سلامتی کونسل اور امارتِ اسلامی افغانستان

   
تاریخ : 
۲۸ مئی ۲۰۲۲ء

ایک قومی اخبار نے ۲۶ مئی ۲۰۲۲ء کو یہ خبر شائع کی ہے:

’’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں طالبان حکومت سے کہا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادی کو سلب نہ کرے۔ سلامتی کونسل نے افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم، ملازمت، شخصی آزادی اور معاشرے میں انہیں مساوی حقوق کی عدم فراہمی عالمی برادری کی توقعات پر پورا نہیں اترتیں۔ خواتین ٹی وی میزبانوں کو چہرے کا پردہ کرنے اور انہیں گھر سے بوقت ضرورت ہی باہر نکلنے جیسی پابندیاں باعث تشویش ہیں۔ لہٰذا طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے ایسے تمام قوانین کو ختم کرے۔‘‘

اس سے قبل امریکی حکومت کی طرف سے بھی اس قسم کی تنبیہ سامنے آ چکی ہے اور اب اسی کو سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ توجہ طلب ہے۔

بنیادی حقوق اور مرد و عورت کی مکمل معاشرتی مساوات کے حوالے سے ہم ان کالموں میں بیسیوں مرتبہ اظہارِ خیال کر چکے ہیں اور ہمارا یہ واضح نقطہ نظر ہے کہ بنیادی حقوق اور مرد و عورت کی مساوات کے حوالے سے موجودہ عالمی فلسفہ و نظام کے بارے میں مسلم دنیا کے تحفظات ہیں جن کا تعلق دین و مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت سے بھی ہے اور انہیں نظر انداز کرنا قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحفظات و شکایات کا اظہار دنیا کے کسی ایک خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے ان کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ بہت سے مسلم حکمران بالخصوص او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے سابق سربراہ مہاتیر محمد بھی عالمی رائے عامہ کو اس طرف بارہا توجہ دلا چکے ہیں اور ان پر نظرثانی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

ہمارا موقف مختصرًا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی منشور اور بہت سے بین الاقوامی معاہدات میں دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مجموعی عقائد اور تہذیبی روایات کو نظرانداز کر کے اس فلسفہ و نظام کی بنیاد صرف یورپ اور امریکہ کے معاشرتی پس منظر اور تجربات پر رکھی گئی ہے، جبکہ مشرقی دنیا بالخصوص مسلم معاشروں کا پس منظر اور تجربات اس سے قطعی مختلف ہیں۔ اور اس طرح مغرب یعنی امریکہ اور یورپ اپنی تہذیب و ثقافت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی معاہدات کے عنوان سے باقی تمام دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہیں جو کسی طرح بھی قرینِ قیاس اور قابلِ قبول نہیں ہیں اور ان پر متعلقہ تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے جس کے لیے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم دونوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

مغرب اس معروضی حقیقت کا ادراک کرنے میں بلاوجہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے کہ مسلم اُمہ دنیا کے کسی خطہ میں اپنے عقیدہ و ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ مسلم عوام قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو اپنے معاشرتی ماحول میں نافذ و جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کا یہ مغالطہ ابھی تک دور نہیں ہو رہا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ اگر مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے مغرب کے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ کم از کم مسلم دنیا کی حد تک ’’مرغ کی ایک ٹانگ‘‘ کی ضد ترک کر کے مسلمانوں کی قیادتوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے اور پوری دنیا پر اپنا تسلط ہر قیمت پر قائم کرنے کی ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلم عقیدہ و ثقافت کا معاشرتی وجود و کردار تسلیم کرتے ہوئے عالمِ اسلام پر اپنا فکر و فلسفہ مسلط کرنے کے طرزعمل پر نظرثانی کرے۔

ہمارے نزدیک امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم نہ کرنے اور انہیں سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اپنی شرائط ہر صورت میں منوا لینے کے موجودہ عالمی رویہ کے پیچھے بھی مغرب کی یہی ضد اور ہٹ دھرمی کارفرما ہے۔ جبکہ اس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بیشتر حکمران اپنے دین و ایمان کے تقاضوں اور اپنے ملکوں کے عوام کے جذبات و احساسات کی پاسداری کرنے کی بجائے عالمی ایجنڈے کے عنوان سے مغربی فکر و فلسفہ کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے گزارش کریں گے کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک کریں اور مسلم عقیدہ و ثقافت کو ایک زندہ معاشرتی حقیقت تسلیم کر کے اس کے ساتھ مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ جبکہ مسلم حکمرانوں سے ہماری استدعا ہے کہ وہ بھی آنکھیں کھول کر اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ مسلم امہ کو دنیا میں کہیں بھی اپنے عقیدہ و ثقافت اور اسلام کے معاشرتی کردار سے دستبردار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور اس کے لیے عالمی فورم پر مسلم حکمران اپنے دین و عقیدہ اور مسلم امہ کی غالب اکثریت کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ذمہ داری ادا کریں کہ مسلم ممالک کے حکمران ہونے کی وجہ سے ان کا فریضہ یہی بنتا ہے۔

دوسری طرف امارتِ اسلامی افغانستان سے بھی ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ تہذیبی ارتقا اور بین الاقوامی معاہدات و مسلّمات کو یکسر نظرانداز کرنا بھی قرینِ قیاس نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب جاہلیت کی تمام روایات و اقدار کو یکسر مسترد کر دینے کی بجائے ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کے اصول پر جو باتیں قابل قبول تھیں انہیں برقرار رکھا تھا، اور جو باتیں عقیدہ اور اصول کے منافی تھیں انہیں مسترد کر دیا تھا۔ آج بھی یہی اصول اختیار کرنا ہو گا کہ جو امور شرعی اجتہاد کے دائرہ میں قبول کیے جا سکتے ہیں ان کے بارے میں رویہ میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ ہم امارتِ اسلامی افغانستان کے علماء کرام کو یاد دلانا چاہیں گے کہ عرف و تعامل کا تغیر مسائل و احکام کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ حتٰی کہ ’’عموم بلوٰی‘‘ بھی ان معاملات میں اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً عورت کے چہرہ کے پردہ کے بارے میں ہی غور کر لیا جائے کہ احناف متقدمین کے ہاں چہرہ اور ہاتھ پردہ میں شامل نہیں ہیں، جبکہ متاخرین نے بھی معاشرتی تغیرات کے باعث انہیں پردہ میں شامل کیا ہے۔ یہ بات ہم نے مسئلہ اور فتوٰی کے طور پر نہیں بلکہ مثال کے طور پر ذکر کی ہے اور ہماری گزارش ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان کو

  • مذہب اور ثقافت کے معاملات کو باہم گڈمڈ کرنے کی بجائے ہر ایک کو اسی کے دائرے میں ڈیل کرنا چاہیے۔
  • اجتہاد کی شرعی حدود میں جن امور کی گنجائش بنتی ہے انہیں یکسر مسترد نہیں کرنا چاہیے، اور
  • ایسے معاملات کو روایتی طرز عمل کی بجائے افغانستان اور عالمِ اسلام کی سرکردہ علمی شخصیات کی مشاورت سے طے کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ مسلم حکومتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے مغرب نوازی کے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بھرپور سیاسی، اخلاقی اور معاشی امداد کا اہتمام کریں، جبکہ اس نازک مرحلہ میں امت مسلمہ کے سرکردہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی و فکری حوالے سے افغان قوم و قیادت کی معاونت اور راہنمائی کا کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter