قادیانیوں کی عالمی سر گرمیاں

   
تاریخ اشاعت: 
جنوری ۲۰۱۳ء
  • گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا عطاء الرحمٰن نے ایک تحریک کے ذریعے ایوان کو توجہ دلائی ہے کہ کینیڈا میں پاکستانی سفارت خانے کے تعاون سے قادیانیوں نے ایک تقریب منعقد کی ہے جس میں تقریب کے منتظمین کے خیال میں اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود تھا۔ مولانا موصوف نے کہا کہ پاکستان کے دستور کے مطابق قادیانی گروہ مسلمان نہیں ہے اس لیے ان کی کسی تقریب کو اسلام کے حوالہ سے منعقد کرنے میں پاکستانی سفارت خانے کا مبینہ تعاون دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر دفاع جناب نوید قمر نے اس موقع پر ایوان کو بتایا کہ حکومت قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتی ہے اور مذکورہ واقعہ کی انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ء کو یہ خبر شائع کی ہے کہ جرمنی کے صوبے ہیسن کے سرکاری سکولوں میں مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم کا آغاز کیا جا رہا ہے اور اس کے نصاب کی تیاری اور اساتذہ کی تربیت کے کام میں قادیانیوں کو شریک کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق جرمنی کی حکومت نے اس کام کی ذمہ داری سپرد کرنے کے لیے مختلف تنظیموں کے بارے میں انکوائری کی اور اس بات پر اطمینان حاصل کرنا چاہا کہ اسلامی تعلیم کا نصاب تیار کرنے والی تنظیمیں بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر مرد اور عورت میں مکمل مساوات پر یقین رکھتی ہوں، اس معیار پر ایک ترک تنظیم کے علاوہ قادیانی جماعت نے پورا اترنے کا یقین دلایا ہے جس پر یہ کام ان کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
  • بعض اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر جناب واجد شمس الحسن کے بارے میں بھی ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کرنے کا عندیہ دیا ہے اور مسلمانوں میں اس کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

ان خبروں سے جہاں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قادیانیوں نے ابھی تک اپنے بارے میں امت مسلمہ کے متفقہ فیصلے اور دستور پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور وہ خود کو مسلمان ظاہر کرنے کی ہر سطح پر مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، وہاں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قادیانیوں کو اس مہم میں عالمی سیکولر لابیوں اور مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بعض سرکاری حلقوں کی خفیہ سرپرستی اور تعاون بھی حاصل ہے جس کا کوئی نہ کوئی موقع وہ وقتاً فوقتاً نکالتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جن بین الاقوامی حلقوں تک قادیانیوں کی رسائی ہے اور وہ لابنگ اور بریفنگ کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کے خلاف اپنی مذموم مہم میں بین الاقوامی فورموں کا تعاون حاصل کرنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہو جاتے ہیں، وہاں تک تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والے دینی حلقوں اور جماعتوں کی رسائی نہیں ہے، اور عالمی رائے عامہ کو منظم کرنے اور بین الاقوامی فورموں کو قائل کرنے کے محاذ پر قادیانیوں کی یکطرفہ ٹریفک ہی ابھی تک جاری و ساری ہے۔

ہم ایک عرصہ سے دینی حلقوں، علمی مراکز اور خاص طور پر تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کے تعاقب کے لیے صرف اپنے حلقوں میں بیداری قائم رکھ کر مطمئن ہو جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس محنت اور جدوجہد کو ان بین الاقوامی حلقوں تک لے جانا بھی ضروری ہے جہاں قادیانی گروہ اسلام اور پاکستان کے خلاف مسلسل سر گرم عمل ہے کیونکہ اس کے بغیر قادیانی گروہ کی مذموم سرگرمیوں کا صحیح طور پر سدباب نہیں کیا جا سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter