت مولانا محمد جعفر تھانسیریؒ، حضرت مولانا عنایت علی کاکورویؒ، حضرت مولانا عبد الجلیل شہیدؒ، علماء صادق پور، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت الشیخ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہؒ، حضرت مولانا منصور انصاریؒ، حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا غلام محمد دین پوریؒ، حضرت مولانا تاج محمودؒ امروٹی، حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرح ظلم و جبر اور کفر و الحاد کے نظام سے ٹکر لے کر قربانی و جہاد کی روایات تازہ کی ہیں۔
الغرض علماء اسلام خصوصاً برصغیر کے علماء کی سیاسی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ سیاسیات کا کوئی بھی شعبہ ان کی تگ و تاز سے محروم نہیں ہے۔ اور اس طرح علماء اسلام کا سیاست میں حصہ لینا ان کے ملی و دینی فریضہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے اسلاف و اکابر کی شاندار روایات کا اہم حصہ اور ان کا ورثہ بھی ہے جس سے علماء اسلام کسی صورت میں روگردانی نہیں کر سکتے۔
(۳) فرنگی سامراج کے برصغیر پر تسلط کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا جو تاریخی فتویٰ دیا تھا وہ فرنگی سامراج کے خلاف مسلمانوں کی جنگ آزادی کی بنیاد ہے۔ اس فتویٰ میں حضرت شاہ صاحبؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:
’’دریں شہر حکم امام المسلمین اصلاً جاری نیست و حکم روسائے نصاریٰ بے دغدغہ جاری ست و مراد از اجراء احکام کفرا نیست کہ در مقدمہ ملک داری و بندوبست رعایا و اخذ خراج و باج و عشور اموال تجارت و سیاسیات قطاع الطریق و سراق و فصل خصوصیات و سزائے جنایات کفار بطور حاکم باشند۔‘‘ (فتاویٰ عزیزیہ ص ۱۷ ج ۱ مطبوعہ مجتبائی)
ترجمہ: یہاں روسائے نصاریٰ (عیسائی افسروں) کا حکم بلادغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور کفر کے احکام جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری انتظامات رعیت، خراج باج، عشر و مالگزاری، اموال تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کے تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ میں یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختار مطلق ہیں۔‘‘
گویا شاہ صاحب کے نزدیک فرنگی کے خلاف جہاد کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے سیاست (ملک داری و بندوبست رعایا)، اقتصادیات و معیشت (اخذ خراج و باج و عشور اموال تجارت) اور قانون (سیاسیات قطاع الطریق و سراق و فصل خصومات و سزائے جنایات) کے معاملات میں مداخلت کر کے اپنا نظام نافذ کیا ہے، اس لیے اس کے خلاف جہاد فرض ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اپنے اس تاریخ ساز فتویٰ میں جو جنگ آزادی کی بنیاد بنا، فرنگی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے ظالمانہ نظام کو بھی ہدف تنقید بنایا تھا تو کیا فرنگی کی حکومت ختم ہو جانے اور اس کی ظاہری غلامی سے نجات مل جانے کے ساتھ شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے تمام تقاضے پورے ہوگئے ہیں؟ جبکہ ملک میں ابھی تک فرنگی کا سیاسی، اقتصادی اور قانونی نظام نافذ ہے۔ جواب ظاہر ہے کہ ابھی تک شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ اس فتویٰ کی رو سے خالص اسلام کے نفاذ اور فرنگی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود فرنگی حکومت کے خلاف جہاد فرض تھا۔ اور شاہ عبد العزیزؒ کی پارٹی جو یقیناً علماء اسلام کی پارٹی ہے اس وقت تک اپنے مشن میں کماحقہ کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک شاہ ولی اللہؒ کے فلسفہ ’’فک کل نظام‘‘ کے مطابق فرنگی کے سیاسی، اقتصادی، قانونی، معاشرتی اور تعلیمی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر اسلام کے عادلانہ نظام کی بلند و بالا اور مستحکم عمارت تعمیر نہیں کر لیتی۔
(۴) اس ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ علماء اسلام اسلامی قانون کا نام لے کر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات پاکستان کے ایک سابق صدر نے بھی اپنی تصنیف میں لکھی ہے لیکن اگر اس مفروضے کو عقل کی ترازو پر تولا جائے تو یہ بالکل بے وزن ہو جاتا ہے۔
اولاً اس لیے کہ علماء کسی خاص نسل یا طبقے کا نام نہیں جس کی اجارہ دارہ سے خوف محسوس کیا جا سکے۔ بلکہ قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم سے تعلق رکھنے والا ہر شخص عالم دین ہے اور منطقی بات ہے کہ جب قرآن و حدیث کو اپنا راہ نما مانا جائے گا تو علماء کرام کی راہنمائی قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اور چونکہ قرآن و حدیث کا نظام علماء قرآن و حدیث کی راہ نمائی کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا اس لیے علماء کی راہ نمائی سے گریز عملاً خود قرآن و حدیث کے نظام سے گریز ہے جسے ملا کی اجارہ داری قبول کرنے سے انکار کے حسین غلاف میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔
ثانیاً اس لیے کہ جن حضرات کو ملا کی اجارہ داری سے بہت زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے ہم ان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود اپنا کچھ وقت صرف کر کے قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم سے بہرہ ور ہوں۔ اور یقین رکھیں کہ جب وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کر سکیں تو علماء کہلانے والے لوگ ان کی راہ نمائی بلکہ اجارہ داری تک کو قبول کر کے اسلامی نظام کی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہوں گے۔علماء کو اجارہ داری سے غرض نہیں، آپ اپنی اجارہ داری قائم رکھیے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم سے آپ بہرہ ور ہوں۔ اور اگر آپ خود اسلامی علوم سے تعلق خاطر نہ رکھیں اور ان علوم کی مہارت رکھنے والے علماء کی راہ نمائی کو ’’ملا کی اجارہ داری‘‘ کا عنوان دے کر مسترد کرتے رہیں تو انصاف سے کہیے کہ آپ وطنِ عزیز میں اسلام کے عادلانہ نظام کو کس طرح نافذ کر سکیں گے؟ اور کیا آپ کے اس طرز عمل کو ’’ملا کی اجارہ داری سے انکار‘‘ کے نام سے براہ راست اسلامی نظام سے انکار قرار دینے میں کوئی منطقی قباحت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فرنگی ذہن رکھنے والے عناصر ملا کو سامنے رکھ کر اصول اسلام پر دبیز پردے ڈالنے کے درپے ہیں تاکہ
(۵) اس سلسلہ میں ایک اور بات جو کہی جا سکتی ہے اور بعض حلقوں سے اس کی صدا سنائی بھی دیتی ہے کہ بلاشک علماء کرام سیاسی، اقتصادی، قانونی، معاشرتی اور تعلیمی امور میں مسلمانوں کی راہ نمائی کرتے رہیں لیکن عملی طور پر سیاست میں حصہ نہ لیں کیونکہ اس طرح ان کی راہ نمائی ہمہ گیر نہیں رہے گی، ان کے مخالف سیاسی گروہ ان کی راہ نمائی قبول کرنے سے ہچکچائیں گے اور علماء سیاسی دھڑے بندیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ ایک حد تک بظاہر اس بات میں کچھ وزن محسوس ہوتا ہے لیکن جب ہم تجربات کی دنیا میں آتے ہیں تو تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ علماء کرام کو اپنے مشن میں اسی دور میں کامیابی ملی ہے جب انہوں نے سیاسی قوت کو، اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اور شاید کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی قوت کے بغیر محض راہ نمائی کے ذریعے علماء کرام معاشرہ میں کوئی انقلابی تبدیلی پیدا کر سکے ہوں۔
اورنگ زیب عالمگیر جو ایک جید عالم دین تھے، اپنے وسیع وطن میں قرآن و سنت اسی لیے نافذ کر سکے تھے کہ انہوں نے اپنے باپ اور بھائیوں کو شکست دے کر سیاسی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کو پشاور کے صوبہ میں ۱۸۳۱ء میں کچھ عرصہ کے لیے نظامِ اسلامی نافذ کرنے میں اسی لیے کامیابی نصیب ہوئی تھی کہ قوت و اقتدار پر خود ان کا قبضہ تھا، اور جہاد ۱۸۵۷ء کے دوران شاملی کے علاقہ میں امیر المؤمنین حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے ہاتھوں شرعی قوانین کا کچھ دنوں کے لیے اسی لیے اجراء ممکن ہوا تھا کہ انہوں نے سیاسی قوت و اقتدار کو کنٹرول کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ اور ماضی قریب میں دو بزرگوں کا سیاسی طرزِعمل تو ہمارے لیے فکر و نظر کے سارے در وا کر دیتا ہے۔ ایک طرف حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ کی سیاسی جدوجہد ہے کہ انہوں نے اپنے رفقاء کی معیت میں تحریک پاکستان کی کامیابی کے لیے سرتوڑ کوشش کی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ کی کامیابی علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور ان کے رفیق کار مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کی شبانہ روز محنت کا ثمرہ تھی۔ اسی لیے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں مولانا شبیر احمدؒ عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کو پاکستان کا پرچم لہرانے کے اعزاز سے نوازا گیا۔
لیکن بدقسمتی سے یہ بزرگ صرف رہنمائی کے دائرہ میں محدود رہے، انہوں نے سیاسی قوت حاصل کرنے سے گریز کیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ قرآن و سنت کے نظام کے نام پر پاکستان کے لیے لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے والے یہ بزرگ قیام پاکستان کے بعد نظامِ قرآن و سنت کے لیے ایک عدد ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی منظوری کے سوا عملاً کچھ نہ کر سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے، یقیناً انہوں نے اپنی حد تک سعی کی لیکن سیاسی قوت نہ ہونے کے سبب وہ کچھ نہ کر سکے اور خون کے آنسو روتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان کے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی تصنیف ’’الشہاب‘‘ خود حکومت پاکستان نے ضبط کر لی لیکن پاکستان کی حمایت میں جان جوکھوں میں ڈالنے والے علماء کرام کا یہ بزرگ گروہ اس کتاب کی آزادی کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ یہ بے بسی اسی لیے تھی کہ ان کے پاس سیاسی قوت نہ تھی، وہ زور سے اپنی بات منوا نہ سکتے تھے۔ اور ظاہر بات ہے کہ آج کے دور میں سیاسی قوت و اقتدار کے بغیر محض راہ نمائی سے انقلاب و اصلاح کی بات محض پانی بلوہنے کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔
اس کے برعکس علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ہی کی جمعیۃ علماء اسلام کو ازسرِنو زندہ و متحرک کرنے والے علماء کی سیاسی جدوجہد پر ایک نظر ڈالیے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے دوبارہ احیاء کے بعد قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود، مجاہد سرحد حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ اور ان کے رفیق علماء نے براہ راست سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد جب صوبہ سرحد میں جمعیۃ کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت سے اپنے مشن کے لیے فائدہ اٹھائے تو اس نے ایک لمحہ کے لیے گریز نہیں کیا۔ صوبہ سرحد میں قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے دونوں پارٹیوں کی مشترکہ حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اپنی حیثیت صرف راہ نمائی تک محدود نہ رکھی۔ چنانچہ سیاسی قوت خود حاصل کی، وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کیا اور اسی لیے وہ صوبہ سرحد میں شراب پر پابندی، تقاوی سود کی معافی، جوئے پر پابندی، اردو کو سرکاری زبان قرار دینے، فرنگی لباس کی بجائے شلوار قمیص کو دفتری لباس قرار دینے، سکول و کالج میں اسلامی تعلیم کو لازمی قرار دینے اور اس جیسی بیس سے زائد اسلامی اصلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اگر مفتی صاحب اور جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد میں سیاسی قوت خود حاصل کرنے کی بجائے محض معاونت و راہ نمائی کے دائرہ میں ہی خود کو محدود رکھتے تو یقیناً ان کی بے بسی بھی قابل دید ہوتی۔ جیسا کہ آج کل سرحد و بلوچستان میں ’’شریعت‘‘ کے نام سے وزارتوں کے نعرے والے ’’ملا‘‘ بے دست و پا نظر آتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ جب تک علماء کرام خود سیاسی قوت حاصل نہیں کر لیتے، اصلاح و انقلاب کے لیے ان کی کوئی سی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہی وجوہ کی بنا پر جمعیۃ علماء اسلام سیاسی میدان میں سرگرمِ عمل ہے اور وہ بلاریب یہ سمجھتی ہے کہ اس کی سیاسی جدوجہد:
۱۔ اسلام کے مکمل نظامِ حیات کی آئینہ دار ہے۔
۲۔ ان کے عظیم اسلاف و اکابر کا قیمتی ورثہ ہے۔
۳۔ تحریکِ آزادی کا ایک اہم اور فیصلہ کن حصہ ہے۔
۴۔ نظامِ قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے ضروری ہے۔
۵۔ اور اس کے مشن کی عملی ضروریات کے لیے ناگزیر ہے۔
اس لیے ہم اسلامیانِ پاکستان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملی و دینی فرائض کو پہچانیں اور مندرجہ بالا عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے جمعیۃ علماء اسلام میں شامل ہو کر عملی جدوجہد کریں۔ جمعیۃ علماء اسلام کا مقصد یہی ہے کہ علماء اسلام کی راہ نمائی میں اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی جائے۔ یہ صرف علماء کی جماعت نہیں، اس کے دروازے وکلاء، طلبہ، دانشوروں، مزدوروں، کسانوں، تاجروں اور زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے کھلے ہیں۔
آئیے اور وطنِ عزیز پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بنانے کے لیے اپنا فرض ادا کیجئے۔ جمعیۃ علماء اسلام کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے حاضر ہے، کیا آپ یہ مخلصانہ دعوت قبول فرمائیں گے؟