بلوچستان کی صورتحال اور قادیانیوں کی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء

بلوچستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور دیگر گوناگوں خصوصیات کے باعث کافی عرصہ سے اندرونی و بیرونی سازشوں کی مذموم مساعی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور آج بھی سازشی قوتیں تمام وسائل کے ساتھ بلوچستان کے امن کو اپنے مقصد کی بھینٹ چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو قادیانی علاقہ قرار دینے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے محرکات میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ لیکن پاکستان کے غیور مسلمانوں نے اس گروہ کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور علماء کی بروقت جدوجہد سے قادیانی سازشوں کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔

غالباً مرزا بشیر الدین کے فرزند مرزا ناصر احمد کو اپنے باپ کا منصوبہ ابھی نہیں بھولا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں نیپ جمعیۃ حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ محسوس کر کے کہ بلوچستان میں دین دار عوام اور علماء کی واحد نمائندہ تنظیم جمعیۃ علماء اسلام اس وقت مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے عتاب کا شکار ہے، اور یہ دیکھ کر کہ بلوچستان میں بیرونی دلچسپیاں دن بدن اضافہ پذیر ہیں، مرزا ناصر احمد نے باپ کے ۲۱ سالہ پرانے خواب کی تعبیر کے لیے فضا کو سازگار اور ہموار سمجھ لیا۔ ورنہ فورٹ سنڈیمن (ژوب) کے علاقہ میں یکایک ہزاروں کی تعداد میں قادیانی ترجمہ قرآن کریم اور مسلمانوں کے اجماعی عقائد کے خلاف لٹریچر کی کھلم کھلا تقسیم اور مسلمانوں کو مشتعل کر کے خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

ایسے وقت میں جبکہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال غیر یقینی اور غیر مستحکم ہے اور حکمران پارٹی اور بلوچستان کی نمائندہ جمہوری جماعتوں کے درمیان اعتماد کی فضا سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ختم کر دی گئی ہے، قادیانی گروہ کا بلوچستان کی سرزمین کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنانا محل نظر ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کی سرگرمیوں کا محاسبہ کیا جائے اور بلوچستان میں اس سلسلہ میں گرفتار شدگان کو رہا کر کے وہاں کی نمائندہ جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس خطہ کو سازشوں کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter