موجودہ حالات میں ملی مجلس شرعی کا موقف

   
تاریخ : 
۲۳ جون ۲۰۲۱ء

پاکستان کے اسلامی تشخص، تہذیب و تمدن اور دستور و قانون کے اسلامی پہلوؤں کے حوالہ سے بین الاقوامی سیکولر حلقوں کا دباؤ اور ملک کے اندر سیکولر لابیوں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ اہل دین کے ارباب شعور و دانش میں اس کا احساس و ادراک پوری طرح دکھائی نہیں دے رہا اور ملی و دینی معاملات میں جدوجہد کا ماحول کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے جملہ ارباب ان دنوں تشویش اور سوچ بچار میں ہیں اور اس حوالہ سے گزشتہ دنوں ایک نشست جوہر ٹاؤن لاہور میں مولانا حافظ نعمان حامد کے ہاں اور دوسری نشست جامعہ عثمانیہ آسٹریلیا مسجد میں ہو چکی ہے، جبکہ تیسری نشست جلد متوقع ہے۔

ملی مجلس شرعی پاکستان مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش کا ایک مشترکہ فورم ہے جس کے پہلے صدر ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی شہیدؒ اور دوسرے صدر مولانا مفتی محمد خان قادریؒ تھے، ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری میرے سپرد ہے، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین شروع سے سیکرٹری جنرل چلے آ رہے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، علامہ توقیر عباس، مولانا حافظ نعمان حامد، حاجی عبد لطیف چیمہ، مولانا حافظ غضنفر عزیز، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، ڈاکٹر حافظ محمد سلیم، مفتی محمد عمران رضا طحاوی، مولانا محمد اسلم ندیم اور دیگر دوست شریک کار ہیں۔

مجلس کا قیام حضرت مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ اور مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی کی تحریک پر دو مقاصد کے لیے عمل میں آیا تھا۔ (۱) ایک یہ کہ ہماری ملی و دینی تحریکات عام طور پر ہوم ورک سے خالی ہوتی ہیں جبکہ ہوم ورک، پیپر ورک اور تحقیق و مطالعہ کسی بھی تحریک کے لیے لازمی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ (۲) اور دوسری بات یہ کہ ملی و دینی مسائل میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات کی طرف سے مشترکہ موقف کا اظہار نہ صرف عوام کی حوصلہ افزائی اور اعتماد کا باعث بنتا ہے بلکہ تحریک کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھا گیا جس پر ملی مجلس شرعی اب تک عمل پیرا ہے کہ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ مسئلہ کی نشاندہی، بریفنگ اور مشترکہ موقف کے اظہار تک محدود رکھا جائے اور کسی بھی تحریک کے عملی مراحل کے لیے میدان عمل میں موجود تحریکی قوتوں اور جماعتوں کو توجہ دلا کر ان کی حمایت و تعاون کا ماحول پیدا کیا جائے۔

ہم نے متعدد معاملات بالخصوص (۱) انسداد سود (۲) علماء کرام کے متفقہ بائیس دستوری نکات کی تجدید (۳) فحاشی و عریانی کے خلاف مہم (۴) حالیہ متنازعہ اوقاف قوانین اور (۵) تحفظ ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے اس دائرہ میں کچھ نہ کچھ محنت کی ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ اس کے نتائج بھی سامنے آئے ہیں، مگر عملی تحریک کا میدان خالی دیکھ کر ہمارے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین اور بعض دیگر دوستوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اس حوالہ سے بھی پیش رفت کی کوئی صورت پیدا کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک خصوصی کمیٹی گزشتہ دنوں تشکیل دی گئی تھی جس کا اجلاس ۱۹ جون کو آسٹریلیا مسجد لاہور میں راقم الحروف کی صدارت میں ہوا جس میں ڈاکٹر محمد امین، قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا محمد اسلم ندیم، حاجی عبد اللطیف چیمہ، حافظ غضنفر عزیز، مولانا محمد عمران طحاوی، علامہ توقیر عباس، ڈاکٹر حافظ محمد سلیم اور دیگر دوستوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں زیر بحث آنے والے امور کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

  • تحریکی ماحول اور دینی جدوجہد میں بہتری اور پیش رفت کے حوالہ سے ملی مجلس شرعی پاکستان کے کردار کے بارے میں باہمی صلاح مشورہ جاری رہے گا اور اس سلسلہ میں تمام امکانات، ضروریات، تحفظات اور خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اس بارے میں تجاویز و سفارشات مرتب کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ڈاکٹر حافظ حسن مدنی پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
  • افغانستان کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور باہمی مشورہ سے یہ متفقہ موقف طے ہوا کہ (۱) امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنا پاکستان کی قومی خودمختاری کے منافی ہو گا۔ (۲) افغانستان کی وحدت، قومی خودمختاری اور افغان قوم کے اسلامی و تہذیبی تشخص کے خلاف کیا جانے والا کوئی معاہدہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ (۳) افغانستان میں بھارت نواز گروپوں کے لیے سہولت کاری کا ماحول پیدا کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو گا جس کے حوالہ سے پاکستان کو چوکنا اور محتاط رہنا ہو گا۔
  • تحفظ ناموس رسالتؐ کے سلسلہ میں یورپی یونین کی قرارداد کی روشنی میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اسے پاکستان کے داخلی و مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا۔ جبکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کے ہر حال میں تحفظ کا دو ٹوک اعلان کر ےاور اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر سفارتی مہم کا اہتمام کیا جائے۔
  • تحریک انسداد سود پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اسے منظم کرنے کے لیے دینی حلقوں میں رابطہ و تعاون کے فروغ کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔
  • مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینی عوام پر مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گومگو کی فضا سے باہر نکلے اور عالم اسلام کے موقف اور جذبات کی صحیح ترجمانی کے لیے اپنے کردار اور ترجیحات کا ازسرنو تعین کرے۔
  • ملک بھر کے دینی و علمی حلقوں پر زور دیا گیا کہ وہ ملی و قومی مسائل کے حوالہ سے مشترکہ موقف و کردار کے تعین کے لیے باہمی رابطہ و تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور مشترکہ جدوجہد کا ماحول پیدا کریں۔
  • متنازعہ اوقاف قوانین کے خلاف اسلام آباد کی تحریک تحفظ مساجد و مدارس کی جدوجہد اور موقف کی مکمل حمایت کرتے ہوئے یکم جولائی کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والے عوامی مظاہرہ کو بھرپور طریقہ سے کامیاب بنانے کے لیے تمام دینی حلقوں سے تعاون کی اپیل کی گئی۔

اجلاس میں ملی مجلس شرعی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ خلیل الرحمٰن قادریؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور مولانا محمد عمران رضا طحاوی کو ان کی جگہ مجلس کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter