امپورٹڈ قوانین اور سیاسی خلفشار

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۲۲ء

(پاکستان شریعت کونسل کے ایک مشاورتی اجلاس کے بارے میں پیش کی گئی معروضات)

  1. امارت اسلامیہ افغانستان کو باقاعدہ تسلیم کیے بغیر باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر نہیں لایا جا سکتا جو دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے اور علاقائی امن کے فروغ کے لیے لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہم نئی حکومت کو یاددہانی کے طور پر یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ڈکٹیشن پر منظور کیے گئے ایسے امپورٹڈ قوانین پر نظرثانی ناگزیر ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس دستور کے تقاضوں اور شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ یہ ہماری قومی خودمختاری کے لیے سوالیہ نشان ہیں اور ان سے بہرحال گلوخلاصی کرانا ہوگی۔
  2. پاکستان شریعت کونسل کی جدوجہد کا میدان علمی و فکری ہے اس لیے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی کشمکش اور انتخابی سیاست سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، البتہ ہمارا ایجنڈا واضح ہے کہ (۱) ملک کی نظریاتی اساس (۲) دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات (۳)قومی خود مختاری (۴)بیرونی مداخلت کی روک تھام، اور (۵) مسلم تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کے لیے پاکستان شریعت کونسل گزشتہ تین عشروں سے اپنی استطاعت کے دائرے میں مانیٹرنگ اور کوتاہیوں کی نشاندہی کا فریضہ سر انجام دیتی چلی آ رہی ہے، اور ہمارا یہ کردار آئندہ بھی اسی طرح ان شاء اللہ تعالی جاری رہے گا۔
  3. موجودہ سیاسی خلفشار اور اس کے اسباب و نتائج پر ہم پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس قسم کے خلفشار کی فضا کو قائم رکھنا عالمی اور مقامی سیکولر لابیوں کا مستقل ایجنڈا ہے، جس کے لیے مختلف دائروں کے جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ اس فضا میں دو باتیں کسی حد تک ہمارے لیے اطمینان کا باعث ہیں:
    • ایک یہ کہ ساری خرابیوں کے باوجود آئینی طریقہ کار مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس کے لیے عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ دیگر ریاستی ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ ملک کو سیاسی خلفشار سے نجات دلانے کا یہی راستہ صحیح ہے اور تمام اداروں حلقوں اور طبقات کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
    • دوسری بات قابلِ اطمینان یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کا کردار اس میں قائدانہ ہے، جو ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اور دستورِ پاکستان کی تشکیل اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں اس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ ہم اس پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور پاکستان شریعت کونسل کے مقاصد کے دائرے میں انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، بالخصوص بائیس متفقہ دستوری نکات اور دستورِ پاکستان کی تشکیل میں کردار ادا کرنے والے دیگر دینی حلقے اور نظریاتی جماعتیں بھی آگے آئیں اور قومی خود مختاری، نفاذِ شریعت اور مسلم تہذیب کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
  4. پاکستان کو سیاسی فکری معاشی اور تہذیبی خلفشار کی دلدل میں دھکیلنے والے عالمی اور مقامی سیکولر حلقوں کی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ان خواہشات میں ہمیشہ کی طرح ان شاء اللہ تعالی اب بھی ناکام ہوں گے اس لیے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلامی نظام مسلم تہذیب اور قومی خودمختاری کے ساتھ شعوری وابستگی رکھتی ہے اور اس کے لیے پہلے کی طرح ملک کے عوام اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
  5. کشمیر اور فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اور مسلم حکومتیں دنیا بھر میں اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے قابض قوتوں اور ظلم ڈھانے والوں کو خاموش حمایت فراہم کر رہی ہیں، جو قابل مذمت ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کم از کم یہ کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہئے کہ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مذمت میں آواز بلند کرتے رہیں اور یہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند حلقوں کی ذمہ داری ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter