شیطان کی پیش قدمی او ر پا پائے روم

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۰۸ء

روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار جناب عبد اللہ طارق نے ۷ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہو نے والے اپنے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ میں بتایا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ نے شیطان کی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس مقصد کے لیے حکمتِ عملی وضع کی جاری ہے جس کے تحت سینکڑوں روحانی عامل (Exorcists) ٹرینڈ کیے جائیں گے۔ منصوبے کے تحت چرچ کا ہر بشپ اپنے ڈایومسسز میں پادریوں کا ایک گروہ ترتیب دے گا اور ان سب کو ایگزارسزم کی خصوصی مہارت دلوائی جائے گی۔ ویٹی کن کے قدیم ترین شعبے ’’ڈاکٹرین آف فیتھ‘‘ کی تنظیم کا بنیادی مقصد کیتھولک عقائد کا تحفظ ہے اور موجودہ پوپ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے یعنی ۲۰۰۵ء تک اس شعبے کے سربراہ رہے ہیں۔ ویٹی کن کو اس بات پر تشویش ہے کہ نوجوان نسل پر شیطان مت (Satanism) اثرات بڑھ رہے ہیں اور میڈیا، ورک، موسیقی اور انٹرنیٹ ان اثرات کا بنیادی ماخذ ہیں۔

جہاں تک نوجوان نسل میں شیطانی اثرات کے مسلسل بڑھنے کا تعلق ہے ہمیں خوشی ہے کہ مسیحی دنیا کے سب سے بڑے مذہبی مرکز میں اب اس کا احساس پایا جانے لگا ہے اور انہیں روکنے کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے، ورنہ مغربی معاشرہ میں شیطانی اثرات مثلاً زنا، ہم جنس پرستی اور عریانی وغیرہ کی صورت میں جو شیطانی رقص کھلے بندوں ہو رہا ہے، چرچ نے ایک عرصہ سے اس پر چپ سادھ رکھی ہے، اور انسانی سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی بلکہ بغاوت کے سامنے مسیحی مذہبی ادارے’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں ۔ چند سال قبل برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں راقم الحروف نے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کے ہمراہ وہاں کے ایک بڑے پادری صاحب سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ آپ کے اردگرد کی سوسائٹی میں زنا، فحاشی، عریانی اور رقص کے حوالہ سے جو صورتحال نظر آرہی ہے کیا اس کو روکنے کی کوئی تدبیر آپ کے پاس ہے؟ انہوں نے بڑی صفائی سے کہا کہ یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے لیکن ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اب معلوم ہوتا ہے کہ چرچ نے ان شیطانی اثرات کی روک تھام کے لیے عملیات کے روایتی طریق کار کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پادریوں کو عملیات کی ٹریننگ دی جائے گی اور وہ ان عملیات کے ذریعے نئی نسل کو شیطانی اثرات سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ مگر ہمارے خیال میں اس ساری تگ و دو کی حیثیت ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی، اس لیے کہ بعض عملیات کے ذریعے جن، بھوت اور آسیب وغیرہ کا علاج کرنے کا دائرہ الگ ہے جبکہ سوسائٹی میں احکامِ خداوندی سے بغاوت اور آسمانی تعلیمات سے کھلم کھلا انحراف کا دائرہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس کا تعلق عقیدہ و ایمان سے اور یقین و ادراک سے ہے جس سے مغربی دنیا بالخصوص یورپ بالکل ہی تہی دامن ہو چکا ہے۔ جس معاشرہ میں خدا پر یقین ضروری نہ سمجھا جاتا ہو، اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی تعلیمات کو فرسودہ قرار دیا جاتا ہو، اور آخرت کا تصور ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا ہو، اس میں نفسانی خواہشات کے ننگے ناچ کے سوا اور کس بات کی توقع کی جا سکتی ہے؟ انسان ایک فرد ہو یا انسانی سوسائٹی، اس میں شیطان کے داخلے کا مین گیٹ ایمان اور عقیدہ کا ہوتا ہے، یہ دروازہ اگر مضبوطی سے بند ہے تو شیطان ادھر ادھر ٹکریں مارتا رہ جاتا ہے اور اگر کسی قلعے کا مین گیٹ ہی اکھڑ گیا ہو تو دشمن کی فوج کو اندر گھسنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

ہم ویٹی کن کو اس مرحلہ میں یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ شاخوں اور پتوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے درخت کے اصل تنے اور جڑ کی طرف توجہ دے اور خدا، رسول اور آخرت کے بنیادی عقیدہ کی طرف نئی نسل کو واپس لانے کی کوئی صورت نکالے، اس کے بغیر نفسانی خواہشات کو شیطان کا جال بننے سے بچانا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر اس کے لیے اصل اور خالص آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن کی نمائندگی اس وقت صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کر رہی ہے۔ لیکن کیا مسیحی دنیا کی مذہبی قیادت اپنی نوجوان نسل کو شیطانی اثرات کے دائرے سے نکالنے کے لیے اس حقیقت ثابتہ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار ہو گی؟

   
2016ء سے
Flag Counter