ڈاکٹر روون ولیمز کا بیان اور اسلامی شرعی قوانین

   
تاریخ : 
۷ مارچ ۲۰۰۸ء

برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کا یہ بیان عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خاندانی معاملات اور مالیاتی مسائل میں اپنے شرعی قوانین پر عمل کا حق ملنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے اسلامی شرعی قوانین کو ملک کے قانونی نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جو تفصیلات مختلف اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ڈاکٹر روون کا کہنا ہے کہ:

  • نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ جیسے خاندانی معاملات میں اسلام کے شرعی احکام پر عمل کرنا مسلمانوں کا حق ہے اور انہیں قانونی طور پر یہ حق ملنا چاہیے۔
  • مغربی رہنماؤں کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسلامی قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی قوانین مغربی رہنماؤں کے تصورات کے خلاف ہیں۔ لیکن دنیا کے ہر قانون کے لیے ان کے تصورات سے مطابقت رکھنا ضروری نہیں ہے۔
  • اگر ہمیں اسلام کے بعض قوانین مثلاً ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے وغیرہ پر اعتراض ہے تو بعض اسلامی احکام ایسے بھی ہیں جو بہت اچھے ہیں، ہمیں ان کا بھی تذکرہ کرنا چاہیے۔ جیسے اسلام کے خاندانی احکام و قوانین، انہیں برطانوی قوانین میں شامل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
  • برطانیہ میں یہودیوں کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خاندانی اور مالیاتی مسائل و تنازعات کا فیصلہ اپنے مذہبی احکام کے مطابق کر سکتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے اور قانون کو سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر روون ولیمز آرچ بشپ آف کنٹربری کی حیثیت سے دنیا بھر کے پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما سمجھے جاتے ہیں، اس لیے ان کے اس بیان نے مغرب کے فکری اور ثقافتی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور مختلف فورموں پر اس سلسلہ میں بحث و تمحیص جاری ہے۔

وزیراعظم گورڈن براؤن کے ایک ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ میں صرف برطانوی اقدار کے مطابق قوانین نافذ ہوں گے، اسلامی شریعت نافذ نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ برطانیہ کے سابق وزیرداخلہ ڈیوڈ بلنکٹ نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ نہ صرف جمہوری اور فکری طور پر غلط ہے بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ ایک خبر کے مطابق ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم بھی اس صورتحال پر خاصی پریشان ہیں کیونکہ وہ چرچ آف انگلینڈ کی آئینی سربراہ ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ ڈاکٹر روون ولیمز کے اس بیان سے چرچ کی اتھارٹی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ادھر ڈاکٹر ولیمز نے بعض حلقوں کی طرف سے بیان واپس لینے اور مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔

عالم اسلام میں عام طور پر اس بیان کے بارے میں خیرمقدمی جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جامعہ ازہر کے سربراہ الشیخ عبد الفتح عالم نے مسیحی رہنما کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرچ بشپ نے یہ بیان دے کر مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور مذہبی آزادی کو فروغ دینے کی بات کی ہے اور اس سے مسلم ممالک میں ایک اچھا تاثر پیدا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے لندن میں ورلڈ اسلامک فورم نے بھی اس سلسلہ میں ایک سیمینار منعقد کیا جو ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل میں فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیرصدارت منعقد ہوا، اس میں مفتی برکت اللہ، مفتی عبد المنتقم سلہٹی، ڈاکٹر کامران رعد اور دیگر دانش وروں نے خطاب کیا۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ برطانیہ میں کم و بیش پچیس لاکھ مسلمان آباد ہیں اور یورپ میں مجموعی طور پر یہ تعداد کروڑوں میں ہے جبکہ بلغاریہ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تیس فیصد سے زائد بیان کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمان اپنے مذہب اور ثقافت کے ساتھ واضح کمٹمنٹ رکھتے ہیں اس لیے انہیں اب زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی حکومتوں کو جلد یا بدیر مسلمانوں کے حقوق کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نکاح و طلاق اور خاندانی معاملات میں اپنے مذہب پر عمل کرنا مسلمانوں کا ایک جائز حق ہے جس کے لیے وہ ایک عرصہ سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اب آرچ بشپ آف کنٹربری نے بھی اس حق کی حمایت کر دی ہے اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ برطانوی حکومت اس سلسلہ میں مزید لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے مسلمانوں کو ان کا یہ جائز حق دے۔

راقم الحروف نے بھی گزشتہ دنوں متعدد اجتماعات میں اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے جس کے چند اہم نکات یہ ہیں:

ڈاکٹر روون ولیمز کی طرف سے برطانوی مسلمانوں کے لیے نکاح و طلاق اور مالیات کے حوالے سے ان کے شرعی قوانین کو برطانوی قوانین میں شامل کرنے کے مطالبے پر مغرب کے سیکولر حلقوں کی بے چینی اور اضطراب کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے جن احکام و قوانین کے نفاذ کو خود مسلم ممالک میں روکنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اور مغربی حکومتیں اس سلسلے میں فریق کا کردار ادا کر رہی ہیں، ان شرعی قوانین کے نفاذ کا برطانیہ میں مطالبہ شروع ہوگیا ہے اور اس کی حمایت ایک عالمی سطح کے مسیحی مذہبی رہنما نے بھی کر دی ہے۔ اس سے جہاں مغربی ممالک میں مسلمانوں کے پرسنل لاز کے فروغ کی طرف پیش رفت ہوگی وہاں مسلمان ممالک میں بھی نفاذِ شریعت کی جدوجہد کو تقویت ملے گی اور شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں مصنوعی طور پر پیدا کی جانے والی رکاوٹیں کمزور ہوں گی۔

ڈاکٹر روون ولیمز نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ برطانوی مسلمانوں کے لیے اسی حق کا مطالبہ کیا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسیحی اور دیگر اقلیتوں کو آج سے ساٹھ سال قبل دے دیا گیا تھا۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علمائے کرام نے اپنے متفقہ ۲۲ دستوری نکات میں اس اصول کو نصف صدی قبل باضابطہ طور پر شامل کر لیا تھا کہ تمام اقلیتوں کو پرسنل لاز میں اپنے مذہبی احکام پر عمل کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح پاکستان میں مسیحیوں سمیت تمام اقلیتوں کو اپنے نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے تنازعات و مسائل اپنے مذہبی احکامات کے مطابق طے کرنے کا دستوری حق حاصل ہے اور وہ اس حق کو عملی طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ مغربی دانشوروں کو یہ زمینی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے اور یہ ایک جائز اور طے شدہ حق کی یاددہانی ہے جس پر نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کی دیگر حکومتوں کو بھی فوری اور سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔

پھر مسلمانوں کے لیے پرسنل لاز اور مالیاتی امور میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا یہ دستوری اور قانونی حق امریکی دستور میں بھی موجود ہے۔ یہ حق اصلاً یہودیوں کو دیا گیا ہے جس کے تحت امریکہ کے یہودی اپنے خاندانی اور مالیاتی تنازعات کے فیصلے اپنی مذہبی عدالتوں سے کراتے ہیں اور ان کے فیصلوں کو امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ شکاگو، اٹلانٹا، نیویارک اور دیگر کئی شہروں میں مسلمانوں نے بھی اس دستوری حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنی شرعی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں، وہ شرعی پنچائیت کے طور پر مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں اور امریکہ کا عدالتی نظام ان فیصلوں کو تسلیم کرتا ہے۔

اس پس منظر میں جہاں ہم آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں وہاں اس بیان پر ناک بھوں چڑھانے والے بعض مسلمان دانشوروں سے بھی یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مغرب پرستی کے خول سے باہر جھانکتے ہوئے زمینی حقائق پر بھی ایک نظر ڈال لیں اور مسلمانوں کے ایک جائز حق کے مطالبے پر خواہ مخواہ جھینپنے کی بجائے اس کی حمایت کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter