انسدادِ توہینِ رسالتؐ کا قانون طے شدہ مسئلہ ہے

   
تاریخ : 
۳۱ جنوری ۲۰۱۷ء

تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو ایک بار پھر ری اوپن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مختلف این جی اوز اس سلسلہ میں متحرک ہیں جو میڈیا اور لابنگ کے بھرپور استعمال کے ساتھ پارلیمنٹ میں ان قوانین کو کسی طرح دوبارہ زیربحث لانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ عمومی روایت یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر رائے عامہ کی اکثریت ایک طرف ہو جائے اور منتخب پارلیمنٹ اس پر قانون سازی کر دے تو اسے قومی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے اور کسی شدید مجبوری کے بغیر اسے دوبارہ زیر بحث لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ عجیب صورتحال بنا دی گئی ہے کہ اسلامی عقائد و احکام سے متعلقہ ہر فیصلہ کو بار بار چیلنج کرنے اور اس پر بحث و تمحیص کا دروازہ کھولنے کی کوشش اس کے ساتھ ہی شروع کر دی جاتی ہے جسے متعدد عالمی اداروں اور لابیوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قوانین اس کی واضح مثالیں ہیں جن پر ملکی رائے عامہ، اعلیٰ عدالتیں اور منتخب ادارے کئی بار فیصلے دے چکے ہیں لیکن ہر دو چار سال گزرنے کے بعد ان کو ازسرِنو متنازعہ بنانے کی مہم سامنے آجاتی ہے۔ ان دونوں قوانین پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی امت مسلمہ ایک طرف ہے اور دنیا بھر کے تمام مکاتب فکر کے دینی و علمی ادارے اس پر متفق ہیں،ان کا واضح موقف یہ ہے کہ

  • توہینِ رسالت سنگین جرم ہے جس کی سزا موت ہے اور اسے عملاً نافذ ہونا چاہیے۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور ان کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں جن کا امت مسلمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور انہیں کسی صورت میں مسلم امہ کا حصہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

ان مسائل پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کے اجماع و اتفاق کا متعدد بار بھرپور اظہار ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ عناصر برابر اس کوشش میں ہیں کہ

  • توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کر دیا جائے یا اسے عملی طور پر غیر مؤثر بنا دیا جائے۔
  • ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کے بارے میں دینی، دستوری اور قانونی فیصلوں کو ری اوپن کر کے ان کے لیے کسی نہ کسی طرح امت مسلمہ میں گھسنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔

چنانچہ اس وقت بھی سینٹ آف پاکستان کی ایک کمیٹی توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون میں بعض مجوزہ ترامیم پر غور کر رہی ہے جس پر ملک کے مذہبی اور سیاسی حلقوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے اور مختلف فورموں سے تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی جا رہی ہے۔

تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کی طرف سے مولانا مفتی محمد خان قادری، ڈاکٹر محمد امین اور علامہ خلیل الرحمان قادری نے سینٹ آف پاکستان کی مذکورہ کمیٹی کو اس سلسلہ میں تفصیلی عرضداشت بھجوائی ہے جس میں امت مسلمہ کے اجماعی موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔

متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کی طرف سے صدر مملکت جناب ممنون حسین کی خدمت میں عرضداشت پیش کی گئی ہے جس میں تحفظ ختم نبوت اور دیگر دینی معاملات میں دستور و قانون کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی حکومتی پالیسی اور اس حوالہ سے مقتدر طبقات کے افسوسناک طرز عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان سے اس کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس عرضداشت پر مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ عاکف سعید، قاری زوار بہادر، علامہ زبیر احمد ظہیر، رانا محمد شفیق خان پسروری، حاجی عبد اللطیف چیمہ، قاری محمد رفیق وجھوی اور راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی کے دستخط ہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس سلسلہ میں مسلسل سرگرم عمل ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں اجتماعات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اس نے یکم فروری کو اسلام آباد میں ’’آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ طلب کر لی ہے جس کے داعیین میں مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شامل ہیں۔ امید ہے کہ یہ کانفرنس تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت اور دستور و قانون سے تعلق رکھنے والے دیگر اہم دینی مسائل پر امت مسلمہ کے اجماعی موقف کے بار پھر بھرپور اظہار کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

دوسری طرف حکومتی ایوانوں سے بھی اس حوالہ سے مثبت خبریں سامنے آرہی ہیں۔

  1. وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف استعمال کا تاثر درست نہیں ہے اس لیے کہ اس قانون کے تحت مسلمانوں کے خلاف زیادہ مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ہم بھی اس کے بارے میں متعدد بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال سے انکا رنہیں اور ملک کے بہت سے دیگر قوانین کی طرح اس کا بھی مختلف مواقع پر غلط استعمال ہوتا ہے جو درحقیقت قانون کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے کا مسئلہ ہے۔ یہ رویہ کم و بیش ملک کے ہر قانون کے حوالہ سے موجود ہے جس کی وجہ سے توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کا بھی مسلمانوں کے باہمی مسلکی تنازعات میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا حل قانون کا خاتمہ یا اسے غیر مؤثر بنانا نہیں بلکہ معاشرتی رویے کو بہتر بنانے کے لیے عمومی محنت ہے۔ کیونکہ قانون کے مبینہ غلط استعمال کی وجہ سے قانون کو ختم کر دینے کی روش سے ملکی قوانین کا ایک بڑا حصہ اسی قسم کے مطالبات کی زد میں آسکتا ہے جس سے ملک قانونی انارکی کا شکار ہو جائے گا۔
  2. وفاقی وزیر داخلہ جناب محمد اسحاق ڈار نے گزشتہ روز گولڑہ شریف میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان ہے اور ناموس رسالتؐ قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب نبی آخر الزمانؐ کے غلام ہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ناموس رسالتؐ کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کی جائے، ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے، یہ ملک خدا کی امانت ہے اس سے جس نے بھی غداری کی اس کا انجام بھیانک ہوگا۔
  3. سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے گزشتہ جمعرات کو سینٹ کی انسانی حقوق سے متعلق فنکشنل کمیٹی میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین رسالتؐ کے قانون میں ترمیم حساس معاملہ ہے، ملک کے حالات پہلے ہی خراب ہیں ہم نئے ایشوز کے متحمل نہیں ہو سکتے، توہین رسالتؐ کے مجرم کی سزا موت ہے، کسی بھی شق میں ترمیم سے قبل کمیٹی کے اراکین اور علماء کو اعتماد میں لیا جائے اور پارلیمنٹ کے ممبران میں مسودے کی نقلیں انگلش کی بجائے اردو میں تقسیم کی جائیں۔

حکومتی حلقوں کی ان تین مقتدر شخصیات کے ان ارشادات کے بعد ہمیں اصولی طور پر مطمئن ہوجانا چاہیے لیکن جس طرح ان قوانین کے خلاف بین الاقوامی سیکولر حلقے، عالمی ادارے، میڈیا کے بہت سے عناصر اور ملک کی اندرونی سیکولر لابیاں مسلسل متحرک ہیں، اور ماضی میں اس قسم کی قانونی ترامیم کو عام روٹین سے ہٹ کر عجلت کے ساتھ ایوانوں سے کسی نہ کسی طرح منظور کرا لینے کی جو روایات موجود ہیں ان کے پیش نظر ہم دینی حلقوں کے مسلسل متحرک رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ یکم فروری کو اسلام آباد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے اس کی کامیابی کے لیے بھرپور کردار کی ادائیگی تمام دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter