رعایا پروری اور حضرت عمر بن الخطابؓ

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۰۹ء

روزنامہ امت کراچی ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ریاست میں بسنے والوں کے مسائل کی ذمہ داری اپنے اوپر لی تھی اور انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کے ذمہ دار وہ ہوں گے، اب اگر کوئی قیدی مر جائے تو کون ذمہ دار ہوگا؟ آج عہدوں پر براجمان تمام ذمہ داران کو حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے راہنمائی لے کر ریاست میں بسنے والوں کی تکالیف اور مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے یہ ریمارکس ایک اخباری کالم پر از خود نوٹس کے تحت مقدمہ کی سماعت کے دوران دیے۔ کالم نگار نے منڈی بہاؤ الدین سے ایک قیدی کے خط کا حوالہ دیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ قیدیوں کے لیے نہ پینے کا پانی ہے اور نہ ہی ڈاکٹر دستیاب ہے جب کہ ملکوال میں بخشی خانہ بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے سخت گرمی کے باوجود قیدی بسوں میں ہتھکڑیوں کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس اخباری کالم پر از خود نوٹس لیتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے وہ ان کی رعایا پروری اور انسانیت دوستی کی علامت ہے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری اس سے قبل بھی اس قسم کے معاملات کا نوٹس لیتے رہے ہیں جس کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔ مگر ہم چیف جسٹس محترم کو رعایا کے مسائل کی طرف اس سنجیدہ توجہ پر مبارکباد دیتے ہوئے ان سے عرض کرنا چاہیں گے کہ بلا شبہ حضرت عمرؓ رعایا پروری اور عام آدمی کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی شبانہ روز مساعی کی وجہ سے دنیا بھر میں ویلفیئر ریاست اور گڈگورننس کے حوالہ سے آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں اور ان حوالوں سے اقوام عالم ان سے آج بھی راہنمائی حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس کی بنیاد حضرت عمرؓ کی چند روایات اور کچھ ذاتی واقعات پر نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا نظام اور فلسفۂ حیات ہے جس نے تاریخ میں عمر بن الخطابؓ کو امیر المومنین اور گڈگورننس کی آئیڈیل شخصیت کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اس پورے نظام کو اپنائے بغیر محض چند واقعات کو دہرا لینے سے ان نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی جن سے حضرت عمرؓ نے انسانی سوسائٹی کو بہرہ ور کیا تھا۔ مثلاً حضرت عمرؓ کی نظام کی بنیاد اور خصوصیات یہ تھیں:

  • انہوں نے اپنے پہلے خطبہ میں ہی قرآن و سنت کے ساتھ کمٹمنٹ کا واضح اعلان کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کریں گے اور اس کے خلاف چلنے پر ہر شہری کو ان سے مواخذے کا حق حاصل ہو گا۔
  • حضرت عمرؓ نے سرکاری عُمال کے لیے طے کر دیا تھا کہ وہ (۱) ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے (۲) چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائیں گے (۳) باریک لباس نہیں پہنیں گے (۴) اپنے مکان کے آگے ڈیوڑھی نہیں بنائیں گے، وغیرذٰلک۔ یہ چیزیں اس دور میں معاشرتی امتیاز کی علامت سمجھی جاتی تھیں اور ان سے منع کر کے حضرت عمرؓ نے اپنے افسران اور ملازمین کو پابند کر دیا تھا کہ وہ اپنے رہن سہن، رہائش اور خوراک میں عام شہریوں سے الگ معیار اختیار نہیں کریں گے۔
  • حضرت عمرؓ نے خود اپنے لیے عام شہریوں جیسا معیار زندگی اختیار کیا تھا بلکہ عام شہریوں میں سے بھی نچلے درجے کے معیار پر سرکاری خزانے سے وظیفہ اور مراعات لی تھیں اور اس معاملہ میں انہوں نے انتہائی سخت رویہ اختیار کیا تھا۔ حتٰی کہ ایک دفعہ ازواج مطہراتؓ نے باہمی مشورہ کر کے ان سے کہا تھا کہ وہ کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں اپنے لیے کچھ سہولتیں اختیار کریں لیکن انہوں نے مشورہ قبول کرنے سے انکار فرما دیا تھا۔
  • انہوں نے اپنے عُمال اور افسروں کے سخت احتساب اور نگرانی کا نظام قائم کر رکھا تھا اور ان ہدایات کی خلاف ورزی پر گورنروں تک کو سخت سزائیں دیا کرتے تھے۔

یہ ایک مکمل سسٹم اور کڑا معیار تھا جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ پورے اعتماد کے ساتھ فرماتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر جائے تو وہ اس کے ذمہ دار اور مسئول ہوں گے۔ جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ معاشرے کے طبقاتی امتیاز اور تقسیم نے یہ منظر قائم کر رکھا ہے کہ ایک ہی سرکاری دفتر میں دروازے سے اندر ٹھنڈے اور پر تعیش ماحول میں آرام سے بیٹھا ہوا افسر لاکھوں کی تعداد میں تنخواہ اور مراعات پاتا ہے اور اسی دروازے سے باہر اسٹول پر سخت گرمی میں بیٹھے ہوئے چپڑاسی کو چند ہزار کی تنخواہ اور معمولی مراعات پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں وہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے اس کے علاوہ اس نظام سے اور کسی نتیجہ کی توقع آخر کیسے کی جا سکتی ہے؟

ہم چیف جسٹس محترم کے ارشاد گرامی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان سے عرض کریں گے کہ اصل ضرورت نظام کی تبدیلی کی ہے اور معیارات کو بدلنے کی ہے، حضرت عمرؓ کے ارشادات سے راہنمائی ان کی تعلیمات، فلسفۂ حیات، طرز حکمرانی اور نظام حکومت کو اپنائے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی، اس لیے اگر چیف جسٹس محترم اس طرف کوئی توجہ دے سکتے ہیں تو یہ ان کا قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا اور تاریخ بھی ان کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter