’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۱۰)
اجارہ داری کی کمپنیاں: معدنیات سے متعلق اجارہ داری کا معاملہ عموماً کمپنی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اور ملک کا وہ بہترین سرمایہ جو زیادہ سے زیادہ انسانوں بلکہ حکومت کی تمام آبادی کے لیے مفید اور نفع بخش ہو سکتا ہے، اس طرح افراد کے اندر محدود ہو جاتا اور آخر کار عام بدحالی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اسلام ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۸)
(۵) وہ معاملہ جس میں دھوکا اور فریب مضمر ہو۔ مثلاً ایک شے کی خرید یا فروخت منظور ہے مگر خاص غرض کے ماتحت معاملہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور ایک دوسری شے کے ضمن میں اس کو لے لیا گیا ہے۔ اس طرح اگر ضمنی شے جو بہت ناقص ہے یا سب سے بہتر ہے اس معاملہ کے اندر شامل ہو گئی تو معاملہ کر لیا، ورنہ معاملہ کی تمام شرائط مکمل ہو جانے کے بعد معاملہ سے انکار کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۷)
(۱) تالاب، کھیتیاں، جوہڑ، کنوئیں اور چشمے اگر شخصی ملکیت نہیں ہیں تو ان میں تمام پبلک کا یکساں حقِ انتفاع ہے اور وہ کسی بھی حال میں شخصی ملکیت نہیں بن سکتے۔ (۲) اگر یہ ’’پانی‘‘ شخصی ملکیت میں بھی ہو تب بھی عام حالات میں پینے اور استعمال کرنے کے لیے دوسروں کو اس سے یکساں فائدہ اٹھانے کا حق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۵)
اسلام کے دستوری نظام میں خراج، جزیہ، عشر، زکوٰۃ، فئی، عشور خمس، وقف اور اس قسم کے محاصل اسی غرض سے مقرر کیے گئے ہیں کہ وہ ملک کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کے کام آئیں، اس لیے وہ عام طور پر مزید ٹیکس عائد کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ البتہ اگر بیت المال کے یہ مسطورہ بالا محاصل ان ضروریات کو کافی نہ ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۳)
قرآنی نصوص اور ان کی مؤید احادیثِ رسول اور ان سے مستنبط فقہی احکام یہ واضح کرتے ہیں کہ ’’حقِ معیشت کی مساوات‘‘ کا یہ نظریہ منشاء الٰہی کے خلاف نہیں بلکہ عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ اور یہ جدید نظریہ نہیں ہے کہ مارکسزم کی حمایت اس سے مرعوبیت کی بنا پر احکامِ اسلامی کی انوکھی تعبیر کے ذریعہ وجود میں آیا ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۲)
کیونکہ وہ ’’معاشی نظام‘‘ کے جس ماحول میں جدوجہد کر رہا ہے اس کی بنیاد زیادہ سے زیادہ نفع کمانے اور سودے بازی پر قائم ہے، اور یہ صرف اربابِ دولت و ثروت ہی کو اور زیادہ بلند کرتا اور باقی تمام انسانی آبادی کو افلاس و احتیاج سے دوچار بناتا ہے۔ یہاں رفعِ حاجات و تکمیلِ ضروریات کے محرکات کام نہیں کرتے جو عام رفاہیت کا پیغام لائیں اور خوشحالی کو بحال کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر