دینی مدارس کی اصلاح کے نام سے حکومتی پروگرام کا آغاز ہوگیا ہے جس کے تحت اربوں روپے کی مالی امداد کا سلسلہ شروع ہے اور حکومت نے دینی مدارس کے وفاقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست دینی مدارس کی مالی امداد کے پروگرام کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاق جو پوری وحدت اور ہم آہنگی کے ساتھ دینی مدارس کے آزادانہ نظام میں سرکاری مداخلت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں انہیں غیر مؤثر کر دیا جائے اور اصلاح اور امداد کے نام سے دینی مدارس کے ساتھ براہ راست رابطہ کرکے انہیں سرکاری پروگرام میں شریک کیا جائے۔
ہمارے خیال میں یہ صورتحال دینی مدارس کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ حکومت کی ترغیب میں آنے والے مدارس اگرچہ اس سے وقتی فائدہ تو حاصل کر سکیں گے لیکن اگر وفاقوں کی گرفت کمزور پڑ گئی اور وفاقوں کو اعتماد میں لیے بغیر مدارس کے ساتھ سرکاری رابطوں کی روایت شروع ہوگئی تو یہ دینی مدارس کو اس سرکاری پروگرام میں شریک کرنے کا نقطہ آغاز ہوگا جو اربوں روپے کی بیرونی امداد کے ساتھ دینی مدارس کے آزادانہ نظام اور کردار کو سبوتاژ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس لیے ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے مکتب فکر کے دینی مدارس کے وفاق پر اعتماد کریں اور ان کے رابطہ اور مشاورت کے بغیر کسی پروگرام کو الگ طور پر قبول نہ کریں کیونکہ اس طرح وہ خود باہمی اعتماد کی گرہوں کو کھولتے چلے جائیں گے اور دام فریب میں پھنس جانے کے بعد پھر پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادتوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ ماتحت مدارس کے ساتھ اپنے رابطوں کو مضبوط کریں اور باہمی اتحاد کا پوری طرح مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں ۲۲ فروری ۲۰۰۴ء کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کا ایک اجلاس مولانا مفتی منیب الرحمن کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تمام وفاقوں کے عہدہ داروں نے شرکت کی اور اتحاد کے رابطہ سیکرٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی خصوصی دعوت پر راقم الحروف کو بھی اس شرکت کا موقع ملا۔
اس اجلاس میں دو اہم فیصلے ہوئے ۔ ایک یہ کہ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے موجودہ وفاقوں کو امتحانی یونیورسٹیوں کا درجہ دے کر اس کا باقاعدہ ڈیکلیریشن جاری کیا جائے اور حکومت سے یہ مطالبہ منوانے کے لیے منظم اور مربوط مہم کا آغاز کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ وفاقوں کو نظر انداز کرکے دینی مدارس سے براہ راست رابطے اور امداد کرنے کے سرکاری پروگرام کو مسترد کیا جائے اور دینی مدارس سے کہا جائے کہ وہ اپنے اپنے وفاقوں کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے دینی مدارس کے حوالے سے ان کے بغیر شروع کی جانے والی کسی امدادی سکیم کا ساتھ نہ دیں۔
ہمیں امید ہے کہ ملک بھر کے دینی مدارس اس سلسلہ میں صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کریں گے اور اپنے وفاقوں کے مشترکہ فیصلوں کا ساتھ دیں گے۔
پتنگ بازی پر مستقل پابندی کی سفارش
روزنامہ جنگ لاہور ۲۷ فروری ۲۰۰۴ء کی خبر کے مطابق لاہور کی ضلعی حکومت نے صوبہ پنجاب کی حکومت سے سفارش کی ہے کہ لاہور میں پتنگ بازی پر مستقل پابندی لگا دی جائے اور اگر جشن بہاراں یا بسنت کے موقع پر ضروری ہو تو اسے شرائط اور پابندیوں کے ساتھ شہر سے باہر کھلے میدانوں میں محدود کر دیا جائے۔
پتنگ بازی کے کاروبار اور کلچر نے گزشتہ چند سالوں میں جو عروج حاصل کیا ہے اور لوگوں کے قیمتی وقت اور بے پناہ مال کے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ سینکڑوں جانوں کا نذرانہ لے چکا ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ قومی حلقوں میں اس پر بحث مسلسل جاری ہے کہ تفریح کے نام پر رچائے جانے والے بسنت میلہ کی ثقافتی حیثیت ہندو کلچر کی نمائندگی اور فروغ کے سوا کچھ نہیں اور اسے پاکستانی معاشرت کی قدروں کو کمزور کرنے کے لیے بطور مہم استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں لاہور کی ضلعی حکومت کی یہ سفارش بہت اہم ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے پنجاب کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی جان و مال اور پاکستانی کلچر کے تحفظ کے لیے جلد اور ٹھوس قدم اٹھائے۔