اسلام کا سیاسی نظام ۔ مولانا مفتی محمود کا موقف اور پریس کی رپورٹنگ

   
تاریخ : 
۷ دسمبر ۱۹۷۳ء

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے گزشتہ روز گکھڑ میں اخباری نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے ملکی مسائل پر سیرحاصل تبصرہ کیا جس کی مفصل رپورٹ قارئین آئندہ شمارہ میں ہمارے وقائع نگار خصوصی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس موقع پر مولانا مفتی محمود نے قومی پریس پر عائد پابندیوں کا بھی ذکر فرمایا اور اخبار نویسوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے صحیح رپورٹنگ کیا کریں اور محض حکومت کو خوش کرنے کے لیے سیاسی قائدین کے بیانات کو توڑ موڑ کر نہ پیش کریں۔

خیال تھا کہ شاید اس مجلس کی رپورٹنگ کے بارے میں ہی اخبار نویس کچھ ذمہ داری کا احساس کریں گے، مگر دوسرے دن روزنامہ امروز دیکھنے کا موقع ملا تو یہ توقع نقش بر آب ثابت ہوئی۔ نامہ نگار کے حوالہ سے امروز نے مفتی صاحب کی طرف یہ الفاظ منسوب کیے کہ

’’یہ ضروری نہیں کہ خلفاء راشدین کی پیروی کی جائے، کیونکہ ملکی حالات کے مطابق اسلامی سیاسی نظام میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

حالانکہ مفتی صاحب نے یہ الفاظ قطعاً نہیں فرمائے، قصہ صرف اتنا ہے کہ ایک نامہ نگار نے سوال کیا کہ اسلام وحدانی طرز حکومت چاہتا ہے یا وفاقی؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس کے بارے میں اسلام اجازت دیتا ہے کہ حالات کے تحت جو صورت مناسب ہو اختیار کر لی جائے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اسلام میں جو امور قطعی ہیں ان میں ردوبدل کی گنجائش نہیں لیکن جن امور میں اسلام نے کوئی قطعی حکم نہیں دیا ان میں حالات کے تحت جو صورت مناسب ہو اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس کی وضاحت میں مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر سربراہ حکومت حضرت صدیق اکبرؓ یا حضرت عمرؓ جیسا عادل شخص ہو تو میں اس بات کی حمایت کروں گا کہ اس کو جتنے زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جا سکتے ہیں دیے جائیں کیونکہ اس سے اختیارات کے غلط استعمال کی توقع نہیں۔ لیکن اگر حکومت کی باگ ڈور ایوب خان، یحییٰ خان اور بھٹو جیسے افراد کے ہاتھ میں ہو تو میں کہوں گا کہ ان کے اختیارات کو جس قدر ہو سکے محدود کر دو تاکہ یہ لوگوں پر ظلم نہ کر سکیں۔

کتنے تعجب کی بات ہے کہ مفتی صاحب کے ان ارشادات کو اس طرح توڑ موڑ کر پیش کیا گیا کہ اس کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ دراصل قومی پریس خصوصاً ٹرسٹ کے اخبارات کی ہم پر یہ کوئی نئی نوازش نہیں،اس سے قبل بھی ہمیشہ اپوزیشن خصوصاً جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کے راہنماؤں کو بدنام کرنے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔

ابھی حال ہی میں روزنامہ نوائے وقت نے، جو بظاہر اپوزیشن کا ترجمان کہلاتا ہے، لیاقت آباد کے نامہ نگار کے حوالہ سے ایک خبر میں کہا ہے کہ مفتی صاحب اور خان عبد الولی خان نے چشمہ میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ حالانکہ گزشتہ اڑھائی برس سے مفتی صاحب چشمہ نہیں گئے۔

جس ملک میں قومی پریس کا یہ کردار ہو اور اخبار نویس اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے مفادات کے چکر میں الجھ کر رہ جائیں اور ان کا قلم حقائق و واقعات کی نقاب کشائی کرنے کی بجائے آمریت کی مدح سرائی اور حق گو قائدین کی کردار کشی کے لیے وقف ہو جائے، اس ملک میں جمہوری اقدار و روایات اور اسلامی اخلاق و آداب کی ترویج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ ہم صحافی بھائیوں سے مؤدبانہ گزارش کریں گے کہ کسی منصب پر کوئی ہمیشہ نہیں رہتا اور حق و صداقت کے اظہار کے بغیر آپ اپنی ذمہ داریوں سے عند اللہ و عند الناس سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اگر آپ حق کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں پاتے تو کم از کم جھوٹ اور بہتان تراشی سے تو پرہیز کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter