ایشیا کے بزرگ ترین سیاستدان اور اسلامی تعاون تنظیم کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہاتیر محمد ترانوے سال کی عمر میں ایک بار پھر انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے ہیں اور ملکی پالیسیوں میں اپنی ترجیحات اور ایجنڈے کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مہاتیر محمد کے سابقہ دور حکمرانی سے واقفیت رکھنے والے میرے جیسے بے شمار نظریاتی لوگوں کو ان کی دوبارہ واپسی پر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ چنانچہ الیکشن میں ان کی کامیابی کی خبر سن کر میری زبان سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ مغرب کے رجب طیب اردگان کو مشرق سے ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسا ساتھی مل گیا ہے‘‘۔ مجھے ایک موقع پر آکسفورڈ کے اسلامک سنٹر کی تقریب میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کا خطاب سننے اور گفتگو کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے، وہ اس وقت حکمرانی سے الگ ہو چکے تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ نائن الیون کے سانحہ کے وقت آپ اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کے سربراہ تھے جب پاکستان کو اچانک اپنی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں میں ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑا تھا جسے میں ’’اباؤٹ ٹرن‘‘ سے تعبیر کیا کرتا ہوں، اس وقت آپ کوئی کردار کیوں ادا نہیں کر سکے؟ انہوں نے حسرت بھرے لہجے میں مختصر جواب دیا کہ آپ نے تو مشورہ کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور امریکی وزیرخارجہ کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوگئے جبکہ میں آپ کی طرف سے رابطہ کے انتظار میں تھا، اب اس کے بعد میں کیا کر سکتا تھا؟ آپ اگر بروقت رابطہ اور مشورہ کرتے تو شاید ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد کی واپسی پر میں اپنی خوشی، توقعات اور جذبات کے اظہار کے لیے بہت کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر اپنے بعض سابقہ مضامین پر نظر ڈالی تو مزید کچھ لکھنے کی سردست ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ چنانچہ ان میں سے دو مضامین ڈیڑھ عشرے کے بعد ایک بار پھر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جو بالترتیب یکم مارچ ۲۰۰۳ء اور ۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں شائع ہوئے تھے۔ میری نگاہیں ایک طرف رجب طیب اردگان اور دوسری طرف ڈاکٹر مہاتیر محمد کے چہروں کا بار بار چکر کاٹ رہی ہیں اور ان دونوں کے لیے مسلسل دعاگو رہتا ہوں کہ اللہ رب العزت ان کی حفاظت فرمائیں اور اسلام اور عالم اسلام کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ باقی تو ہر طرف ہولناک سناٹے کا راج ہے اور عالم اسلام میں چاروں طرف بکھری ہوئی لاشوں پر منڈلانے والے گدھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ فیا اسفاہ ویا ویلاہ۔ (راشدی)
- کیا جنرل مشرف اس پیغام کو سمجھنے کی زحمت کریں گے؟ (یکم مارچ ۲۰۰۳ء)
- ڈاکٹر مہاتیر محمد کے افکار پر ایک نظر (۸ مارچ ۲۰۰۳ء)