عادات و معمولات میں کراہتوں کا لحاظ

   
مدرسہ طیبہ، مسجد خورشید، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
۳۰ اگست ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے ہاں شریعت کے احکام میں جب ہم حلال حرام کا لفظ بولتے ہیں تو ایک مکروہ کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ یہ مکروہ کیا ہے؟ مکروہ کا لفظی معنی کیا ہے ناپسندیدہ چیز۔ یہ حلال حرام کے درمیان ایک دائرہ ہے کہ نہ کریں تو بہتر ہے۔ لیکن ہم کراہت کے اسباب پر پہلے غور کریں گے کہ ناپسندیدہ کیوں ہے؟ اس کے چار اسباب بیان کیے جاتے ہیں: کراہتِ شرعیہ، کراہتِ طِبیہ، کراہتِ طَبعیہ، کراہتِ عُرفیہ۔

(۱) کراہتِ شرعیہ، کہ شریعت نے مکروہ قرار دیا ہے۔ بیسیوں مسائل ہیں جو عام طور پر بیان ہوتے ہیں۔ قرآن نے، حدیث نے، صحابہ نے، فقہاء نے جس کو مکروہ کہا ہے۔ یہ شرعی کراہت ہے۔

’’افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین‘‘ (یونس ۹۹)

’’کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم وعسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیر لکم وعسیٰ ان تحبوا شیئاً‌ وھو شر لکم‘‘ (البقرہ ۲۱۶)

(۲) ایک کراہت ہوتی ہے طِبیہ، کہ چیز صحیح ہے، حلال ہے، طیب ہے، ستھری ہے (لیکن) بندہ بیمار ہے، ڈاکٹر نے منع کیا ہے کہ نہیں کھانی۔ اب شوگر والوں کو میٹھا کھانے سے منع کیا گیا ہے، میٹھے میں تو کوئی خرابی نہیں ہے، خرابی کس میں ہے؟ کھانے والے میں کہ وہ ہضم نہیں کر سکتا۔ حلوے سے اچھی چیز کیا ہو گی؟ کوئی بھی میٹھی چیز ہو لیکن شوگر والے کہتے ہیں نہیں نہیں۔ اور کھانی بھی نہیں چاہیے۔

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ دو چار دن بیمار رہے، بخار سے اٹھے تو مجلس میں آ گئے۔ حضورؐ کھجوریں کھا رہے تھے (انہوں نے بھی) کھجوریں کھانی شروع کر دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں ان کے ہاتھ سے لے کر رکھ دیں کہ ابھی بیماری سے اٹھے ہو اب پھر کھجوریں کھانی شروع کر دی ہیں، خدا کے بندے، تمہارا ہاضمہ کمزور ہے، کھجوریں ہضم نہیں ہوں گی۔

مطلب یہ ہے کہ پرہیز کرنی چاہیے، حضورؐ کی سنت ہے۔ ڈاکٹر اگر کہیں کہ یہ چیز نہیں استعمال کرنی تو نہیں استعمال کرنی۔ ایک لطیفہ بھی ہے، کہیں جاتے ہیں تو دوست پیش کرتے ہیں کھجوریں وغیرہ۔ ایک جگہ ایک آدھ کھا لی کہ زیادہ میں کھاتا نہیں ہوں۔ کہنے لگے کہ جی مدینہ منورہ کی ہیں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت علیؓ سے حضورؐ نے جو کھجوریں لی تھیں وہ مدینہ ہی کی تھیں۔

تو یہ کراہتِ طِبیہ ہے کہ ڈاکٹر حکیم جس چیز سے منع کریں تو یہ نہیں کہ کوئی بات نہیں دیکھی جائے گی۔ حضورؐ کی تعلیم اور سنت یہ ہے کہ جو چیز بیماری کی وجہ سے نقصان دہ ہو اور ڈاکٹر حکیم اس سے منع کریں تو اس سے رکنا چاہیے۔

(۳) ایک ہے کراہتِ طَبعیہ، کہ چیز ٹھیک ہے لیکن طبیعت گوارا نہیں کرتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو منع کر دیا کہ پیاز کھا کر لہسن کھا کر میری مجلس میں فوری نہ آیا کرو۔ کیونکہ اس سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے اور کچھ عرصہ رہتی ہے۔ مولی وغیرہ، یا ہر وہ چیز جو جائز اور صحیح ہے لیکن منہ میں بو پیدا کرتی ہے اس کا یہی حکم ہے۔ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یہ حرام ہے؟ فرمایا نہیں ’’لا احرم حلالا‘‘ میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا لیکن مجھے بھی بو پسند نہیں ہے اور میری مجلس میں فرشتے ہوتے ہیں، فرشتوں کے مزاج کے خلاف ہے۔ فرشتے تو بہت نفیس مخلوق ہیں۔

یہ مزاج کی بات ہوتی ہے، بعض مزاج ایسے ہوتے ہیں کہ گٹر کے کنارے چارپائی ڈال دو، ساری رات خراٹے ماریں گے۔ بعض مزاج ایسے نفیس ہوتے ہیں کہ صاف ستھرا کمرا ہے، سب کچھ ٹھیک اور مزاج کے مطابق ہے، لیکن ہلکی سی بو آ گئی تو ساری رات نیند نہیں آئے گی۔

(۴) ایک کراہتِ عُرفیہ بھی ہے کہ جس علاقے میں جو چیز نہ ہو تو لوگوں کو عام طور پر پسند نہیں ہوتی کہ یہ ہمارے علاقے کی چیز نہیں ہے، پتہ نہیں کیسے ہو گی۔

بخاری شریف کی روایت ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ کی ایک سالی تھیں ام حفیدؓ، نجد میں رہتی تھیں۔ گوہ ایک صحرائی جانور ہوتا ہے، جسے عربی میں ضَب کہتے ہیں، ریگستان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے وہ بھنا ہوا بھیجا۔ حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ تناول فرمائیں۔ ام المؤمنین ام سلمہؓ دیکھ رہی تھیں، کہا کہ حضورؐ کو بتاؤ تو سہی کہ یہ فلاں چیز ہے، پتہ نہیں کھانا بھی ہے یا نہیں۔ کہا، یا رسول اللہ! یہ ضب ہے، ام حفیدؓ نے بھیجا ہے۔ حضورؐ نے تھالی پکڑی اور اُدھر کر دی۔ پوچھا، کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا، میں حرام تو نہیں کہتا لیکن میرے علاقے میں نہیں پایا جاتا اس لیے مجھے اچھا نہیں لگتا۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کہا، حضورؐ نے پلیٹ ادھر کی تو میں نے پوچھا کہ حرام ہے؟ فرمایا، نہیں، تو میں نے پلیٹ آگے کی اور سامنے بیٹھ کر ساری چَٹ کر گیا۔

کراہت کے چار اسباب میں نے بیان کیے ہیں: کراہتِ شرعیہ، کراہتِ طِبیہ، کراہتِ طَبعیہ، کراہتِ عُرفیہ۔

ایک لطیفہ ہوا، میں کسی جگہ گیا تو انہوں نے میرے سامنے حلوہ لا کر رکھ دیا۔ میں نے کہا، مکروہ چیز ہے یار، ہٹا لو اسے۔ کہنے لگے، مکروہ ہے؟ میں نے کہا کہ مکروہِ طِبی ہے۔

ہمارے ہاں جامعہ انوار العلوم میں زیادہ تر طلبہ سرحد کے اور بلوچستان کے ہوتے ہیں۔ ساتھ مرکزی جامع مسجد میں پانی کا حوض ہے۔ ایک طالب علم جا کر حوض میں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ میں نے منع کیا تو کہنے لگا کہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن یہاں لوگوں کو معیوب لگتا ہے، یہاں اجازت نہیں ہے۔ کہنے لگا کہ ہمارے ہاں تو ہوتا ہے۔ میں نے کہا، آپ کے ہاں ہوتا ہو گا، اِدھر لوگ نہیں پسند کرتے۔ پشاور کا تھا۔ کہنے لگا، تو نہ پسند کریں نا۔ میں نے کہا کہ اچھا، یہ بتاؤ کہ یہ تہبند کا لباس صحیح ہے؟ کہا کہ صحیح ہے۔ میں نے کہا، سنت ہے۔ کہا، ہاں سنت ہے۔ میں نے پوچھا کہ پشاور میں باندھ کر پھرو گے؟ کہا، توبہ توبہ۔ میں نے کہا وہاں کوئی تہبند باندھ کر مصلے پر کھڑا ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھو گے؟ کہا، نہیں۔ میں نے کہا اس لیے کہ علاقے میں پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کا بھی اعتبار کرنا پڑتا۔ میں نے اگلی بات کہی کہ اگر تم وہاں کہیں ایسے نماز پڑھاؤ گے تو لڑائی ہو گی، اور مفتی صاحب کس کو ذمہ دار قرار دیں گے لڑائی کا؟ یہ لباس پہننے والے کو۔

تو ساری کراہتوں کا لحاظ کرنا چاہیے، کراہتِ شرعیہ کا بھی، کراہتِ طِبیہ کا بھی، کراہتِ طَبعیہ کا بھی، اور کراہتِ عُرفیہ کا بھی۔

2016ء سے
Flag Counter