افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز

   
تاریخ : 
مئی ۱۹۹۱ء (غالباً) - جلد ۳۴ شمارہ ۲۰

افغان مجاہدین کی خون میں ڈوبی ہوئی چودہ سالہ طویل جدوجہد بالآخر رنگ لائی جس کے نتیجہ میں افغانستان کے عوام آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور وہاں پر ایک آزاد اسلامی (عبوری) حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے خلاف امریکہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی سازشیں بھی اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر دنیا بھر کی غیر مسلم استعماری طاقتیں خصوصاً امریکہ بہادر وہاں ایک آزاد اور خالص اسلامی حکومت کے قیام کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ امریکی سامراج نے اپنی روایتی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کو تقسیم کرنے کے عالمی منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں بھی اس بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ افغانستان کی تقسیم کے بین الاقوامی منصوبے جسے امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک اور روس کی حمایت بھی حاصل ہے، کو اب عملی شکل دینے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ منصوبہ کے مطابق اگر افغانستان میں ان کی پسند کی حکومت قائم نہ ہو سکے تو اس کی طاقت کو کمزور اور منتشر کرنے کے لیے اسے شمال اور جنوب کے علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو امریکہ بہادر نے افغانستان کو اپنا دستِ نگر اور طفیلی ملک بنانے کے لیے ایک پانچ نکاتی امن منصوبہ پیش کیا اور عالمی ذرائع ابلاغ سے اس نام نہاد امن منصوبہ کا زبردست پراپیگنڈہ کیا اور میاں نواز شریف اور حکومت پاکستان کے ذریعہ اس منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائند بینن سیون کو پاکستان بھیجا۔ بینن سیون نے افغانستان میں برسراقتدار نجیب انتظامیہ کے علاوہ پاکستان اور ایران کے حکمرانوں کے ذریعہ اپنے نام نہاد امن منصوبہ کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دی لیکن جب بینن سیون کو اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی کو بھی ان کی مدد کے لیے پاکستان بھیج دیا۔

لیکن افغان مجاہدین نے باہمی اتفاق و اتحاد سے ان کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہونے دی۔ اسی دوران نجیب نے استعفیٰ دے دیا۔ ادھر افغان مجاہدین کی تنظیموں نے اقوام متحدہ کے اس نام نہاد امن منصوبہ کو ٹھکرا کر باہمی مشاورت سے افغانستان میں ایک مشترکہ عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی اور افغانستان میں جماعت کی ذیلی تنظیم حزب اسلامی نے مشترکہ عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر ہم حکمت یار سمیت تمام افغان تنظیموں کے سربراہوں سے گزارش کریں گے کہ وہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے معمولی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں اور امریکی سازشوں کو ناکام بنا کر افغانستان میں ایک پائیدار اسلامی حکومت قائم کر کے ایک مضبوط اسلامی بلاک کی راہ ہموار کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter