ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم

   
تاریخ : 
نومبر ۱۹۹۱ ء

ارشد میر ایڈووکیٹ پانچ اور چھ اکتوبر کی درمیانی شب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ خاصے عرصے سے ذیابیطیس کے مریض تھے اور سانس کی تکلیف بھی تھی لیکن ان کی وفات اتنی اچانک ہوئی کہ خبر سنتے ہی سناٹے کی سی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ۔ میر صاحب مرحوم میرے گنتی کے چند مخلص دوستوں میں سے تھے، تعلقات کی نوعیت دوستانہ سے بڑھ کر برادرانہ تھی، وہ میرے پڑوسی بھی تھے اور مقتدی بھی، مجھ پر قائم ہونے والے بیشتر مقدمات میں وکیل صفائی رہے اور اب شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی تعلیمی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اس عظیم تعلیمی منصوبہ کے شریک کار بھی تھے۔

یہ ربع صدی پہلے کا قصہ ہے، ریل بازار گوجرانوالہ میں موجودہ سفینہ مارکیٹ کی بالائی منزل میں ’’الخیام ہوٹل‘‘ ہوا کرتا تھا، اس ہوٹل میں ہر اتوار کو پچھلے پہر ایک ادبی محفل جمتی تھی جس کا اہتمام ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کیا کرتی تھی۔ راقم الحروف ان دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھا، لکھنے پڑھنے کے جراثیم اسی دور میں چپکے سے دماغ میں سرایت کر آئے تھے اور اسی وجہ سے اس ادبی محفل میں حاضری معمول بن گیا تھا۔ ارشد میر صاحب سے پہلا تعارف وہیں ہوا، وہ مجلس فکر و نظر کے سیکرٹری تھے اور پروگرام کا نظم انہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی، پروفیسر افتخار ملک مرحوم، پروفیسر عبد اللہ جمال، جناب ضیغم البھاکری، اثر لدھیانوی مرحوم، پروفیسر محمد رفیق چودھری، جناب ایزد مسعود ایڈووکیٹ اور دیگر ارباب دانش سے تعارف کا آغاز بھی وہیں سے ہوا اور راقم الحروف نے اپنا زندگی کا پہلا تحقیقی مقالہ ’’پروفیسر فلپ کے ہٹی کی کتاب ’’عرب اور اسلام‘‘ پر ایک تنقیدی نظر‘‘ کے عنوان سے مجلس فکر و نظر کی اسی ہفتہ وار ادبی محفل میں پڑھا۔ خالص مولویانہ وضع قطع اور لباس کے ساتھ اس محفل میں ایڈجسٹ ہونا ابتدا میں میرے لیے الجھن کا باعث بنا لیکن یہ ارشد میر صاحب مرحوم کا حوصلہ افزا طرز عمل اور بے تکلفانہ مزاج تھا جس نے الجھن اور جھجھک سے جلد نجات دلا دی اور پھر تعلقات کے ایک ایسے باب کا آغاز ہوا جس کی گہرائی کو ماپنے میں آج کے مروجہ پیمانے شاید ساتھ نہ دے سکیں۔

راقم الحروف کا تعلق علماء کے جس قافلہ سے ہے داروگیر، مقدمات اور نظر بندیاں اس کے ورثہ میں شامل ہیں۔ ایک دور میں قادیانیت کی مخالفت ناقابل معافی جرم تصور ہوتا تھا اور اکثر مقدمات اسی سلسلہ میں ہوتے تھے، پھر حکومت وقت کی مخالفت پر بھی وقتاً فوقتاً مقدمات کا نشانہ بننا پڑتا ۔گوجرانوالہ میں اس قسم کے مقدمات میں علماء کو میاں منظور الحسن ایڈووکیٹ مرحوم کی خدمات بلامعاوضہ حاصل رہتی تھیں جو ایک سینئر وکیل، شریف النفس انسان اور ایک اچھے سیاست دان تھے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ ارشد میر ایڈووکیٹ اس قسم کے مقدمات میں میاں صاحب مرحوم کے شریک کار ہوتے تھے، ان کی وفات کے بعد یہ معاملات میر صاحب ہی کے سپرد ہو گئے اور انہوں نے کمال خلوص کے ساتھ اس روایت کو نبھایا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی کے بعض مقدمات انہوں نے لڑے اور راقم الحروف کے درجنوں مقدمات میں ارشد میر مرحوم وکیل صفائی رہے۔ فیس کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کاغذات وغیرہ کا خرچ بھی علماء پر نہ پڑے۔ میر صاحب مرحوم مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ کے پڑوسی تھے، جامع مسجد کے ساتھ ملحق مدرسہ انوار العلوم کی عقبی دیوار میر صاحب کے مکان کے ساتھ مشترک ہے۔ وہ جمعہ کی نماز اکثر جامع مسجد میں ادا کرتے تھے، نماز کے بعد جس روز فراغت ہوتی میرے کمرے میں آ جاتے، آدھ پون گھنٹہ مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی اور چائے کا دور چلتا۔ ابھی گزشتہ جمعہ کو یہ محفل جمی تھی اور وہی ان کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔

ارشد میر صاحب مرحوم کے صدقات جاریہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی بھی شامل ہے جس کی تعلیمی منصوبہ بندی اور مشاورت میں وہ ابتدا سے ہمارے شریک کار رہے ہیں۔ اس منصوبہ کے تحت جی ٹی روڈ پر اٹاوہ کے ساتھ دو سو ساٹھ کنال زمین خریدنے کے بعد ’’ابوبکر بلاک‘‘ کے نام سے ایک بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے جس میں یکم ستمبر سے کالج کے فرسٹ ایئر کی کلاس کا آغاز ہو چکا ہے، اس کلاس میں بورڈ کا نصاب پڑھانے کے علاوہ عربی اور اسلامیات کی خصوصی تعلیم اور طلبہ کے ہمہ وقتی اقامتی نظام کے تحت ان کی نظریاتی، اخلاقی اور دینی تربیت کا پروگرام بھی شامل ہے۔ جبکہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو انگریزی، تاریخ، اردو ادب اور تقابل مذاہب کی تعلیمِ دینے کے لیے دو سالہ کو رس کا آغاز رمضان المبارک کے بعد کیا جا رہا ہے ، ان شاء اللہ العزیز۔ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سر براہ شہر کے معروف صنعت کار الحاج میاں محمد رفیق آف الہلال انڈسٹریز ہیں جبکہ تعلیمی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے تعلیمی امور کی نگرانی راقم الحروف کے ذمے ہے۔ ارشد میر صاحب مرحوم بھی تعلیمی کونسل کے رکن تھے اور تعلیمی نظام اور پروگرام کی موجودہ ترتیب میں ان کے مشوروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔

گزشتہ جمعہ کی جس ملاقات کا سطور بالا میں ذکر ہوا ہے اس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں ایک اچھی اور معیاری لائبریری قائم کی جائے جو اہل علم و دانش کے لیے کشش کا باعث بنے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خود بھی اپنی وسیع لائبریری کی چھانٹی کر کے اس مقصد کے لیے کتابیں دیں گے اور دوسرے احباب سے کتابیں دلوانے کی بھی بھر پور کوشش کریں گے۔ لائبریری کا قیام تو ہمارے پروگرام میں شامل ہے اور اس کے لیے ایک ہال مخصوص کر دیا گیا ہے لیکن اسے ارشد میر ایڈووکیٹ جیسے باذوق اور کتاب شناس دوست کی نگرانی میں منظم کرنے کی خواہش اب ایک حسرت ہی رہے گی۔

میر صاحب مرحوم اچھے مزاح نگار تھے اور مجلسی زندگی میں بھی لطائف و ظرائف اور نکتہ آفرینی کے ذریعے اہل مجلس کو خوش رکھنا ان کا امتیازی وصف تھا۔ پنچابی ادب میں انہیں نمایاں مقام حاصل تھا اور ادبی محافل میں ان کی موجودگی نوخیز ادبیوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوتی تھی۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری کی حیثیت سے ان کی ادبی خدمات مسلم ہیں اور اس کے ساتھ تحقیقی اور علمی مضامین بھی ان کی دسترس سے باہر نہ تھے۔ ،انہوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے واقعات بڑی کاوش کے ساتھ مرتب کیے تھے اور ابھی آخری ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ اسلام کے قانون شہادت پر بھی انہوں نے مفصل مضمون لکھا ہے جس کے بارے میں ان کی خواہش تھی کہ اسے ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کر دیا جائے۔ راقم الحروف نے یہ مضمون شائع کرنے کا وعدہ کیا اور ’’الشریعہ‘‘ کی مجلس ادارت میں ان کا نام شائع کرنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے دے دی۔ ان کا نام گزشتہ شمارہ میں شائع ہو چکا ہے لیکن یہ حسرت خدا جانے کب تک دل کی کسک بنی رہے گی کہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ پڑھنے والے اپنے بزرگ دوست کو یہ تازہ شمارہ ان کی زندگی میں پیش نہ کر سکا ۔ اللہ تعالی مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور دنیا کی طرح آخرت میں بھی انہیں ہنسی مزاح سے بھرپور زعفران زار مجلسیں عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ الشریعہ ۔ نومبر ۱۹۹۱ ء)

یہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد کے دور کی بات ہے، گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جہاں آج کل سفینہ مارکیٹ ہے، ان دنوں یہاں خیام ہوٹل ہوا کرتا تھا، وہاں ہر اتوار کی شام کو ”مجلس فکر و نظر“ کے زیر اہتمام ایک فکری نشست جمتی تھی۔ ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سیکرٹری تھے۔ ان سے اسی محفل میں تعارف ہوا جو بڑھتے بڑھتے بے تکلفانہ اور برادرانہ دوستی تک جا پہنچا۔ اس ادبی محفل میں کوئی نہ کوئی مقالہ ہوتا اور ایک آدھ نظم یا غزل ہوتی جس پر تنقید کا میدان گرم ہوتا اور ارباب شعر و ادب اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی، سید سبط الحسن ضیغم، ایزد مسعود ایڈووکیٹ، پروفیسر عبد اللہ جمال، پروفیسر افتخار ملک مرحوم، پروفیسر محمد صادق، پروفیسر رفیق چودھری، اثر لدھیانوی مرحوم اور ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سرکردہ ارکان تھے۔ میں بھی ہفتہ وار ادبی نشست میں جاتا تھا اور ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شریک ہوتا تھا۔ ایک روز اگلی محفل کا پروگرام طے ہو رہا تھا لیکن کوئی صاحب مقالہ کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو کہا کہ اگر اجازت ہو تو اگلی محفل میں مضمون میں پڑھ دوں؟ دوستوں نے میری طرف دیکھا تو میری ہیئت کذائی دیکھ کر تذبذب کا شکار ہوگئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی خاموشی کے بعد ارشد میر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس موضوع پر مضمون پڑھیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ ’’فلپ کے ہٹی کی کتاب ’’عرب اور اسلام‘‘ پر ایک تنقیدی نظر‘‘۔ ؔ

ہٹی کی اس کتاب کا اردو ترجمہ انہی دنوں آیا تھا اور میں نے تازہ تازہ پڑھ کر اس کی بہت سی باتوں کو نشان زد کر رکھا تھا، اس لیے میرا خیال تھا کہ میں اگلے اتوار تک کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو قلم بند کر لوں گا۔ مگر میرا یہ کہنا ایک دھماکہ ثابت ہوا کہ میری پہلی بات ہی بعض دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی، دوسری بات نے تو ان کے چہروں کی کیفیات کو یک لخت تبدیل کر دیا اور مجھے بعض چہروں پر خندۂ استہزا کی جھلک صاف دکھائی دی۔ مگر میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ارشد میر صاحب نے اگلی محفل میں میرے مضمون کا اعلان کر دیا۔

میں نے اپنے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے میں ان واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کی جو ہٹی سے تاریخی طور پر چند واقعات کو بیان کرنے میں ہو گئی تھی اور ان کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ دوسرے حصے میں اس اصولی بحث پر کچھ گزارشات پیش کیں کہ ہٹی اور دیگر مستشرقین اسلام کو ایک تحریک (Movement) کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ اسلام تحریک نہیں بلکہ دین ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی تحریک اور دین کے فرق کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اس مضمون کا پہلا حصہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں اس دور میں شائع ہوگیا تھا مگر دوسرے حصے کے بارے میں ترجمان اسلام کے مدیر محترم ڈاکٹر احمد حسین صاحب کمال مرحوم نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں گم ہوگیا ہے۔ بد قسمتی سے میرے پاس اس کی کاپی نہیں تھی اور مزید بدقسمتی یہ کہ اس کے بعد اس حصے کو لکھنے کی کئی بار کوشش کر چکا ہوں مگر ابھی تک اس معیار پر نہیں لکھ پا رہا۔ کسی کتاب کے پوسٹ مارٹم اور آپریشن کے حوالے سے یہ میرا پہلا مضمون تھا جو میں نے ”مجلس فکر و نظر“ کی ہفتہ وار ادبی نشست میں پڑھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد مجلس میں میری شمولیت نے خاموش سامع کے بجائے متحرک رکن کی شکل اختیار کر لی، بلکہ ایک موقع پر ”اسلام میں اجتہاد کا تصور“ کے عنوان پر مجھ سے مضمون پڑھنے کی فرمائش کی گئی جس پر میں نے بڑی محنت سے ایک مقالہ مرتب کر کے پڑھا۔ یہ نشست پروفیسر اسرار احمد سہارویؒ کی صدارت میں تھی اور شیخ ایزد مسعود نے میرے مقالہ پر اپنی تنقید میں اس کی بعض خامیوں کی نشان دہی کی۔ بعد میں اسی مجلس کے ایک محترم دوست نے وہ مقالہ مجھ سے مطالعہ کے لیے لیا مگر ان کی وفات ہو گئی اور وہ مضمون پھر دستیاب نہ ہو سکا۔

(ماہنامہ الشریعہ ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
   
2016ء سے
Flag Counter