اسلام کا نظام خلافت

   
تاریخ: 
جنوری ۲۰۱۳ء

گزشتہ ہفتے کراچی میں حاضری کے دوران معروف نقشبندی شیخ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں قائم ’’زوار اکیڈمی‘‘ میں حضرتؒ کے پوتے ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کی فرمائش پر خلافت کے موضوع پر کچھ معروضات دو نشستوں میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل کراچی میں ہی جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کی تخصصات کی کلاسوں کے سامنے اس موضوع پر متعدد نشستوں میں گزارشات پیش کر چکا ہوں اور ان کے کچھ حصے اس کالم میں پہلے بھی شائع ہوئے ہیں، مگر بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ ساری گفتگو مربوط شکل میں ترتیب کے ساتھ تحریر میں آجانی چاہیے۔ چنانچہ ان دوستوں کے اصرار پر اب تک اس موضوع پر مختلف نشستوں میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ ترتیب کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ لیکن اس بات کی وضاحت گفتگو شروع کرنے سے قبل کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ میرے ذاتی مطالعہ اور تجزیہ کا حاصل ہے اور مجھے ان میں سے کسی بات کے ہر حال میں ضروری ہونے پر اصرار نہیں ہے۔ اس لیے کسی صاحبِ فکر کو میری کسی گزارش سے اختلاف ہو تو ان کا حق ہے کہ اس کا اظہار کریں، اسے ریکارڈ پر لائیں، یا مناسب سمجھیں تو مجھے اس سے آگاہ فرمائیں، میں ان کا شکر گزار ہوں گا۔

  1. ’’خلافت‘‘ کا معنیٰ
  2. خلیفہ کس کا نائب ہوتا ہے؟
  3. خلافت اور امامت میں فرق
  4. خلافت پر تھیا کریسی ہونے کا الزام
  5. خلافت ۔ دلیل و قانون کی حکومت
  6. نظام خلافت کا رفاہی پہلو
  7. خلافت کی شرعی حیثیت
  8. خلافت کا تاریخی تسلسل
  9. نظامِ خلافت کا خاتمہ
  10. خلافت کا سیاسی ڈھانچہ
  11. خلافت کی بحالی کی جدوجہد
  12. خلافت اور رائے عامہ
  13. خلافت کی بحالی کی قابل عمل صورت


۱- ’’خلافت‘‘ کا معنیٰ

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ خلافت کا لفظی معنٰی نیابت ہے جو قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے حوالہ سے آیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے اللہ رب العزت نے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’انی جاعل فی الأرض خلیفۃ‘‘ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں، اور حضرت داؤد علیہ السلام سے رب العزت نے فرمایا ’’انا جعلناک خلیفۃ فی الارض‘‘ ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا معنٰی بعض مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ زمین پر پہلے جن بستے تھے، ان کی جگہ زمین کا نظام انسانوں کے حوالہ کر دیا گیا۔ یہ بات مشاہدہ میں بھی ہے کہ زمین پر بسنے والے ہزاروں قسم کے جانوروں میں سے زمین کے معاملات میں تصرف انسان ہی کر رہا ہے اور زمین کے ساتھ ہوا، پانی اور دیگر متعلقات پر بھی اسی کا تصرف ہے۔ یہ معنٰی بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نیابت و خلافت عطا فرمائی ہے کہ زمین پر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارے گا اور خدائی احکامات و قوانین کا نفاذ کرے گا۔ جبکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ قرار دے کر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا‘‘۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کو سیاسی نظام کے طور پر بیان فرمایا ہے، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء‘‘ کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام فرمایا کرتے تھے، وہ خود حکمران ہوتے تھے یا حکمران کا تعین ان کے حکم سے ہوتا تھا، جیسا کہ جابر بادشاہ جالوت کے مقابلہ کے لیے بنی اسرائیل نے اپنے وقت کے پیغمبر سے درخواست کی کہ ان کے لیے بادشاہ کا تقرر کیا جائے تاکہ وہ اس کی قیادت میں جابر بادشاہ کا مقابلہ کر سکیں، چنانچہ ان کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی معاملات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نمٹایا کرتے تھے، اس سے سوال پیدا ہوا کہ نبی اکرمؐ خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے تو پھر آپؐ کے بعد سیاسی نظام کس کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس لیے مذکورہ بالا جملہ کے ساتھ ہی نبی اکرمؐ نے فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ’’وستکون بعدی خلفاء‘‘ البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے جو اس سیاسی نظام کو سنبھالیں گے۔ اس طرح جناب نبی اکرمؐ نے خلافت کو امت مسلمہ کے سیاسی نظام کے طور پر بیان فرمایا ہے اور اسلام کے سیاسی نظام کا عنوان ’’خلافت‘‘ ہے۔

۲- خلیفہ کس کا نائب ہے؟

یہاں ایک دلچسپ بحث قابل توجہ ہے کہ خلیفہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کا نائب تصور ہوتا ہے یا جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کرتا ہے؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ امام ابو یعلیؒ کی ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں واقعہ مذکور ہے کہ ایک صاحب نے خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللّٰہ‘‘ کہہ کر خطاب کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’لست بخلیفۃ اللّٰہ انا خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ لیکن جب حضرت عمرؓ کو ’’یا خلیفۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ کہہ کر پکارا جانے لگا تو خطاب میں ’خلیفہ‘ کے لفظ کے تکرار سے انہیں الجھن ہوتی تھی۔ شاید اس لیے کہ تیسرے اور چوتھے خلیفہ کے اس خطاب میں خلیفہ کے لفظ کا تکرار کتنی بار ہوگا اور اس سے کیا صورت حال پیدا ہوگی؟ اس پس منظر میں ایک دن حضرت عمرؓ کو حضرت عمرو بن العاصؓ نے ’’یا امیر المومنین‘‘ کہہ کر پکارا تو حضرت عمرؓ نے اس خطاب کو پسند کیا اور فرمایا کہ اب انہیں امیر المومنین کہہ کر ہی خطاب کیا جائے۔

اسی طرح فقہاء امت نے ’خلافت‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے جہاں یہ بیان کیا ہے کہ خلیفہ اسے کہتے ہیں جو امت کے سیاسی اور اجتماعی امور سر انجام دے، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’نیابتًا عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ اس کی یہ حیثیت جناب نبی اکرمؐ کے نائب کے طور پر ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی اگر ’’خلافت و امامت‘‘ کی بحث پر ایک نظر ڈال لی جائے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو اہل سنت اور اہل تشیع کے ہاں صدیوں سے جاری ہے۔

۳- خلافت اور امامت میں فرق

اہل سنت کے نزدیک جناب نبی اکرمؐ کے بعد مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت کا عنوان ’’خلافت‘‘ ہے جبکہ اہل تشیع اسے ’’امامت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور دونوں میں مختلف حوالوں سے واضح فرق ہے:

  • خلیفہ کا تقرر جناب نبی اکرمؐ نے خود نہیں کیا تھا بلکہ اسے امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا، اور حضرت صدیق اکبرؓ کا خلیفۂ اول کے طور پر انتخاب امت مسلمہ نے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد اپنی اجتماعی صوابدید کے مطابق کیا تھا۔ جبکہ اہل تشیع کے نزدیک امام کے طور پر حضرت علیؓ کا تقرر خود جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا، اسی لیے انہیں ’’وصی‘‘ کہا جاتا ہے۔
  • امامت خاندانی ہے اور اہل تشیع کے بارہ اماموں میں سب کے سب ایک دوسرے کے نسبی وارث ہیں، جبکہ خلافت خاندانی نہیں ہے اور خلفاء راشدین میں سے کوئی بھی دوسرے کا نسبی وارث نہیں ہے۔
  • امام اہل تشیع کے نزدیک ’’معصوم‘‘ ہوتا ہے اور اس کی بات خود دلیل ہے، وہ کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے مگر اہل سنت کے نزدیک خلیفہ کی شرعی حیثیت ’’مجتہد‘‘ کی ہے، وہ قرآن و سنت کی دلیل کا پابند ہے، اس کا اپنا فیصلہ اجتہادی ہوتا ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس میں صواب کے ساتھ ساتھ خطا کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے جیسا کہ خلفاء راشدینؓ کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاتا رہا ہے۔
  • امام براہ راست خدا کا نمائندہ ہے اور اس کی بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے مگر خلیفہ جناب نبی اکرمؐ کا نائب ہے اور اس کے کسی فیصلے کو خدائی فیصلے کا درجہ حاصل نہیں ہے۔
  • امام کی کسی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، جبکہ خلیفہ کی بات سے عام آدمی بھی اختلاف کر سکتا ہے اور خلیفہ کو دلیل کی بنیاد پر اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر بھی مجبور کیا جا سکتا ہے جس کے بیسیوں شواہد خلفاء راشدینؓ کے دور میں موجود ہیں۔
  • اماموں کی تعداد بارہ پر پہنچ کر مکمل ہو گئی ہے اور اہل تشیع کے بقول بارہویں امام ہی آخری امام ہیں جو زندہ ہیں اور وہی قرب قیامت میں ظاہر ہو کر امت پر حکمرانی کریں گے۔ جبکہ اہل سنت کے نزدیک خلفاء کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا اور قیامت سے پہلے ’’امام مہدی‘‘ کا ظہور ہوگا، وہ اگرچہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوں گے لیکن اپنے دور میں پیدا ہوں گے اور ان کا ظہور ہوگا جس کے بعد وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد سے امت کی قیادت کریں گے اور کفر کی طاقتوں کو شکست دے کر اسلامی حکومت قائم کریں گے۔

۴- خلافت پر تھیا کریسی ہونے کا الزام

خلافت اور امامت کے اس اصولی فرق کو سمجھ لینے سے ایک اور بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ خلافت کے نظام پر تھیا کریسی کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے وہ درست نہیں ہے۔ تھیا کریسی خدا کے نام پر حکومت کرنے کو کہتے ہیں جہاں حکمران اللہ تعالیٰ کا نائب کہلا کر ہر قسم کی تنقید اور اختلاف سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور پاپائے روم کی حکمرانی کے دور میں سامنے آیا تھا کیونکہ پوپ کو خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، اس کی بات فائنل ہوتی تھی اور اسے آخری اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا۔ مغربی دنیا میں پاپائے روم کو صدیوں تک حکمرانوں کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس کی بات حکومت و سیاست میں بھی حرف آخر سمجھی جاتی تھی، اس لیے اس اتھارٹی کے خلاف بغاوت ہوئی اور حکومت و سیاست کو پوپ کی سرپرستی سے الگ کرتے ہوئے مذہب سے بھی آزاد کر دیا گیا۔ چنانچہ آج جب کسی جگہ اسلامی حکومت کی بات کی جاتی ہے تو اسے اسی پس منظر میں ’’تھیا کریسی‘‘ قرار دے کر بہت سے حلقوں میں قابل اعتراض قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ’’خلافت‘‘ کے مذکورہ تصور اور دائرے کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر تھیا کریسی کا یہ الزام درست نہیں ہے، اس لیے کہ خلیفہ معصوم نہیں ہے، عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے، اس کی ہر بات سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، عوام اس کا احتساب کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ اسے معزول بھی کیا جا سکتا ہے، اور وہ خود اتھارٹی ہونے کی بجائے قرآن و سنت کی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے جن میں رد و بدل کا اسے خود کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے خلافت کو تھیا کریسی قرار دینا خلافت کے مفہوم و نظام سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے۔ البتہ اہل تشیع کی امامت کا مفہوم تھیاکریسی کے قریب قریب ہے لیکن اہل سنت اسے قبول نہیں کرتے۔

۵- خلافت ۔ دلیل و قانون کی حکومت

یہاں ایک اور نکتہ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ ’’خلافت‘‘ ہی دنیا میں وہ واحد سیاسی نظام ہے جسے دلیل اور قانون کی حکومت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ:

  • بادشاہت میں بادشاہ خود قانون کا سرچشمہ ہوتا ہے اور وہ خود ہی اس کا شارح بھی ہوتا ہے۔ قانون بنانے، اسے تبدیل کرنے اور اس کی تشریح کرنے کا اختیار صرف اس کے پاس ہوتا ہے۔
  • ڈکٹیٹرشپ خواہ فوجی ہو یا پارٹی کی، اس کی صورت حال بھی اسی قسم کی ہے کہ شخصی یا اجتماعی ڈکٹیٹرشپ میں حکمران کے پاس ہی قانون سازی اور اس میں رد و بدل کے اختیارات ہوتے ہیں۔
  • جمہوریت میں کہا جاتا ہے کہ اختیارات عوام کے پاس ہوتے ہیں لیکن یہ صرف ایک پردہ ہے، اس لیے کہ پارلیمنٹ کو ہر معاملہ میں بالادستی حاصل ہوتی ہے، وہ دستور و قانون بنانے کی مجاز ہوتی ہے، اس میں رد و بدل کا اختیار اسی کے پاس ہوتا ہے اور اسے معطل کرنے کا حق بھی اسے حاصل ہوتا ہے، اس لیے کسی ایسے دستور و قانون کی پابندی کو جسے معطل کرنے اور اس میں رد و بدل کا اختیار بھی خود عمل کرنے والے کو حاصل ہو، دلیل و قانون کی حکومت قرار دینا مشکل سی بات ہے۔
  • خلافت میں حکمران شخص یا طبقہ ایک ایسے دستور و قانون کے ہر حال میں پابند ہوتے ہیں جس میں رد و بدل کا انہیں خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ خلیفہ اجتہادی دائرے میں فیصلوں کا مجاز ہے لیکن قرآن و سنت کے صریح احکام میں کسی قسم کے رد و بدل کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ ان کے نفاذ کا وہ پابند ہے۔ اس لیے خالص دلیل و قانون کی حکمرانی صرف خلافت کی صورت میں دنیا کو میسر آسکتی ہے اس لیے کہ خلیفہ ایسے طے شدہ قوانین کے نفاذ کا پابند ہوتا ہے جس میں رد و بدل کا خود اسے کوئی اختیار نہیں ہے، اسی لیے اسلام کے سیاسی نظام میں حکومت کا تصور نہیں ہے بلکہ اسے خلافت و نیابت کا عنوان دیا گیا ہے۔

خلافت کے مفہوم کو ایک اور حوالہ سے بھی دیکھ لیا جائے کہ اللہ رب العزت نے جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو زمین پر اتارا تو دو باتیں واضح فرما دی تھی جن کی قرآن کریم میں صراحت ہے، ایک یہ کہ ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الٰی حین‘‘ تمہارے لیے زمین میں قرارگاہ بھی ہوگی اور زندگی کے اسباب بھی ہوں گے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک محدود مدت تک کے لیے ہوں گے۔ اور دوسری بات یہ کہ ’’اما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ہدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ میری طرف سے ہدایات آئیں گی جو ان ہدایات کی پیروی کرے گا وہ خوف و حزن سے نجات پائے گا اور جو خلاف ورزی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو ایک محدود مدت کے لیے زمین پر بھیج کر اسے ان ہدایات کا پابند کر دیا جو اس کی طرف سے آئیں گی، یہ ہدایات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ آتی رہی ہیں جن کا فائنل ایڈیشن قرآن و سنت کی صورت میں آچکا ہے۔ ان ہدایات کی پیروی کا نظام قائم کرنے کا نام خلافت ہے اور یہی خلافت کی اصولی بنیاد ہے۔

۶- نظام خلافت کا رفاہی پہلو

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مال چھوڑ کر مرا وہ مال اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا ’’ومن ترک کلًا وضیاعًا فإلیّ وعلیّ‘‘ اور جو شخص قرض کا بوجھ اور بے سہارا اولاد چھوڑ کر مرا وہ میری طرف رجوع کریں گے اور ان کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ گویا آپؐ نے فرمایا کہ سوسائٹی کے نادار، مستحق اور بے سہارا اپنی ضروریات کے لیے میرے پاس آئیں گے، اور آپؐ نے بات صرف ’’فإلیّ‘‘ پر نہیں چھوڑی بلکہ ’’وعلیّ ‘‘فرما کر خود کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ چنانچہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بیت المال کا تصور سامنے آیا جس کا دائرہ آنحضرتؐ کے دور میں یہ تھا کہ کسی شخص کو جو ضرورت بھی پیش آتی تھی وہ آپؐ سے رجوع کرتا تھا اور آپؐ بیت المال کے فنڈ سے اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔ بیسیوں واقعات احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے صرف دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو ایک سفر کے لیے کچھ اونٹ درکار تھے، میں خاندان کا نمائندہ بن کر جناب نبی اکرمؐ کے پاس گیا اور سواریوں کا تقاضہ کیا، اس وقت آنحضرتؐ کے پاس اونٹ موجود نہیں تھے اس لیے آپؐ نے نہیں دیے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہیں سے اونٹوں کا بندوبست ہوگیا تو مجھے واپس بلا کر دو جوڑے میرے حوالے کیے۔ اسی طرح ایک واقعہ جناب رسول اللہؐ کی خوش طبعی اور دل لگی کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مجھے سفر کے لیے اونٹ کی ضرورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھہرو میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں، وہ شخص فکرمند ہوگیا کہ میں اونٹنی کے بچے کے ساتھ کیا کروں گا، تھوڑی دیر اس کی فکرمندی سے محظوظ ہونے کے بعد آپؐ نے فرمایا خدا کے بندے جو اونٹ میں تجھے دوں گا وہ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا۔

حکومت کو لوگوں کی ضروریات حسبِ موقع فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کی بات سب سے پہلے جناب رسول اللہؐ نے کی ہے اور وہیں سے رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کا آغاز ہوتا ہے ، اور آج بہت سی حکومتوں نے رفاہی ریاست کا یہ نظام اختیار کر رکھا ہے۔ یہ نظام خلفاء راشدینؓ کے دور میں باقاعدہ منظم ادارے کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی ایک عملی صورت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور خلافت کے ایک واقعہ کا ذکر کر کے واضح کرنا چاہتا ہوں جبکہ اس وقت مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے بیت المال کے آغاز کو کم و بیش ایک صدی گزر چکی تھی۔

کتاب الاموال میں امام ابو عبید قاسم بن سلّامؒ نے واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور خلافت میں ان کے عراق کے گورنر عبد الحمید مرحوم نے ایک سال انہیں خط لکھا کہ صوبہ میں زکوٰۃ و عشر اور دیگر محصولات کی وصولی کے بعد پورے سال کا خرچہ اور بجٹ پورا کر کے کچھ رقم بچ گئی ہے، اس کے بارے میں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جواب لکھا کہ یہ سروے کرواؤ کہ تمہارے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں اور اپنا قرضہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے قرضے اس رقم میں سے ادا کر دو، گورنر نے جواب دیا کہ حضرت یہ کام میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے دوسرا خط لکھا کہ جن بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں ان کی شادیاں اس رقم میں سے کرا دو۔ گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں، امیر المؤمنین نے تیسرا خط لکھا کہ جن خاوندوں نے ابھی تک بیویوں کے مہر ادا نہیں کیے اور وہ مہر ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے مہر اس رقم میں سے دلوا دو، گورنر نے جواب دیا کہ یہ کام بھی میں کر چکا ہوں۔ امیر المؤمنین نے چوتھا خط لکھا کہ زمینوں کا سروے کرواؤ اور بے آباد زمینوں کی کاشت کے لیے کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دے دو۔

۷- خلافت کی شرعی حیثیت

اس کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خلافت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فقہائے کرام نے نظام خلافت کے قیام اور خلیفہ کے تقرر کو امت کے فرائض و واجبات میں شمار کیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور خلافت کے فرض ہونے پر دو بڑی دلیلیں پیش فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا تھا، حتیٰ کہ جناب نبی اکرمؐ کی تدفین پر بھی اسے مقدم کیا تھا، اسے فقہاء کرامؒ نے ’’بل جعلوہ اھم الواجبات‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور حضرات صحابہ کرامؓ کا اس پر مکمل اجماع ہوا ہے جو کسی چیز کے فرض اور واجب ہونے کی واضح دلیل ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے صریح احکام حکومت کے قیام پر موقوف ہیں۔ مثلاً حدود و قصاص کا نفاذ، امن و انصاف کا قیام، بیت المال اور زکوٰۃ کا نظام، جہاد کا تسلسل اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اجتماعی نظام حکومتی سسٹم کا تقاضہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ اور ان جیسے بعض دیگر احکامِ قرآن حکومتی نظام کے بغیر نافذ و جاری نہیں کیے جا سکتے اور شرعی اصول یہ ہے کہ کسی فرض پر عمل جس چیز پر موقوف ہو وہ بھی فرض ہی کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔

اس بنیاد پر فقہاء کرامؒ نے خلافت کے قیام کو امت مسلمہ کے اجتماعی فرائض میں شمار کیا ہے اور اسے فرض کفایہ کا درجہ دیا ہے کہ اگر دنیا کے کسی حصے میں شرعی خلافت موجود ہے تو پوری امت کی طرف سے یہ فریضہ ادا ہو جاتا ہے لیکن اگر کہیں بھی خلافت کا نظام موجود نہیں ہے تو امت مسلمہ پوری کی پوری بطور امت ایک شرعی فریضہ کی تارک قرار پاتی ہے، اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں کہیں بھی خلافت کا نظام کسی درجہ میں بھی خلافت کے عنوان سے اور خلافت کے مفہوم کے مطابق موجود نہیں ہے۔ اس لیے ہم سب بحیثیت امت ایک شرعی فریضہ کے تارک ہیں اور یہ گناہ ہم سب کے ذمے اس وقت تک رہے گا جب تک امت میں کسی نہ کسی سطح پر خلافت کا نظام قائم نہیں ہو جاتا۔ ۱۹۲۴ء تک خلافت کا عنوان کسی نہ کسی درجہ میں جیسا بھی تھا، دنیا کے نقشے پر موجود تھا لیکن اس کے ختم ہونے کے بعد ۱۹۲۴ء سے یہ قرضہ اور فریضہ امت کے ذمہ ہے۔ دنیائے اسلام میں خلافت کی بہت سی تحریکیں کام کر رہی ہیں جن پر آگے چل کر تبصرہ کروں گا لیکن بیسیوں فورموں پر مختلف ممالک میں خلافت کے لیے آواز اٹھائے جانے کے باوجود سرِدست خلافت کا نظام قائم ہوتا نظر نہیں آتا۔

۸- خلافت کا تاریخی تسلسل

ان گزارشات کے بعد میں خلافت کے تاریخی تسلسل کے بارے میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ خلافت راشدہ کا آغاز جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ سے ہوا تھا جو تیس سال تک جاری رہا اور اس میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے اسماء گرامی شامل ہیں، جبکہ حضرت معاویہؓ سے صلح تک حضرت حسنؓ کا مختصر دورِ اقتدار بھی تیس سال کے اسی دائرہ میں آتا ہے۔ اس کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کا بیس سالہ دورِ خلافت ہے اور پھر بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کی خلافتیں ہیں اور درمیان میں حضرت عبد اللہ بن الزبیرؓ کی خلافت کا دور بھی ہے۔ خلافت راشدہ کا دورانیہ تیس سال میں کیوں محصور ہے اور حضرت معاویہؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافتوں کا شرعی مرتبہ کیا ہے؟ اس پر اہل علم کے ہاں خاصی بحث ہوئی ہے اور کسی درجہ میں اب بھی جاری ہے، لیکن اس ساری بحث سے قطع نظر میرا طالب علمانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ امت مسلمہ کے لیے حضرات صحابہ کرامؓ قیامت تک اسوہ حسنہ اور معیار ہیں۔ اور چونکہ امت ہر دور میں عزیمت پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو سکتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر عزیمت اور رخصت کے دونوں دائرے حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں ہی دکھا دیے تاکہ امت کو اپنے اپنے وقت میں راہ نمائی حاصل کرنے میں کسی الجھن کا سامنا نہ ہو۔ حضرات خلفائے راشدین کا دور عزیمت کا دور ہے جو ہمارا اصل آئیڈیل ہے جبکہ حضرت معاویہؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافتوں کو رخصت کا دور کہا جا سکتا ہے جو رخصتوں کے دائرے میں امت کے لیے قیامت تک معیار اور آئیڈیل رہے گا۔

’’خلافت راشدہ تیس سال تک رہی ہے‘‘ کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کے بعد اسلامی خلافت ختم ہو گئی تھی، اسلامی خلافت اس کے بعد بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کی خلافتوں کی صورت میں ۱۹۲۴ء تک چلتی رہی ہے، اس میں اتار چڑھاؤ یقیناً آتے رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر خلافت کا یہ تسلسل عثمانیہ خلافت کے خاتمہ تک قائم رہا ہے۔ اور جس خلافت پر بھی اپنے دور کے اہل علم اور امت کی رائے عامہ کا اعتماد رہا ہے وہ فقہی اصولوں کے مطابق خلافت اسلامیہ ہی شمار ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ اسلامی خلافت کے اعلیٰ ترین معیار کا ٹائٹل ہے، اس اعلیٰ ترین معیار کے قائم نہ رہنے کا مطلب خلافت کے نظام کا خاتمہ نہیں ہے، اس اعلیٰ ترین معیار میں کسی حد تک کمی ہوئی ہے بلکہ اگر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ارشاد کو دیکھا جائے کہ ’’علی منہاج النبوۃ‘‘ یعنی خلافت راشدہ کے اعلیٰ ترین معیار کے لیے جو شرائط ضروری تھیں وہ پہلے چار بزرگوں پر ہی مکمل ہو گئی تھیں اور ان کے بعد ان شرائط کا پایا جانا مثلاً یہ کہ وہ براہ راست جناب نبی اکرمؐ کی تربیت میں رہے ہوں، بعد کے خلفاء میں اس درجہ میں ممکن ہی نہ تھا، اس لیے اس کا تعلق کسی شرعی ضابطے سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام سے معلوم ہوتا ہے۔

تاریخی ترتیب کے لحاظ سے خلافت راشدہ کے بعد حضرت معاویہؓ سے شروع ہونے والا خلافت بنی امیہ کا نوے سالہ دور، پھر خلافت عباسیہ کا مختلف مراحل پر مشتمل پانچ سو سالہ دور، اور اس کے بعد ۱۹۲۴ء تک خلافت عثمانیہ کا دور ہمارا وہ تاریخی تسلسل ہے جس میں خلافت کا ادارہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے اور مختلف شعبوں میں کام بھی کرتا رہا ہے۔

خلافت عثمانیہ ترکوں کے بنو عثمان کی حکومت تھی، عثمان اول نے ۱۲۹۹ء میں ’’برسا‘‘ کے مقام پر عثمانی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا، پھر مصر میں قائم خلافت عباسیہ نے اس کے حق میں دست برداری اختیار کر کے عثمانیوں کی خلافت کو تسلیم کر لیا اور سلطان محمد فاتحؒ نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے اسے عثمانی خلافت کا دارالسلطنت بنا دیا۔ ایک دور میں خلافت عثمانیہ کا دائرہ سلطنت افریقہ کے بیشتر حصوں کے علاوہ مصر، عراق، جزیرۃ العرب، بلغاریہ، البانیہ، ہنگری اور روس کے بعض علاقوں تک وسیع تھا۔

۹- نظامِ خلافت کا خاتمہ

۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک لڑی جانے والی پہلی جنگ عظیم میں جس میں ایک طرف جرمنی اور بلغاریہ وغیرہ تھے اور دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور دوسرے ممالک کا متحدہ محاذ تھا، اس جنگ میں خلافت عثمانیہ جرمنی کے ساتھ تھی۔ مختلف ممالک کے درمیان لڑی جانے والی اس عالمی جنگ میں چار سال کے دوران ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد لقمۂ اجل بنے اور دو کروڑ کے قریب زخمی اور ناکارہ ہوگئے۔ اس جنگ میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی جس کے نتیجہ میں خلافت عثمانیہ کے مختلف علاقوں پر متحدہ فوجوں نے قبضہ کر لیا، حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ میں عراق، فلسطین اور مصر وغیرہ پر فرانس اور برطانیہ نے تسلط جما لیا۔ اس سے قبل ترکوں اور عربوں کو قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متنفر کرنے کا ماحول پیدا کر لیا گیا تھا۔ ترکی میں نوجوان انقلاب پسندوں کا گروہ مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں سامنے آچکا تھا جبکہ عرب ممالک میں برطانوی فوج کے ایک افسر کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عریبیا) نے مسلمان اور عرب دانش ور کا روپ دھار کر عربوں کو ترکوں کے خلاف متنفر کرنے کی مہم کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا لی تھی۔ اسی کے نتیجے میں مکہ کے گورنر شریف حسین نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر کے جزیرۃ العرب سے خلافت عثمانیہ کی فوجوں کو نکال دیا تھا، اسی دوران فلسطین پر قبضہ کر کے برطانیہ نے وہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر بسانے کا موقع فراہم کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی اور اس طرح برطانیہ نے یہودیوں کو ان کا قومی وطن واپس دلانے کا وعدہ پورا کیا۔ خود ترکی میں فاتح متحدہ فوجوں نے ڈیرے لگا لیے تھے اور یونان نے ترکی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ترکی کے قوم پرست راہنما مصطفیٰ کمال نے جو اتاترک کے لقب سے متعارف ہیں ترکی کی خود مختاری کا پرچم اٹھایا اور یونانی فوجوں سے جنگ لڑ کر انہیں شکست دی، انہوں نے خلافت تو ختم کر دی لیکن ترکی کی خود مختاری قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس پس منظر میں ترکی کے مستقبل کے سوال پر سوئٹرز لینڈ کے شہر ’’لوزان‘‘ میں بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں یورپ کے اتحادیوں نے اس شرط پر اور ترک قومیت کی بنیاد پر ترکی کی خود مختاری تسلیم کرنے کا وعدہ کیا کہ:

  • ترکی خلافت سے دست بردار ہو کر خلیفہ کو جلا وطن کر دے۔
  • خلافت کا نظام اور شریعت کا قانون یکسر منسوخ کر دیا جائے اور آئندہ خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ سے باز رہنے کا وعدہ کیا جائے، اور
  • عرب، افریقہ اور یورپ میں خلافت عثمانیہ کے مقبوضات سے بھی دست برداری کا اعلان کیا جائے۔

قوم پرست ترکی کے لیڈروں مصطفی کمال اتاترک اور عصمت ازنو نے ’’لوزان معاہدہ‘‘ کے تحت ان شرائط کو تسلیم کر کے خلافت سے دست برداری کا اعلان کر دیا اور ۱۹۲۴ء کے دوران اس وقت کے عثمانی خلیفہ کو اس کی تمام املاک ضبط کر کے جلا وطن کر دیا گیا۔ یوں خلافت سے اس دست برداری کے بعد خلافت کا برائے نام ادارہ بھی ختم ہوگیا، ہم اس کے بعد سے خلافت سے محروم چلے آرہے ہیں اور خدا جانے کب تک یہ محرومی ہمارے مقدر میں رہے گی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی دنیا آج پورے عالم اسلام میں کسی جگہ بھی خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کی مخالفت کر رہی ہے، حتیٰ کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہم دنیا کے کسی خطہ میں نہ خلافت قائم ہونے دیں گے اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دیں گے، اور امریکہ کے سابق نائب صدر ڈک چینی نے بھی ایک موقع پر اسی طرح کی گفتگو کی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ ترکی نے عالم اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے خلافت اور شریعت سے دست بردار ہونے اور آئندہ خلافت و شریعت کو نافذ نہ کرنے کا ’’معاہدہ لوزان‘‘ میں وعدہ کیا تھا، اس لیے خلافت کا دوبارہ قیام اور شریعت کا نفاذ اس بین الاقوامی معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگا جس سے مسلمانوں کو روکنے کا عالمی قوتوں کو حق حاصل ہے اور اسی لیے دنیائے اسلام میں نفاذ اسلام کی تحریکوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

۱۰- خلافت کا سیاسی ڈھانچہ

خلافت کے اس تاریخی تسلسل اور خلافت کے خاتمہ کے پس منظر کے بعد اب میں چاہوں گا کہ خلافت راشدہ کے سیاسی ڈھانچے کے بارے میں بھی کچھ عرض کر دوں، اس لیے کہ خلافت کا سیاسی اسٹرکچر آج کی دنیا میں ایک اہم موضوع کے طور پر زیر بحث ہے اور بہت سا کنفیوژن لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ خلافت راشدہ کے تعارف کے ضمن میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ خلافت کی بنیاد چند اصولوں پر ہے:

  • خلیفہ عوام کی صوابدید پر منتخب ہوگا، البتہ اس کے دو پہلو قابل توجہ ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی رائے میں اہل حل و عقد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کریں اور ابن تیمیہؒ اسے عامۃ المسلمین کا حق قرار دیتے ہیں۔
  • خلیفہ خاندانی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ خاندان کی قید کے بغیر کسی بھی مستحق شخص کو خلیفہ منتخب کیا جا سکے گا۔
  • خلیفہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبۂ خلافت میں واضح کر دیا تھا کہ اگر میں صحیح راستے پر چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر قرآن و سنت سے ہٹ کر چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہاں سیدھا کر دینے کے لفظ میں بھی ایک بلیغ اشارہ ہے کہ عوام کو صرف خلیفہ کی غلطی کی نشاندہی کر دینے کا حق نہیں دیا جا رہا بلکہ ’’فقومونی‘‘ کہہ کر سیدھا کر دینے کا حق انہیں دیا جا رہا ہے جسے میں اپنی طالب علمانہ رائے میں ’’حق احتساب‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں اور اس کی عملی صورتیں زمانے کے حالات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔
  • خلیفہ خود مختار نہیں بلکہ قرآن و سنت کے احکام اور امت کے اہل حل و عقد کے ساتھ مشاورت کا پابند ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور بہت سے دوسرے فقہاء کرامؒ کا کہنا یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کا براہ راست حق ہے کیونکہ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت و بیعت میں سب لوگ بلا امتیاز شریک تھے۔ میرا طالب علمانہ رجحان بھی اسی طرف ہے لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ انتخاب براہ راست ہو یا بالواسطہ دونوں صورتوں میں خلافت کے قیام اور خلیفہ کے انتخاب کے لیے امت کی اجتماعی صوابدید ہی بنیاد ہے اور اس اجتماعی صوابدید کے اظہار کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس اصولی بحث کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے انتخاب کے لیے فقہاء کرامؒ نے جو عملی صورتیں بیان فرمائی ہیں ان کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ فقہاء کرام نے خلافت کے انعقاد کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں:

  • امت کے عوام یا اہل حل و عقد خلیفہ کا انتخاب کریں جیسا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
  • خلیفۂ وقت کسی کو اپنا جانشین نامزد کر دے جیسا کہ حضرت عمرؓ کو خلیفہ اول نے نامزد کیا تھا۔
  • خلیفۂ وقت کچھ لوگوں کو خلیفہ کے تقرر کا اختیار دے دے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے چھ ممتاز افراد پر کمیٹی قائم کر دی تھی اور انہوں نے عوام سے اجتماعی مشاورت کے بعد حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کر لیا تھا۔
  • خلافت کی مجلس شوریٰ کے ارکان کسی کو خلیفہ بنا لیں جیسا کہ حضرت علیؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
  • کوئی اہل شخص اقتدار پر قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے جیسا کہ حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد امت مسلمہ نے حضرت امیر معاویہؓ کو متفقہ امیر المومنین کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ ان پانچ صورتوں میں سے آج کے دور میں صرف پہلی اور آخری دو صورتیں قابل عمل ہیں، درمیان کی تینوں صورتیں عملاً ممکن نہیں ہیں، اس لیے کہ ان تینوں صورتوں کا مدار خلافت اور خلیفہ کی موجودگی پر ہے اور چونکہ اس وقت خلافت اور خلیفہ شرعی طور پر موجود نہیں ہیں اس لیے درمیان کی تینوں صورتیں خارج از بحث ہو جاتی ہیں۔

خلافت کے قیام کی عملی صورتیں

اس بنیاد پر آج کے دور میں خلافت کے قیام اور خلیفہ کے انتخاب کی دو ہی صورتیں قابل عمل ہیں۔ ایک یہ کہ کسی مسلم ریاست کے عوام یا ان کے منتخب نمائندے خلافت کو اپنے ملک کا نظام قرار دے کر باقاعدہ خلیفہ کا انتخاب کر لیں اور دوسری یہ کہ کوئی اہل شخص کسی مسلم ریاست میں اقتدار پر قبضہ کر کے خلافت کے نظام کے قیام کا اعلان کرے اور عوام اسے بطور خلیفہ قبول کر لیں۔ اس کے سوا کوئی صورت آج کے دور میں ممکن اور قابل عمل نہیں ہے۔

اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہمارے دور میں خلافت اور امامت کے دونوں تصورات کو دستور و قانون کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

جناب آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران میں مذہبی انقلاب آیا تو وہاں ’’امامت‘‘ کے فلسفہ کو دستوری شکل دی گئی اس لیے کہ اہل تشیع کے نزدیک حکمرانی کا حق امام غائب کو ہی حاصل ہے۔ چنانچہ امام غائب کے ظہور تک ’’ولایت فقیہ‘‘ کو دستوری طور پر ان کا نمائندہ اور قائم مقام قرار دیا گیا ہے اور ولایت فقیہ کو ایرانی دستور میں عملاً امام کا درجہ حاصل ہے۔ ایران کے منتخب صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ سے بالاتر ولایت فقیہ کے طور پر رہبرِ انقلاب کا درجہ ہے جنہیں پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت سمیت کسی بھی اتھارٹی کے فیصلے کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے اور ان کے فیصلے کو کسی جگہ بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا، وہ تمام معاملات میں فائنل اتھارٹی ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ ممتاز علماء اور وکلاء پر مشتمل ’’شورائے نگہبان‘‘ بنائی گئی ہے جسے امام کے مشیروں کی کونسل سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح ایران نے ’’امام‘‘ کا لفظ اختیار کیے بغیر امامت کو دستور کا حصہ بنا لیا ہے اور اسی کے مطابق ایران کا نظام چل رہا ہے۔

جبکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے کے بعد پاکستان میں بھی یہ سوال پیدا ہوگیا تھا کہ اس کا سیاسی ڈھانچہ کیسا ہوگا جو اسلام سے متصادم نہ ہو۔ اس کے لیے خلافت کا عنوان اختیار کرنے سے گریز کیا گیا جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ خلافت کا ماڈل اس وقت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی صورت میں دنیا کے سامنے تھا جو خاندانی خلافت تھی اور پاکستان میں کسی خاندانی حکومت کا کوئی عملی امکان نہیں تھا۔ اس لیے قرارداد مقاصد اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ ۳۱ علماء کرام کے مرتب کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات میں چند اصول واضح طور پر طے کر دیے گئے کہ:

  • حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
  • حق حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہو گا۔
  • منتخب پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہو گی۔
  • عوام کو حق احتساب حاصل ہو گا۔

میری طالب علمانہ رائے میں ہمارے ہاں بھی خلافت کی اصطلاح استعمال کیے بغیر خلافت کے اصولی مفہوم کو قرارداد مقاصد اور علماء کے ۲۲ نکات میں پوری طرح سمو دیا گیا ہے اور میرے خیال میں اگر آج ہم کسی جگہ ’’خلافت‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ اسلامی حکومت قائم کرنا چاہیں گے تو اس کی اصولی اور دستوری بنیادیں اس سے مختلف نہیں ہوں گی۔

خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط

یہاں ایک اور بحث بھی قابل توجہ ہے کہ ایک عرصہ تک خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط کو لازمی سمجھا جاتا رہا ہے اور کم و بیش تمام فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے۔ لیکن عثمانی خلفاء قریشی نہیں تھے، اس کے باوجود ان کی خلافت پر صدیوں تک امت کے جمہور اہل علم کا اتفاق رہا ہے اور اس خلافت کو حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ میں بھی تسلیم کر کے جمعۃ المبارک کے خطبوں میں ان کا مسلسل تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ اس لیے یہ سوال سامنے آیا کہ اگر خلیفہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے تو عثمانی خلفاء کی خلافت کو کیسے تسلیم کر لیا گیا۔

قدیم دور میں اس پر صرف ابن خلدونؒ نے بات کی ہے، انہوں نے یہ لکھا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ’’الائمۃ من قریش‘‘ بطور حکم کے نہیں بلکہ بطور خبر اور پیش گوئی کے تھا جو پوری ہو گئی ہے، اس لیے آئندہ اس شرط کو لازمی قرار دینا ضروری نہیں ہے۔ اس موقف کے حق میں یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے ایک ارشاد میں خلفاء کے قریشی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ’’ما اقاموا الدین‘‘ کا جملہ بھی فرمایا ہے کہ جب تک وہ دین کو قائم کریں گے خلافت قریش میں رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قریشی اقامت دین کے فریضہ سے کوتاہی کریں گے تو خلافت ان کے پاس نہیں رہے گی۔ لیکن اس بحث کے باوجود جمہور فقہائے امت خلیفہ کے لیے لازمی شرائط میں قریشی ہونے کا برابر ذکر کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس بحث نے اس وقت دلچسپ صورت اختیار کر لی جب متحدہ ہندوستان میں ترکوں کی خلافت عثمانیہ کی حمایت میں تحریک چلائی گئی تو کہا گیا کہ قریشی نہ ہونے کی وجہ سے ترکوں کا عثمانی خاندان تو سرے سے خلافت کا اہل ہی نہیں ہے۔ اور جب شریف مکہ حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے حجاز سے ترکی افواج کو نکالا تب ایک فتویٰ ترکوں کے خلاف مرتب کیا گیا تھا جس میں انہیں مختلف حوالوں سے خلافت کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا، ان میں ایک حوالہ قریشی نہ ہونے کا بھی تھا، اس پر بریلوی مکتب فکر کے امام مولانا احمد رضا خان کا ایک مستقل رسالہ ’’دوام العیش فی ان الائمۃ من قریش‘‘ کے نام سے مطبوعہ صورت میں موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے دیوبندی اکابر علماء نے، جو ترکوں کی خلافت عثمانیہ کو شرعی خلافت قرار دے کر اس کی حمایت میں جدوجہد کر رہے تھے، اس کے جواب میں ابن خلدونؒ والا موقف اپنایا اور خلافت کے قریش میں ہونے کے بارے میں جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد گرامی کو انشاء اور حکم کی بجائے خبر اور پیش گوئی قرار دے کر ترکوں کی خلافت کی حمایت کی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز نے اپنے ایک خطبۂ صدارت میں اس موقف کا ذکر فرمایا ہے اور اسے صحیح موقف قرار دیا ہے۔

بہرحال دلائل اور مکالمہ کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اسلامی حکومت کے بارے میں ہمارے دور کے اکابر علماء کرام نے باہمی مشاورت یا اجتہاد کے ساتھ یہ اصول طے کیا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا سربراہ عوام کا منتخب کردہ ہوگا، اور خلافت کی شرائط پوری کرنے والا کوئی بھی شخص خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے۔

۱۱- خلافت کی بحالی کی جدوجہد

خلافت کے بارے میں یہ صورت حال سامنے رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں اس مقصد کے لیے بیسیوں حلقے کام کر رہے ہیں کہ کسی جگہ خلافت اسلامیہ قائم ہو جائے۔ ان میں سے بعض حلقوں کے ساتھ میرا رابطہ ہے اور اصولی طور پر ان کی جدوجہد کی حمایت بھی کرتا ہوں لیکن اس سلسلہ میں میرے بعض تحفظات ہیں جن کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ کم و بیش ہر حلقہ میں خلافت کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے لیے کسی شخصیت کو سامنے رکھ کر اس کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کی بات بھی کی جاتی ہے جو درست نہیں ہے۔ میں ان دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ خلافت کے احیا کی تحریک میں حمایت کرتا ہوں لیکن کسی کو خلافت کے لیے ابھی سے سامنے رکھ کر اس کے حق میں کیمپین (Campaign) کو درست نہیں سمجھتا۔ ابھی خلافت کے لیے رائے عامہ کو تیار کرنے کا دور ہے، لوگوں کی ذہن سازی کا دور ہے، اس کے لیے راہ ہموار کرنے کا دور ہے، اور خلافت کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کر کے انہیں منظم کرنے کا دور ہے۔ جب یہ مرحلہ گزر کر خلافت کی عملی تشکیل کا دور آئے گا تو پھر دیکھا جائے گا کہ خلافت کے لیے موزوں ترین شخصیت کون سی ہے۔ ایک دفعہ لندن کے ٹریفالیگر سکوائر میں حزب التحریر کے زیر اہتمام نکالی جانے والی خلافت ریلی میں مجھے شرکت کا موقع ملا، وہاں خلافت کے حق میں مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کے جذبات سے پُر نعرے سن کر میری آنکھیں بھی بار بار نم ہوتی رہیں۔ اس موقع پر ایک ترک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بادشاہوں والا لباس زیب تن کیے کھڑا ہے اور لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دے رہا ہے۔ اس نے مجھ سے بھی اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ کیا آپ مجھ سے متفق ہیں، میں نے عرض کیا ’’أتفق علی الخلافۃ لا علی الخلیفۃ‘‘ کہ میں خلافت کے احیا کے لیے آپ سے متفق ہوں لیکن آپ کو خلیفہ قرار دینے سے میں متفق نہیں ہوں۔

۱۲- خلافت اور رائے عامہ

کچھ لوگوں کے ذہن میں بعض فقہی جزئیات ہیں کہ اگر کسی شخص کو چند افراد خلیفہ منتخب کر لیں اور کچھ لوگ اس کی بیعت کر لیں تو باقی ساری امت پر اس خلافت کو تسلیم کرنا شرعاً ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے اور میں علماء کرام سے گزارش کیا کرتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ کا بغور مطالعہ کریں جو انہوں نے اپنی شہادت سے قبل غالبًا آخری خطبہ جمعہ کے طور پر مسجد نبویؐ میں ارشاد فرمایا تھا اور امام بخاریؒ نے اسے تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کو بتایا گیا کہ چند افراد نے باہمی مشورہ میں طے کیا ہے کہ حضرت عمرؓ فوت ہوگئے تو ہم کچھ افراد فلاں بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا اعلان کر دیں گے اور باقی سب لوگوں پر اسے ماننا ضروری ہو جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کر کے خبردار کیا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ اس خطبہ میں حضرت عمرؓ کے دو جملوں کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا، ایک یہ کہ انہوں نے فرمایا کہ جو لوگ عام مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر کسی کو خلیفہ بنانے کی بات کر رہے ہیں ’’یریدون أن یغصبوا امورھم‘‘ وہ عام مسلمانوں کا حق چھیننا چاہتے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی عمومی مشاورت کے بغیر اگر کسی شخص کی بیعت کی جائے تو تم اس کی بات ہرگز نہ ماننا اور نہ اس کی بیعت کرنا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے مسلمانوں کی عمومی مشاورت کو ضروری قرار دیا ہے اور اس کے خلاف کرنے سے منع کیا ہے۔

ایک اور مغالطہ بھی دور ہو جائے تو مناسب ہوگا کہ خلیفہ کی طرف سے نامزدگی کی صورت میں بھی عمومی مشاورت ایک ناگزیر امر ہے۔ حضرت عمرؓ نے چھ افراد کو نامزد کیا تھا، ان میں ایک دوسرے کے حق میں دست بردار ہونے کے بعد تین رہ گئے تھے، ان تین میں سے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو اس صورت میں فیصلے کا اختیار دے دیا تھا کہ وہ خود یعنی عبد الرحمن بن عوفؓ امیدوار نہیں ہوں گے۔ اب فائنل راؤنڈ میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ میں سے کسی کا انتخاب کرنا تھا۔ لیکن بخاری شریف کی تفصیلی روایت کے مطابق حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں مشورہ کے لیے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، تین دن تین رات تک مسلسل میں نے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشاورت کی اور اس دوران میں نے نیند کا سرمہ تک آنکھوں میں نہیں لگایا، جبکہ تین دن تین رات کی مسلسل عوامی مشاورت کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ میں نے سب لوگوں سے مشورہ کیا ہے اور اکثریت کی رائے کو حضرت عثمانؓ کے حق میں پایا ہے اس لیے میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ نامزدگی کی صورت میں بھی رائے عامہ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے اور عمومی مشاورت کے بغیر کسی کو خلیفہ مقرر کر لینا صحیح طرز عمل نہیں ہے۔ پھر عام لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے مختلف طریقے ہیں، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے تو گھر گھر جا کر لوگوں کا رجحان معلوم کیا مگر لوگوں کی رائے ان کے نمائندوں کے ذریعہ معلوم کرنا بھی سنت نبویؐ میں شامل ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ غزوۂ حنین کے بعد جب نبی اکرمؐ نے بنو ہوازن کے قیدی اور اموال صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیے تو بنو ہوازن کے وفد نے حاضر ہو کر کہا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس لیے ہمارے قیدی اور اموال واپس کر دیے جائیں۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میں کافی دنوں تک تمہارا انتظار کرتا رہا مگر تم نہیں آئے ،میں نے قیدی اور اموال بطور غلام اور غنیمت اپنے مجاہدین میں تقسیم کر دیے ہیں اس لیے اب یہ ان کی ملکیت ہوگئے ہیں۔ تم مسلمان ہو کر آئے ہو تو میں دونوں چیزیں تمہیں واپس نہیں کر سکتا، قیدیوں اور اموال میں سے ایک کی بات کرو تو اس کی صورت نکل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ہمارے قیدی واپس کر دیے جائیں۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو، جو بارہ ہزار کے لگ بھگ تھے، جمع کیا اور فرمایا کہ میں بنو ہوازن کو ان کے قیدی واپس کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں اس لیے تم میں سے جو شخص اپنے حصے کا قیدی بخوشی واپس کر دے تو اس کی مرضی، ورنہ قیدی واپس کر دو میں اس کے بدلے اگلی جنگ میں تمہیں معاوضہ کے طور پر قیدی بطور غلام دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے بیک آواز کہا کہ ہم سب بخوشی سب قیدی واپس کرتے ہیں، لیکن جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ نہیں اس طرح ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ تم میں سے کون بخوشی راضی ہے اور کون راضی نہیں ہے، اس لیے تم واپس اپنے خیموں میں جاؤ اور ’’حتی یرفع الینا عرفاء کم امرکم‘‘ تمہارے نمائندے تمہاری رائے معلوم کر کے ہمیں بتائیں تب ہم حتمی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ سب لوگ خیموں میں چلے گئے اور اگلے روز ان کے نمائندوں نے نبی اکرمؐ کو رپورٹ دی کہ سب لوگ راضی ہیں۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے بنو ہوازن کو ان کے قیدی واپس کر دیے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی رائے معلوم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کی رائے ان کے نمائندوں کے ذریعہ معلوم کر لی جائے۔ اور جہاں ان کے حقوق کی بات ہوگی وہاں عوام کی رائے معلوم کرنا ضروری ہوگا اور یہ بھی خلافت کے سیاسی ڈھانچے کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ اس بحث کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام اور خلیفہ کے انعقاد کے لیے رائے عامہ کو اعتماد میں لینا اور عوامی مشاورت کے ذریعہ اس کام کو مکمل کرنا ضروری ہے۔

۱۳- خلافت کی بحالی کی قابلِ عمل صورت

آخر میں آج کے دور میں خلافت کے قیام کی قابل عمل صورت کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں پاکستان کی معروضی صورت حال میں نفاذِ اسلام کے حوالہ سے دو ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا، اور دوسرا یہ کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اور مقتدر قوتوں سے جنگ لڑے بغیر اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف صرف پارلیمانی قوت پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھیار اٹھا کر عسکری قوت کے ذریعہ مقتدر قوتوں سے جنگ لڑنے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے، میری طالب علمانہ رائے میں یہ دونوں طریقے ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف الیکشن، جمہوریت اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ نفاذ اسلام اس ملک میں موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے، اور ہتھیار اٹھا کر حکمران طبقات کے ساتھ جنگ کرنا اس کے شرعی جواز یا عدم جواز کی بحث سے قطع نظر بھی عملاً مؤثر اور نتیجہ خیز نہیں ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ کسی مسلم ریاست میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی شرائط فقہاء کرامؒ نے کیا بیان کی ہیں، اور خاص طور پر جمہور فقہائے احناف کا موقف اس سلسلہ میں کیا لکھا ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عسکری گروپوں کے لیے ملک کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جنگ لڑ کر کوئی علاقہ حاصل کر لینا اور اس پر قبضہ برقرار رکھ کر اس میں کوئی نظام نافذ کر لینا ممکن بھی ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص اس سوال کا جواب اثبات میں دے گا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کی حد تک ایران کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی مذہبی قیادت نے شاہ ایران کی قیادت سے انحراف کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکری بیداری کی جولانگاہ بنایا، مسلسل سترہ برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنایا، اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں شاہ ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

میں ایرانیوں کے مذہب کی نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کے طریق کار کی بات کر رہا ہوں کہ ان کے کامیاب تجربہ کو سامنے رکھ کر کیا ہم اپنی جدوجہد کا طریق کار طے نہیں کر سکتے؟ اگر کچھ دوستوں کو یہ حوالہ میرے قلم سے پسند نہ آرہا ہو تو میں امریکہ کے سیاہ فاموں کی اس جدوجہد کا حوالہ دینا چاہوں گا جو اب سے صرف پون صدی قبل کالوں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دلوانے کے لیے منظم کی گئی تھی۔ ایک مذہبی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کی سٹریٹ پاور کو منظم کیا، پرُ امن احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف دو عشروں کی جدوجہد سے ۱۹۶۴ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے سیاہ فام آبادی کے لیے سفید فاموں کے برابر شہری حقوق کی دستاویز پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔

میں نے دونوں تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے، دونوں کے مراکز میں گیا ہوں، ان کے راہ نماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے واقف ہوں۔ میں افغانستان بھی گیا ہوں، بار بار گیا ہوں، روسی استعمار کے خلاف جہاد میں مختلف جنگی محاذوں پر حاضری دی ہے، افغان مجاہدین کی روسی استعمار کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں، امریکی استعمار کے خلاف ان کی جنگ کو بھی جہاد سمجھتا ہوں اور حتی الوسع اسے اخلاقی اور سیاسی طور پر سپورٹ کرتا ہوں۔ اس کے باوجود پورے شرح صدر اور دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ دینی تصلب اور حمیت و غیرت میں تو بلاشبہ افغان مجاہدین اور افغان طالبان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد کے طریق کار کے حوالہ سے ہمیں ایران کی مذہبی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا اور مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر پُر امن عوامی تحریک اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ذریعہ ’’امامت‘‘ کو دستوری شکل دے کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے تو ’’خلافت‘‘ کے احیا و قیام کے لیے یہ قوت آخر کیوں کام میں نہیں لائی جا سکتی؟

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۶ تا ۱۱ جنوری ۲۰۱۳ء)
2016ء سے
Flag Counter