حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ شاہ فیصل شہید کے جنازے میں شرکت کے لیے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سعودی عرب گئے تو قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے طور پر مفتی صاحبؒ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ دوران سفر گفتگو میں بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے دریافت کیا کہ مفتی صاحب آپ نے ہٹلر کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے؟ مفتی صاحبؒ نے جواب دیا کہ میں نے تو نہیں پڑھی، کیا آپ نے پڑھی ہے؟ بھٹو صاحب نے کہا کہ میں نے کئی بار پڑھی ہے اور وہ ہر وقت میرے مطالعہ کی مخصوص کتابوں میں موجود رہتی ہے۔ مفتی صاحبؒ نے پوچھا کہ کیا اس کا آخری باب بھی پڑھا ہے؟ مولانا مفتی محمودؒ کا کہنا تھا کہ بھٹو مرحوم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور گفتگو کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا۔
یہ مکالمہ کل شام اس وقت اچانک یاد آگیا جب گوجرانوالہ کے ایک قانون دان محمد اقبال بھٹی ایڈووکیٹ میرے پاس بیٹھے ’’خدمت کمیٹیوں‘‘ کے متوقع کردار اور اس کے نتائج پر بحث کر رہے تھے۔ اور اس خیال کا اظہار کر رہے تھے کہ مسلم لیگی حکومت ان کمیٹیوں سے وہی کام لینا چاہ رہی ہے جو ہٹلر نے سوسائٹی کے مختلف شعبوں پر گرفت قائم رکھنے کے لیے نازی پارٹی کے کارکنوں سے لیا تھا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جس روز اسلام آباد کی فیصل مسجد میں خدمت کمیٹیوں کے ارکان سے حلف لیا راقم الحروف بھی اس روز وفاقی دارالحکومت میں تھا۔ برطانیہ سے ہمارے دو محترم دوست مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور مولانا اورنگزیب خان آئے ہوئے تھے۔ مولانا رضاء الحق کا تعلق آزادکشمیر کے علاقہ سیاکھ سے ہے، وہ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل ہیں اور برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں جامعہ الہدیٰ کے نام سے ایک دینی ادارہ چلا رہے ہیں۔ جبکہ مولانا اورنگزیب خان ان کے معاون ہیں۔ آخر الذکر نے فیصل مسجد اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی اور ہم انہیں فیصل مسجد دکھانے کے لیے عصر کی نماز سے کچھ دیر بعد وہاں گئے۔ مولانا اللہ وسایا قاسم بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم فیصل مسجد پہنچے تو حلف برداری کی تقریب ختم ہو چکی تھی اور اس کے شرکاء واپس جا رہے تھے، اس لیے ہم اس تقریب کا منظر تو نہ دیکھ سکے البتہ تقریب کے شرکاء اور خدمت کمیٹیوں کے ارکان میں سے بہت سے چہرے دیکھ لیے۔ مولانا اورنگزیب خان نے گھوم پھر کر مسجد کا معائنہ کیا اور اسی دوران میرے جوتے گم ہوگئے جو مسجد کے مین ہال کے ایک دروازے پر جوتوں کے لیے بنے ہوئے ریک میں رکھے تھے مگر واپسی پر دیکھا تو غائب تھے۔ مولانا اللہ وسایا قاسم نے اپنے جوتے مجھے پہنا دیے اور خود ننگے پاؤں چل پڑے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، بات خدمت کمیٹیوں پر محمد اقبال بھٹی ایڈووکیٹ کے تبصرے کی ہو رہی تھی جو اس بات پر مصر ہیں کہ یہ خدمت کمیٹیاں صرف حکومتی پارٹی کے ایک ’’لابنگ گروپ‘‘ کے طور پر سامنے لائی گئی ہیں جن کا عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ حکمران جماعت بیوروکریسی کے جس فرد کو کارنر کرنا چاہے گی اس کے خلاف یہ خدمت کمیٹیاں ایک اچھی آڑ بن سکیں گی، اور اس طرح مسلم لیگی حکومت نوکر شاہی کے جن کو قابو میں لانے کے لیے اپنے پروگرام کو آگے بڑھا سکے گی۔ اقبال بھٹی کے ذہن میں یہ اشکال بھی ہیں کہ ان خدمت کمیٹیوں کے لیے جن اختیارات کی بات کی جا رہی ہے ان کا فریم ورک کیا ہوگا؟ اور انہیں اختیارات تفویض کیے جانے کے بعد مختلف محکموں میں احتساب اور بازپرس کا پہلے سے چلا آنے والا داخلی سسٹم کہاں جائے گا؟ اور اگر وہ موجود رہے گا تو فائنل پوزیشن کسے حاصل ہوگی؟ اگر فائنل اتھارٹی وہی سابقہ سسٹم رہے گا تو پھر اتنے لمبے چکر کا کیا فائدہ کہ بات تو شرعی عدالتوں کی طرح گھوم گھما کر اسی جگہ آجائے گی کہ اصل اتھارٹی وہی پہلے سے چلا آنے والا سسٹم ہے اور یہ نیا نظام محض ایک ’’شوپیس‘‘ ہے جو نیاپن دیکھنے کے خواہش مند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
اقبال بھٹی نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد مجھے تبصرہ کرنے کے لیے کہا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے ان کی ’’لابنگ گروپ‘‘ والی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف حکومتی نظام اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں کو ’’پارٹی‘‘ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور انہیں کسی ستم ظریف نے ’’نازی پارٹی‘‘ کے طریق کار پر کوئی کتاب پڑھا دی ہے یا کم از کم ایران کے ’’پاسداران انقلاب‘‘ کا تصور ان کے ذہن کے کسی گوشے میں ضرور موجود ہے۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا ہے اور تمام اہم آئینی اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کر لیے ہیں، اس کے بعد مسلم لیگی کارکنوں اور بہی خواہوں پر مشتمل خدمت کمیٹیوں کے مجوزہ اسٹرکچر کا اس کے سوا کوئی مقصد متعین نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ سب کچھ ایک خوبصورت خواب اور خوش فہمی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتا، کیونکہ بات کسی پارٹی یا تحریک کے طریق کار کو اسٹڈی کرنے اور اسے اختیار کر لینے سے نہیں بن جاتی بلکہ اس کے لیے مطلوبہ قیادت اور تربیت یافتہ کارکنوں کی کھیپ کی بھی ہر سطح پر ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے مسلم لیگ کے پاس نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے پاس پہلے اور آخری لیڈر قائد اعظم تھے جن کی وفات کے بعد اس جماعت کو آج تک کوئی لیڈر نہیں ملا اور اس کے نظریاتی کارکن یا تو قبروں میں جا چکے ہیں اور یا پھر چوہدری محمد حسین چٹھہ طرز کے اکا دکا حضرات حسرت اور بے بسی کی تصویر بنے ’’کھڈے لائن‘‘ لگے ہوئے ہیں۔
اب یہ بات میاں محمد نواز شریف کو کون سمجھائے کہ نہ وہ ’’ہٹلر‘‘ ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ کی موجودہ کھیپ میں ’’نازی پارٹی‘‘ کی سی صلاحیتوں اور استعداد کار کا دور دور تک کوئی سراغ ملتا ہے۔ اس لیے محض ’’نسخہ ہاتھ لگ جانے‘‘ سے کچھ نہیں ہوگا، یہ غریب قوم اس قسم کے تجربات کے بیلنے سے کئی بار گزر چکی ہے، اسے ایک بار پھر اس میں سے گزارنے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اور اگر کچھ عناصر انہیں ’’ہٹلر‘‘ بنانے پر تل ہی گئے ہیں اور مصنوعی ذرائع اور سہاروں سے ’’ہلاشیری‘‘ دے کر انہیں اس راستے پر بہرحال آگے لے جانا چاہتے ہیں تو ہم ان کے لیے وہی مشورہ دہرانا چاہیں گے جو مولانا مفتی محمود نے بھٹو مرحوم کو دیا تھا کہ ہٹلر کی کتابِ حیات کا آخری باب بھی پڑھ لیں کہ اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔