برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی تسلط کی ایک جھلک

   
تاریخ : 
۲۴ جون ۲۰۲۲ء

جنوبی ایشیا میں ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ نے اپنے تسلط کا بنیادی ذریعہ معیشت میں دخل اندازی کو بنایا تھا جو دھیرے دھیرے کنٹرول کی صورت اختیار کر گئی اور پھر پورا برصغیر بتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی میں چلا گیا۔ اس کی ایک جھلک پنجاب یونیورسٹی کے ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی مرحوم کے تذکرہ میں اس طرح پیش کی ہے:

’’اودھ کے نواب وزیر شجاع الدولہ کے ساتھ مل کر شاہ عالم نے بنگال کے نواب ناظم میر قاسم کی بددلی کے ساتھ مدد کی۔ میر قاسم نے ۱۷۶۴ء میں بکسر کی لڑائی میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھائی، اور لڑائی کے بعد شاہ عالم نے انگریزوں کی اطاعت قبول کر لی اور ایک معاہدے پر دستخط کر دیے جس کی رو سے نواب وزیر تو انگریزوں کا باجگزار بن گیا اور وہ خود (شاہ عالم بادشاہ) فاتحین کا وظیفہ خوار ہو گیا۔ ۱۷۶۵ء میں اس نے انگریزوں سے ایک معاہدہ طے کیا جس کی رو سے اس نے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے دیوانی کے اختیارات (یعنی محاصل کا انتظام) ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں دے دیے۔ لیکن کمپنی نے اس تقرر کے فرائض اور ذمے داریوں کو کہیں سات سال بعد جا کر قبول کیا۔ اس کے بعد شاہ عالم نے اپنے دہلی واپس جانے میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے خود کو مرہٹوں کی پناہ میں دے دیا، اور الٰہ آباد اور کڑہ کے اضلاع، جو اسے ذاتی اخراجات وغیرہ کے لیے دیے گئے تھے، مرہٹوں کی طرف منتقل کر دیے۔ مرہٹوں سے اتحاد کرنے کے باعث وہ کمپنی کی دوستی، نیز ۳۶ لاکھ روپے کے خراج یا وظیفے سے، جو اس کے لیے مقرر ہو چکا تھا، محروم کر دیا گیا۔‘‘

جبکہ پاکستان کے سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم اپنی کتاب ’’شاہراہِ انقلاب‘‘ میں اس کی کچھ تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں کہ

’’۱۷۷۰ء میں مرشد آباد کا انگریز ریزیڈنٹ بیچر لکھتا ہے کہ’’ جب سے کمپنی کے پاس دیوانی آئی ہے عوام کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے، یہ ملک انتہائی جابر سلطانوں کے زمانے میں بھی خوشحال تھا لیکن اب جب سے اس کے نظم و نسق کی ذمہ داری انگریزوں پر عائد ہوئی ہے یہ مکمل تباہی و بربادی کی طرف جا رہا ہے۔‘‘

ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں جو لوٹ مچائی اس میں لندن کی حکومت حصہ دار تھی۔ ۱۷۶۷ء کے بعد کمپنی لندن میں اپنی حکومت کو سالانہ چار لاکھ پونڈ ادا کرنے کی ذمہ دار تھی۔ یہ ادائیگی حکومت کی امداد سے بنگال و بہار پر قبضہ کرنے کے عوض میں ہوتی تھی۔ ذمہ دار انگریز لکھتے ہیں کہ اس طریقے سے انگلستان کی حکومت ہندوستان کی لوٹ مار میں حصہ دار بنی اور اس نے وہاں اپنے ریاستی حقوق منوائے۔

جن علاقوں سے انگریزوں کو بنگال کی طرح کا تجارتی فائدہ نہیں ہوتا تھا وہاں ان کی آمدنی کا ایک ذریعہ سود بھی ہوتا تھا ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کرناٹک میں انگریزوں نے بظاہر کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے مقامی نواب کے لیے فرانسیسیوں سے لڑائی لڑی، نواب کے پاس اس لڑائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے، اس کے لیے پیسے انگریزی کمپنی کے ’’ملازمین‘‘ نے دیے۔ جب لڑائی ختم ہوئی تو نواب پر بائیس لاکھ روپے کا قرضہ تھا۔ سود پہلے تو تیس سے چھتیس فیصد سالانہ تھا لیکن بعد میں بچیس فیصد کر دیا گیا اور پھر پانچ سال بعد مزید کم کر کے دس فیصد کر دیا گیا۔

۱۷۸۳ء میں ایڈمنڈبرک نے، جو انگلستان کی پارلیمنٹ کا ایک بہت بڑا مقرر تھا اور عام طور پر صلح صفائی کی تلقین کرتا رہتا تھا، ایک تقریر کی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس تقریر میں اس نے کہا: ’’تاریخِ عالم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے زیادہ رشوت خور اور تباہی خیز آمریت کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی بادشاہ، نواب، یا نواب زادہ بڑا یا چھوٹا ایسا نہیں ہے جو ہم سے ہندوستان میں ملا ہو اور ہم نے اسے بیچ نہ دیا ہو۔ ہم نے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جو توڑا نہ ہو اور کوئی نوابی یا ریاست ایسی نہیں ہے کہ جس نے ہم پر اعتبار کیا ہو اور ہم نے اسے برباد نہ کیا ہو۔‘‘

کمپنی کے ملازمین کے متعلق برک نے کہا: ’’طمع اور لالچ سے بھرپور، جوانی کے نشے میں ان کا ایسا تانتا بندھا ہوا ہے جیسے ایک کے پیچھے دوسری لہر آتی ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ لٹیروں کا لامتناہی سلسلہ چیلوں اور گدھوں کے غولوں کی طرح ہے جو ایسے مردہ شکار کے لیے آ رہے ہیں جس کا گوشت پوست ختم ہوتا جا رہا ہے، ان کا شکار انگلستان آ جاتا ہے ۔اور ہندوستانیوں کی آہ و بکا اور نالہ و فریاد اس برساتی نالے کی طرح ہے جو سمندر میں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ کیا تم یقین کرو گے کہ ہمارے ان جوان سال ملازمین کا رویہ بادشاہوں کی طرح ہے؟ اگرچہ ان کے عہدوں کے نام سپروائزر، کلکٹر اور جج وغیرہ ہیں، لیکن عملاً یہ جابر بادشاہ ہیں۔‘‘

انگریز لٹیرے تجارت اور قزاقی کے لیے آئے تھے۔ یہ سمندروں کے مالک تھے۔ سمندر میں ان کے راستے میں کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ انہیں جب دوسری قوموں کے بحری جہاز ملتے تھے تو وہ فوراً لوٹ لیتے تھے۔ انہوں نے خشکی پر شروع میں ’’مراعات‘‘ حاصل کیں۔ جب تک مقامی حکمرانوں کے لیے بیرونی تجارت کی ضرورت نے معاشی دباؤ کی صورت اختیار نہیں کی تھی اس وقت تک ’’مراعات‘‘ ان کے رحم و کرم پر تھیں۔ رفتہ رفتہ بیرونی تجارت کی ضرورت نے معاشی دباؤ کی صورت اختیار کر لی تو مقامی سیاسی حکمران بیرونی خریداروں کے رحم و کرم کے متمنی ہو گئے۔ بادشاہوں اور نوابوں کے روبرو کورنش بجا لا کر تحفے پیش کرنے والے دیکھتے ہی دیکھتے نوابوں کے سرپرست اور بادشاہ کے محافظ بن گئے۔ سراج الدولہ کی شکست کے بعد جب میر جعفر کو ’’نواب‘‘ بنایا گیا تو اس نے کمپنی کو پندرہ لاکھ پونڈ دیے، اس رقم میں کلائیو کا ذاتی حصہ بھی تھا۔

ایک اندازے کے مطابق کمپنی اور اس کے ملازمین نے ۱۷۵۷ء سے ۱۷۸۰ء تک بنگال سے تقریباً چالیس لاکھ پونڈ سٹرلنگ انگلستان بھیجے تھے۔ اس رقم میں میرجعفر اور میر قاسم کو بنگال کے تخت پر بٹھانے کی تقریباً پچاس لاکھ روپیہ فیس بھی شامل تھی۔ ۱۷۶۵ء میں جب کمپنی نے بنگال و بہار کی دیوانی حاصل کر لی تو اس نے مالیہ کی ساری رقم سونے یا تجارتی مال کی صورت میں انگلستان بھیجنی شروع کر دی۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter