دینی جدوجہد کے ناگزیر تقاضے اور ہمارا اصل محاذ

   
تاریخ: 
۱۱ جولائی ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰة۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ مختلف دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ حضرات کے اس اجتماع میں شرکت اور کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ اجتماع سات ستمبر کو مینار پاکستان لاہور کے وسیع میدان میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلہ میں منعقد ہوا ہے اور اس میں کانفرنس کو بھرپور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مختلف پروگرام تشکیل دیے جائیں گے، اس موقع پر موجودہ دینی صورت حال اور دینی حلقوں کی جد و جہد کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس وقت جن اہم مسائل کا سامنا ہے اور جن کے لیے دینی حلقے اپنے اپنے دائروں میں محنت کر رہے ہیں، ان پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔

  • ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ توہین رسالت کو جرم قرار دینے اور اس پر موت کی سزا کے قانون کو پاکستان میں تبدیل کر دیا جائے۔
  • ہم سے یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے آئینی فیصلہ اور اس کے مطابق نافذ قوانین میں رد و بدل کیا جائے۔
  • اوقاف کے نئے قوانین کے تحت ملک بھر کی مساجد و مدارس اور وقف اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے اور شرعی احکام و قوانین کے ساتھ ساتھ مسلّم بین الاقوامی انسانی حقوق کو بھی پامال کر دیا گیا ہے۔
  • یکساں قومی نصاب تعلیم کے عنوان سے دینی مدارس کے جداگانہ تعلیمی نصاب و نظام کو بتدریج ختم کرنے اور ریاستی نصاب تعلیم میں موجود اسلامی مواد کو کم سے کم تر کرتے چلے جانے کے لیے مسلسل اقدامات کیے جا رہے ہیں اور کسی بھی نوعیت کے رائج الوقت نصاب تعلیم سے دینی تعلیمات و روایات کو خارج کر دینے کو قومی تعلیمی پالیسی کا ہدف بنا لیا گیا ہے۔
  • گھریلو تشدد کی روک تھام کے نام پر ہمارے خاندانی نظام کی شرعی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا گیا ہے اور قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے ساتھ ساتھ مسلّمہ انسانی و شرعی حقوق کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

اس قسم کے سنگین مسائل وقفہ وقفہ سے سامنے آرہے ہیں، ایک مسئلہ پر عوامی احتجاج کی لہر تھوڑی مدہم پڑتی ہے تو کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے کہ میں تمہارے گھروں کے درمیان فتنوں کو یوں اترتے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش برستی ہے، آج ہم کم و بیش اسی نوعیت کی صورت حال سے دوچار ہیں اور مختلف حلقے اپنے اپنے دائرہ میں ان کے بارے میں دینی جد و جہد میں سرگرم عمل دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حوالہ سے آج دو اہم امور کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں:

  1. ایک یہ کہ ان سب مسائل کے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور بنیادی سبب ایک ہی ہے اور وہ ہمارے بین الاقوامی معاہدات ہیں جن میں ہم جکڑے ہوئے ہیں اور ان کے تحت ہمیں اس طرح کے اقدامات کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے، ان میں سے ہر مسئلہ کے پیچھے کوئی نہ کوئی بین الاقوامی ادارہ ہے جو کسی نہ کسی بین الاقوامی معاہدہ کے حوالہ سے ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے اور ہم ان معاہدوں کا باقاعدہ حصہ ہیں، ہماری حکومتوں کی شروع سے یہ پالیسی چلی آرہی ہے کہ کوئی معاہدہ کرتے وقت یا کسی بین الاقوامی معاہدہ کا حصہ بنتے وقت وقتی مفاد اور ضرورت کی بنیاد پر فیصلہ کر لیتی ہے، نہ ملک کے نظریاتی تشخص اور دستوری تقاضے اس وقت ان کے سامنے رہتے ہیں اور نہ ہی ایسے کسی معاہدہ کا حتمی نتیجہ اور دیر پا اثرات ان کے ذہن میں آتے ہیں، مگر جب وہ معاہدات میں اپنے اصل ایجنڈے اور نتیجے کو ہمارے سامنے لاتے ہیں تو پھر فرار کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی اور ہم جال میں پھنسے پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں۔

    اس لیے اصل ضرورت ان بین الاقوامی معاہدات کا از سر نو جائزہ لینے کی ہے کہ ان میں کون سا معاہدہ اور کس معاہدہ کی کون سی شق ہمارے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کے منافی ہے اور کس معاہدہ کا کون سا حصہ ہمارے دستوری تقاضوں سے متصادم ہے، ایسے امور کی نشاندہی ہونی چاہئے اور ان پر بین الاقوامی اداروں سے با ضابطہ بات ہونی چاہئے اس لیے کہ دینی، قومی، تہذیبی شناخت اور دستور کی پاسداری ہمارا ملی فریضہ ہے اور مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت ہمارا قومی حق بھی ہے۔ جب تک ہم ان مسائل کے پیچھے اصل محرک اور سبب پر بات نہیں کریں گے اور مضبوط موقف اختیار نہیں کریں گے، یہ مسائل اسی طرح کھڑے ہوتے رہیں گے اور ہماری ملی و قومی مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں گے۔

  2. دوسری گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ ہر مسئلہ پر کوئی نہ کوئی حلقہ متوجہ ہے اور کام کر رہا ہے مگر ضرورت اجتماعی اور قومی جدوجہد کی ہے اور میں یہ بات تسلسل سے کر رہا ہوں کہ ہمیں ان مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملی اور دستوری تقاضوں کی پاسداری کے لیے تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہمہ گیر قومی جد و جہد کی ضرورت ہے جو مستقل اور مسلسل جاری ہے، یہ ہماری قومی مسائل ہیں، ملی ضروریات ہیں اور ملی سالمیت و وحدت ان سے وابستہ ہے، اس میں علماء کرام اور دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وکلاء، تاجر برادری اور دیگر طبقات کو بھی شریک کرنے کی ضرورت ہے، مجھے یہ بات ہمیشہ محسوس ہوتی ہے کہ ہم اس قسم کی ہر محنت کو دینی جد و جہد کا عنوان دے کر خود اپنے دائرے میں محدود کر لیتے ہیں، جن سے دیگر طبقات لاتعلق ہو جاتے ہیں، جبکہ یہ مسائل ہماری طرح تاجروں کے بھی ہیں، قانون دانوں کے بھی ہیں، افسران اور ملازمین کے بھی ہیں اور قوم کے ہر طبقہ کے ہیں، اس لیے میری گزارش ہے کہ مشترکہ دینی جد و جہد کو قومی ضرورت اور ملی تقاضہ سمجھتے ہوئے اس میں تمام طبقات کو شریک کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ ہم اپنے فرائض سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہو سکیں۔

اس کے بعد یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مسئلہ ختم نبوت کا ہو یا ناموس رسالت کا، اوقاف کے تحفظ کا ہو یا خاندانی نظام و روایات کا، بات دینی مدارس کی ہو یا سرکاری سکولوں میں دینی تعلیم کی، اس کے لیے جدوجہد کے تین دائرے اور مراحل بہرحال ضروری ہیں۔

  1. سب سے پہلے آگاہی اور بیداری کا مسئلہ ہے کہ عوام کی اکثریت تو رہی ایک طرف، علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بھی بہت کم تعداد بھی ان مسائل کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتی اور ہماری عمومی جدوجہد عام طور پر سنی سنائی باتوں اور سطحی معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس سے نقصان ہوتا ہے، کسی مسئلہ پر محنت کرنے والوں کو اس مسئلہ کی نوعیت و اہمیت اور اس کے تقاضوں سے بہرحال با خبر ہونا چاہئے اور آگاہی و بیداری کا یہ ماحول پیدا کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی قوت قومی وحدت ہے جبکہ دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہمارا باہمی خلفشار ہے، ہم کسی بھی حوالہ سے آپس میں لڑیں اس میں فائدہ صرف دشمن کا ہے، اس سے غرض نہیں کہ ہم نسل پر لڑ رہے ہیں، زبان پر جھگڑ رہے ہیں، مسلک میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں، مسجد اور فرقہ پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں یا کسی قومیتی یا علاقائی جھگڑے پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، اسے صرف ہماری باہمی محاذ آرائی سے غرض ہے، ہم جس حوالہ سے بھی ایک دوسرے سے لڑیں گے وہ اسی کو ہتھیار بنا لے گا، اس لیے میں قومی وحدت کا ماحول قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا ہو گی ورنہ ہم یہ جنگ نہیں لڑ سکیں گے۔
  3. اس سلسلہ میں تیسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار عوامی قوت، رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور ہے، ہمیں دلیل اور علم کی قوت کے ذریعہ رائے عامہ کو منظم کرنا ہو گا، عوامی دباؤ کو بڑھانا ہو گا اور اس کے ذریعہ اپنے مطالبات میں پیشرفت کرنا ہو گی۔ یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ جمہوری ملکوں میں قانون اور نظام عدل سب سے بڑی قوت ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں قانون، انتظام اور نظام عدل جن لوگوں اور طبقات کے ہاتھوں میں یرغمال ہے ان کے فیصلوں اور اقدامات کی بنیاد دستور، ملک کی نظریاتی اساس اور قوم کی تہذیبی شناخت نہیں ہے، وہ عالمی ماحول اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت ہی عام طور پر فیصلے کیا کرتے ہیں، اس لیے ان سے کوئی توقع وابستہ کیے بغیر ہمیں دینی علم و شعور کی قوت اور عوامی دباؤ کو ہی اپنی جد و جہد کی بنیاد بنانا ہو گا۔

ان گزارشات کے ساتھ میں سات ستمبر کو لاہور میں منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے تمام طبقات اور حلقوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اسے شاندار طریقہ سے کامیاب بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ اگست ۲۰۲۱ء)
2016ء سے
Flag Counter