’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۱۰)

   
۲ مئی ۱۹۶۹ء

(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۱۰)

اجارہ داری کی کمپنیاں

معدنیات سے متعلق اجارہ داری کا معاملہ عموماً کمپنی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اور ملک کا وہ بہترین سرمایہ جو زیادہ سے زیادہ انسانوں بلکہ حکومت کی تمام آبادی کے لیے مفید اور نفع بخش ہو سکتا ہے، اس طرح افراد کے اندر محدود ہو جاتا اور آخر کار عام بدحالی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اسلام ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار نہیں ہے۔

ملیں اور کارخانے

جب صنعت و حرفت انسانی ہاتھوں سے نکل کر مشینوں اور کلوں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے تو ’’سرمایہ دار‘‘ کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھل جاتی ہے اور وہ ملیں اور کارخانے قائم کر کے خدا کے اپنے ہی جیسے بندوں، غریبوں اور مزدوروں پر آقائی بلکہ العیاذ باللہ خدائی کرتا ہے۔ وہ مزدوروں کے نام سے ان کی جان و مال اور آبرو پر قابض ہو جاتا، اور انسانوں کو غلاموں کی طرح نہیں بلکہ حیوانوں کی طرح اپنے مفاد کی قربان گاہ پر چڑھانے کا عادی بن جاتا ہے۔ اور طرفہ تماشا یہ کہ اس دورِ تہذیب و تمدن کے موجد، جو غلامی کو لعنت کہتے اور اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر لیکچر دیتے رہتے ہیں، غلامی کے اس اقتصادی جال کو نہ صرف جائز بلکہ اپنی حکومتوں اور شہنشاہیتوں کی ترقی کے لیے بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سرمایہ اور محنت میں توازن

اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں اس جگہ بھی مذموم سرمایہ داری کی حمایت نہیں کی، بلکہ سرمایہ و محنت میں ایک ایسا معتدل توازن قائم رکھا ہے کہ اس کے بعد اس (طبقاتی) جنگ کے لیے کوئی جگہ ہی باقی نہیں رہتی۔ اسے یہ معلوم ہے کہ ’’سرمایہ دار‘‘ مزدور کو کن راہوں سے برباد کرتا ہے، سو اگر وہ راہیں بند کر دی جائیں تو پھر تعاون اور امدادِ باہمی کا وہ قانون، جو انسان کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے، یہاں بھی بغیر افراط و تفریط کے صحیح کل پرزوں سے چل سکتا ہے۔

(۱) پہلی گرہ جو اس جال میں مزدور کو پھنسانے کے لیے لگائی گئی ہے وہ ’’اجرت کی کمی‘‘ ہے۔ وہ نادار ہے، مفلس ہے، بے چارہ ہے، فاقہ کش ہے، اس لیے اس کی محنت کا صلہ (مثلاً) ایک روپیہ ہونے کے باوجود سرمایہ دار اس کو چار آنے پر راضی کر لیتا ہے۔

(۲) دوسری گرہ یہ لگائی گئی ہے کہ کم سے کم مزدوری میں مزدور سے کام زیادہ لیا جائے۔ اور اس کو بھی وہ اپنے افلاس اور تنگ حالی بلکہ فاقہ کشی کی خاطر منظور کر لیتا ہے۔ لیکن اسلام اپنے نظام میں مفلس اور صاحبِ حاجت کی اس رضامندی کو ’’مرضی‘‘ تسلیم نہیں کرتا۔

(۳) سرمایہ دار کے جال کے گرہوں میں سے تیسری گرہ یہ ہے کہ مزدور کی اجرت معین نہ کرے اور اس کی غربت سے فائدہ اٹھا کر یونہی کام پر لگائے۔ اور کام مکمل کرانے کے بعد جو اجرت چاہے دے دے۔ اسلام نے اس کو بھی ناپسند اور ناجائز کہا ہے اور ایسے معاملہ کو خیانت سے تعبیر کیا ہے۔

(۴) چوتھی گرہ یہ ہے کہ حقِ محنت تو مقرر کر دیا جائے لیکن ادائیگی میں من مانی روکاوٹیں، پریشان کن ترکیبیں، اور جبر و ظلم کے طریقے اختیار کیے جائیں۔ اسلام نے ایسا کرنے کو بد معاملگی اور ظلم قرار دیا ہے۔

(۵) چوتھی (پانچویں) گرہ یہ ہے کہ مزدور کے حق تلف کرنے اور بہانہ سازی سے سرمایہ داری کو فروغ دینے کے لیے مزدور پر کام خراب کر دینے کا الزام لگا کر دیے ہوئے چند ٹکے بھی جرمانہ کے نام سے واپس لے لیے جائیں۔ اسلام نے فیصلہ دیا ہے کہ اجیر مشترک یا خاص کاریگر سے مال میں نقصان ہو جانے یا مالک کے ہلاک ہو جانے سے کوئی تاوان نہیں۔

وراثت

مذموم سرمایہ داری اور اکتناز کی ایک بدترین شکل یہ ہے کہ دولت ایک جگہ جمع ہوتی رہے اور مرنے کے بعد بھی وہ ورثاء میں تقسیم نہ ہو بلکہ اسٹیٹ کی شکل میں ایک ہی جگہ محفوظ رہے۔ موجودہ زمانہ کے تعلقے اور ریاستیں اگر ورثاء تقسیم ہوتی رہتیں تو آج ایک بھی تعلقہ، ایک بھی ریاست نظر نہ آتی بلکہ تقسیم ہو ہو کر دولت کے یہ خزانے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کے درمیان چلتی پھرتی چھاؤں کی طرح نظر آتے۔

اسلامی قانونِ وراثت میں تقسیمِ دولت کا جو طریقہ رائج ہے وہ ایسا معتدل اور مدبرانہ ہے کہ اگر صحیح طور پر اس کو اختیار کیا جائے اور سوسائٹی میں اس کا رواج عام ہو جائے تو نہ اس سے سرمایہ دارانہ دولت پیدا ہونے کا امکان باقی رہتا ہے اور نہ افراد و اشخاص کے درمیان افلاس و فاقہ مستی کو فروغ ہو سکتا ہے۔

حصہ دوم کے شعبے

اسلام کے معاشی نظام میں حکومت پر براہِ راست جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا ذکر صفحاتِ گزشتہ میں تفصیل کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اب مختصر طور پر بعض ان ذمہ داریوں کا تذکرہ کر دینا بھی مناسب ہے جو نظامِ اسلامی میں قانون کی حیثیت رکھتیں بلکہ ترغیب و تلقین اور اخلاقی خطابت کے ذریعہ پبلک کو ان کی جانب توجہ دلاتی ہے۔

صدقاتِ نافلہ

اسلام کے معاشی نظام میں ’’انفرادی صدقات‘‘ کو بھی اہمیت حاصل ہے اور زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ بھی اسلام نے حاجت مندوں کی وقتی حاجات کے لیے انفرادی رعایا کو ’’عملِ خیر‘‘ کہہ کر اس کے لیے ترغیب دی ہے۔

اوقاف

انفاق فی سبیل اللہ کے اخلاقی وسائل میں سے ایک بہترین وسیلہ ’’وقف‘‘ بھی ہے۔ اس لیے اسلام کے معاشی نظام نے اس کے اجراء اور توسیع کے لیے بہت زیادہ ترغیب دی ہے اور صحابہؓ نے اس کا عملی مظاہرہ کر کے اس کو مستحکم اور مضبوط بنا دیا ہے۔

ہبہ

اجتماعی معاشی نظام میں ہبہ بھی ایک مفید طریق کار ہے۔ اس کی افادیت کی شکل یہ ہے کہ ایک متمول شخص اگر اپنے ذاتی حقوق اور اجتماعی حقوق سے سبکدوشی کے بعد بھی فاضل مال پاتا ہے تو اس کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ اس فاضل مال کو حاجت مندوں کی حاجت میں صَرف کرے۔

وصیت

وصیت بھی بظاہر ایسے امور میں سے ہے جن کے متعلق یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ اس کا بھی کوئی تعلق معاشی نظام سے ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بے شبہ اس کو بھی معاشی نظام میں ایک حد تک مفید دخل ہے۔ اسلامی شریعت میں کسی شے کو یا اس کے منافع کو بہ طریق حسنِ سلوک یہ کہہ دینا یا لکھ دینا کہ میری موت کے بعد فلاں کے لیے ہے، وصیت کہلاتا ہے۔ مگر اب چونکہ اس کے مال میں ورثہ کا حق بھی شامل ہو گیا ہے اس لیے شریعت نے صرف ثلث (تہائی) میں وصیت کو جائز اور نافذ قرار دیا ہے۔

قرض حسنہ

انفاق فی سبیل اللہ اور تعاونِ باہمی کے وسائل میں سے ایک مفید اور کارآمد وسیلہ ’’قرض حسنہ‘‘ بھی ہے۔ یہ حاجت مند کی وقتی حاجت روائی کا ذریعہ بھی ہے اور غریب اور بے مایہ انسانوں کو تجارتی، زراعتی یا صنعتی کاروبار کے لیے بھی مؤثر وسیلہ ہے۔ قرضِ حسن کی تعریف یہ ہے کہ ایک دولت مند کسی ضرورت کے انسداد اور اس کی حاجت روائی کے لیے اس طرح اپنی رقم سے اس کو فائدہ پہنچائے کہ اس کا کوئی بدل (سود) اس سے حاصل نہ کرے۔

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter