شریعت ایکٹ کیا ہے؟

   
-

گزشتہ روز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومت کی طرف سے دستور میں ترمیم کا ایک بل پیش ہوا ہے، جس میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا گیا ہے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس موقع پر ایوان سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں قرآن و سنت کی حکمرانی قائم کریں گے۔

اس پر ملک کے دینی و سیاسی حلقوں کی طرف سے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ بہت سی جماعتوں اور راہنماؤں نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے تعاون کا یقین دلایا ہے اور بعض قائدین نے خدشات اور شبہات کا اظہار کر کے اسے حکومت کی بقا و استحکام کا ایک بہانہ قرار دیا ہے۔ مگر اس پر اظہار خیال سے پہلے ہم دستور پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی کی جدوجہد کا مرحلہ وار جائزہ لینا چاہتے ہیں، جو پاکستان کے نام سے ایک نئی مسلم مملکت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کی تشکیل کی بنیاد جداگانہ مسلم قومیت کے اصول پر ہوئی تھی اور اس نئے ملک کے الگ وجود کا جواز ہی یہ پیش کیا گیا تھا کہ مسلم قوم جداگانہ نظریاتی اور تہذیبی تشخص رکھتی ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کے عملی اظہار کے لیے الگ ملک کا قیام ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک سے زائد بار کھلے بندوں اس امر کا اعلان کیا کہ پاکستان کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہو گا اور اس نئی مملکت میں اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔ قائد اعظم کے اسی اعلان کی بنیاد پر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، خواجہ قمر الدین سیالویؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ جیسے اکابر علماء امت نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور لاکھوں مسلمانوں نے اس جدوجہد میں قربانیاں دے کر اسے تکمیل تک پہنچایا۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء میں ”قرارداد مقاصد“ کے نام سے پاکستان کی دستوری اساس طے کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کتاب و سنت کی روشنی میں ملک کا نظام چلائیں گے۔ یہ اس امر کا اعلان تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کا طرزِ حکومت اس لحاظ سے جمہوری ہو گا کہ ملک کا نظام چلانے والے عوام کے منتخب نمائندے ہوں گے، لیکن وہ حکومت اور قانون سازی میں آزاد نہیں ہوں گے بلکہ قرآن و سنت کے اصول و ضوابط کے پابند ہوں گے۔ یہ آج کے دور میں ایک صحیح اسلامی حکومت کی بنیاد تھی جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے طے کی اور اس میں تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے بنیادی کردار ادا کیا۔

مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے ہی اسلام کے نام پر بننے والی اس نئی ریاست کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا، جس کا سب سے زیادہ نشانہ دستور سازی کا عمل بنا رہا اور دستور کی تشکیل کا کام ان مسلسل سازشوں کی وجہ سے اس طرح پٹڑی سے اترا کہ یہ ملک اپنے قیام کے بعد ربع صدی تک مختلف دستور فارمولوں کی تجربہ گاہ بنا رہا۔

اس دوران ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء میں دو دستور آئے، جو ناکام ثابت ہوئے۔ ان میں قرارداد مقاصد کو شامل کیا گیا، مگر ایک دیباچہ کے طور پر کہ دستور کی زبان میں وہ محض تبرک تھا اور اس کے کسی حصے کی پابندی ملک کے کسی ادارے اور فرد کے لیے لازمی نہیں تھی۔ ان دستوروں میں کتاب و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہ کرنے کی ضمانت دی گئی اور ۱۹۵۶ء کے دستور میں اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ کا وعدہ بھی کیا گیا، لیکن ان دستوری تجربوں کی ناکامی کے ساتھ ہی ملک بھی دولخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء میں ایک نیا دستور منظور کیا، جو اب بھی ملک کا رائج الوقت دستور ہے۔

۱۹۷۳ء کی دستور ساز اسمبلی میں ایوان کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ہاتھ میں تھی، جو ”اسلامی سوشلزم“ کے علمبردار تھے اور جن کے منشور میں جمہوریت کو سیاست اور سوشلزم کو معیشت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اسلام کو محض ایک مذہب کے درجے میں رکھا گیا تھا۔ لیکن انہیں دستور سازی میں جس مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا اس کی قیادت مولانا مفتی محمودؒ کر رہے تھے اور انہیں مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد الحق، مولانا محمد ذاکرؒ، پروفیسر غفور احمد اور چوہدری ظہور الٰہی مرحوم جیسے سرکردہ رفقاء میسر تھے، جن کی وجہ سے یہ اپوزیشن ارکان کی تعداد کم ہونے کے باوجود ملک کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ سخت جان اپوزیشن ثابت ہوئی۔

دستور سازی کی اس پارلیمانی جنگ میں مولانا مفتی محمودؒ کو ایک اور فوقیت حاصل تھی، جسے انہوں نے پوری مہارت اور تدبر کے ساتھ استعمال کیا کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مفتی صاحب کی جمعیت علماء اسلام کا خان عبد الولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ معاہدہ تھا، جس کی رو سے نیپ دستور سازی کے اسلامی معاملات میں جمعیۃ کا ساتھ دینے کی پابند تھی اور سرحد اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی یہی دو ……

(مضمون کا بقیہ حصہ دستیاب نہیں ہو سکا)

   
2016ء سے
Flag Counter