اس وقت دو مسیحی جریدوں کے دسمبر کے شمارے میرے سامنے ہیں۔ لاہور سے پندرہ روزہ ’’کاتھولک نقیب‘‘ کا ۱۶ دسمبر تا ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کا شمارہ اور گوجرانوالہ سے ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ کا دسمبر ۲۰۰۴ء کا شمارہ۔ ان میں کرسمس کے حوالے سے روایتی مضامین اور دیگر متعلقہ امور کے علاوہ دو باتیں بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ ایک میں گوجرانوالہ کے ممتاز مسیحی فاضل میجر (ر) ٹی ناصر نے جو ’’کلام حق‘‘ کے مدیر بھی ہیں، صدر بش کو امریکہ کا دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے، اور دوسری میں کیتھولک فرقہ کے آرچ بشپ جناب لارنس جے سلڈانہ نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے نام کھلے خط میں پاکستان کی صورتحال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہ دونوں تحریریں قارئین کی دلچسپی کے لیے مختصر تبصرہ کے ساتھ نقل کر رہا ہوں اور اربابِ فہم و دانش سے میری گزارش ہے کہ وہ ان کے مضمرات اور مقاصد کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔
میجر (ر) ٹی ناصر صدر بش کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ہم مسٹر جارج ڈبلیو بش جونیئر کو امریکہ کا دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ صدر بش کو بنیاد پرست مسیحیوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دے کر کامیاب کیا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ مسٹر جارج بش امریکہ میں مذہبی قدامت پسندی کے فروغ، امریکہ کی اخلاقی قدروں کی بحالی، مذہبی خیالات رکھنے والے مسیحیوں اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ’’کروسیڈ‘‘ جاری رکھیں گے۔‘‘
جبکہ جناب لارنس سلڈانہ کا صدر پرویز مشرف کے نام مکتوب درج ذیل ہے:
’’جناب صدر! سب سے پہلے پاکستان کاتھولک بشپس کانفرنس کی جانب سے اس اصولی موقف پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ پاکستان کو ایک لبرل اور فلاحی مملکت بنایا جائے جو سماجی انصاف اور بقائے باہمی کے اصولوں پر مبنی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اسی نصب العین کی روشنی میں چل کر ہم پاکستان کے بانیوں کے خواب کو شرمنده تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف بیرون ملک پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو گا، بلکہ اندرون ملک صورتحال میں بہتری واقع ہو گی۔
البتہ درپیش چیلنجوں کے پیش نظر ملک کے ایک شہری اور ایک کمیونٹی کے سربراہ ہونے کے ناطے میں انسانی حقوق سے متعلق چند انتہائی معاملات پر آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
الف۔ جنرل الیکشن کے جداگانہ انتخاب کے خاتمہ کو عوام نے سراہا۔ میری درخواست ہے کہ شہریوں میں برابری کے اسی اصول کے تحت بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی مذہبی امتیاز کی نشانی جداگانہ طرزِ انتخاب کو بلاتاخیر ختم کر دیا جائے۔
ب۔ گزشتہ ماہ (اکتوبر) پارلیمنٹ نے قانون سازی کر کے غیرت کے نام پر قتل کو ’’قتل‘‘ کا جرم قرار دیا ہے، جس کا مقصد بظاہر کاروکاری کے شرمناک واقعات کا سدِباب کرنا تھا، لیکن تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۰۲ سے ۳۲۴ اور ۳۳۴ سے ۳۳۷ اور ۳۳۷ ایم سے ۳۳۸ سی کی موجودگی میں اس نئے قانون کا اپنے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ۱۹۹۰ء میں کی گئی ترامیم کے سبب انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کے جرائم کو ’’قابل مصالحت‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا قانون میں ترامیم کی وجہ سے مجرم قانون سے بچتے اور جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لہٰذا نئی قانون سازی تکنیکی اعتبار سے ناقابل عمل ہے۔
صد افسوس کہ پارلیمنٹ اور وزارت قانون نے حالیہ قانون سازی کرتے وقت ۱۹۹۷ء کے عورتوں کے مقام سے متعلق انکوائری کمیشن اور عورتوں کے مقام سے متعلق قومی کمیشن اور عورتوں کے مقام سے متعلق قومی کمیشن کی ۲۰۰۳ء کی سفارشات کو یکسر نظرانداز کر دیا، جن میں حدود آرڈیننس، قصاص و دیت آرڈیننس اور قانون شہادت میں کی گئی تبدیلیوں کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ مجھے یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ عدلیہ کے سینئر ارکان کی سربراہی میں قائم کیے گئے ان کمیشنز نے کس عرق ریزی کے بعد یہ رپورٹیں اور سفارشات مرتب کی ہوں گی جن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ کاش! یہ محنت اکارت نہ جائے۔ اس لیے کہ ان قوانین سے قانون کی نظر میں عورتوں کا مقام کم ہو جاتا ہے اور یوں یہ قوانین عورتوں کے خلاف تشدد (گھریلو اور سماجی) اور جرائم میں براہ راست اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ان قوانین سے مذہبی اقلیتوں کے لیے بھی کئی مشکلات پیدا ہوئی ہیں، لہٰذا میں آپ سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ ان قوانین کے خاتمے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
ج۔ میں یہاں مختصر طور پر تکفیر کے قوانین (۲۹۵ بی سی، ۲۹۸ اے بی سی) کے خاتمے کے مطالبے کا اعادہ کرتا ہوں۔ معاشرہ پر ان قوانین کے برے اثرات محتاج بیان نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے ملک کے باشعور لوگ (اکثریت) اس کی حمایت کریں گے۔
د۔ حکومت نے جب ۲۰۰۰ء میں جبری مشقت کے شکار مزدوروں کی بحالی کے لیے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان کیا تو اسے ملک میں سراہا گیا۔ لیکن تاحال اس خیال پر عملدرآمد کے بارے میں کوئی معلومات منظر عام پر نہیں آئیں، باوجود اس امر کے کہ اس مسئلے پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ اگر متعلقہ وزارت اس مقصد کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرے تو یقیناً وطن عزیز جبری مشقت کی لعنت سے پاک ہو سکتا ہے۔
جناب صدر! کاتھولک کلیسا کا قائم کردہ قومی کمیشن برائے امن و انصاف دیگر رضا کار تنظیموں کے ساتھ مل کر گزشتہ ۱۹ سال سے ایسے قوانین جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بالخصوص عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں، ان کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ بالخصوص ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ ۲۰۰۵ء کو امتیازی اور غیرمنصفانہ قوانین کے خاتمے کا سال بنا دیں گے۔ آخر میں میں آپ کو عملی تعاون کا یقین دلاتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ملک کی تعمیر اور ترقی میں کامیاب ہوں۔‘‘
دونوں تحریروں پر اپنے مختصر تبصرہ سے قبل جناب لارنس جے سلڈانہ کے خط کے حوالے سے تھوڑی سی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے تعزیراتِ پاکستان کی جن دفعات کو ہدف اعتراض ٹھہرایا ہے ان میں قصاص و دیت کا وہ قانون مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس میں قرآن کریم نے قتل کے جرم کو ’’قابلِ مصالحت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر دیں تو یہ ان کا حق ہے، وہ خون بہا لینا چاہتے ہیں تو یہ بھی ان کے اختیار میں ہے اور اگر معافی اور دیت دونوں میں سے کسی کے لیے تیار نہ ہوں تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔‘‘ یہی معاملہ قتل سے کم جسمانی نقصان کی صورت میں بھی ہے، مگر لارنس جے سلڈانہ صاحب ان قوانین کو قابل اعتراض قرار دے کر ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ان کا ہدف نکاح و طلاق و وراثت کے شرعی قوانین ہیں جنہیں مغربی قوانین کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک عرصہ سے مہم جاری ہے اور انہوں نے جن خواتین حقوق کے کمیشنوں کا ذکر کیا ہے ان میں پاکستان کے قوانین کو انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ اور عالمی قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے کام پر نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے شرعی احکام کو تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ہی سلڈانہ صاحب دفعہ ۲۹۵ بی سی اور ۹۲۸/ ۲۹۸ اے بی سی کے خاتمہ کا مطالبہ کر کے توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کو منسوخ کرانے کے درپے ہیں اور امتیازی قوانین کے خاتمہ کے نام پر ہمارے پورے خاندانی اور معاشرتی ڈھانچے اور ان کے متعلقہ قرآن وسنت کے احکام و ضوابط پر خطِ تنسیخ کھینچ دینا چاہتے ہیں۔
یہ دونوں تحریریں اربابِ علم و دانش کی خدمت میں خصوصی توجہ کی درخواست کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں اور ان پر میرا تبصرہ سردست صرف اتنا ہے کہ پاکستان کے مسیحی رہنماؤں کی دو رخی کی داد دی جائے کہ وہ امریکہ میں تو مذہبی اقدار کی بحالی کی بات کر رہے ہیں اور بنیاد پرستی کی واپسی کے خواہاں ہیں، حتیٰ کہ ’’کروسیڈ‘‘ کا دور واپس لانے کے بھی خواہش مند ہیں، لیکن پاکستان میں یہاں کی اکثریت کی مذہبی اقدار ان کے لیے قابل اعتراض ہیں۔ مسلمانوں کے دینی قوانین کو وہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انسانی حقوق کے اس مغربی فلسفہ کی بنیاد پر جس کی اساس ہی معاشرتی معاملات اور اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کی نفی پر ہے، پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دینے کی بات کر رہے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی ان پاکستانی دانشوروں کی قابل رحم حالت بھی توجہ طلب ہے کہ مذہبی اقدار اور دینی اخلاقیات کی نفی کے جس پتھر کو چوم کر امریکی معاشرہ اس سے پیچھا چھڑانے کے درپے ہے اور امریکی مسیحیوں کی اکثریت مذہبی اخلاقیات اور اقدار کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے، ہمارے یہ دانشور ہمارے معاشرے کو اس لادینیت کی طرف دھکیلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ خیر یہ دانشور تو بوجوہ معذور ہیں، البتہ جناب لارنس جے سلڈانہ صاحب سے گزارش ہے کہ لامذہبیت کے جس فلسفہ پر امریکی معاشرہ کو قرار نہیں مل رہا اور انسانی حقوق کے جس سسٹم نے مغرب کے خاندانی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا ہے، اسے مغرب میں ہی رہنے دیجئے، ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کو اس فلسفہ کی وکالت کا حق پہنچتا ہے۔