اسلام آباد کے علماء کرام کی دوہری ذمہ داری

   
تاریخ: 
۲۶ دسمبر ۲۰۲۲ء

بعد الحمد و الصلوٰۃ! آج اسلام آباد حاضری اس سلسلہ میں ہوئی ہے کہ سود کے نظام کے خلاف جو جدوجہد چل رہی ہے اور پچھتر سال سے اس نے مختلف اتار چڑھاؤ آئے ہیں، وہ کس پوزیشن میں ہے اور اس وقت کیا تقاضے ہیں؟ اس حوالے سے جماعتِ اسلامی کے زیر اہتمام مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں ایک مشترکہ اجتماع تھا، جس میں حاضر ہو کر میں نے وہاں علماء اور رہنماؤں کی باتیں سنیں اور کچھ گزارشات پیش کیں۔ اس موقع پر میں نے مناسب سمجھا اور مولانا ظہور احمد علوی سے بات کی کہ اگر ایک نشست اسلام آباد کے علماء کے ساتھ ہو جائے تو میں کچھ باتیں کرنا چاہوں گا۔ اسی تناظر میں آپ کے ساتھ یہ ملاقات ہے، لیکن اس مسئلہ کی موجودہ صورتحال پر کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا مقام کیا ہے اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور پھر سودی نظام کے حوالے سے موجودہ صورتحال سے آگاہ کروں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ ہم جیسے کیسے بھی ہیں لیکن علماء کرام کہلاتے ہیں۔ ہم اندر کی حالت خود جانتے ہیں لیکن دنیا ہمیں علماء کے نام سے یاد کرتی ہے، ۔ یہ کوئی چھوٹا نہیں بہت بڑا ٹائٹل ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاءؑ کا وارث کہا ہے ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ اور ساتھ وضاحت بھی فرما دی کہ یہ وراثت مال و دولت، درہم و دینار کی نہیں، بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کی جو وراثت علماء کرام کے پاس ہے وہ علم کی وراثت ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے ہمارا یہ مقام بیان فرمایا ہے کہ یہ میرے نمائندے ہیں، علم، دین اور دعوت میں میری نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی اس حیثیت کو پہچاننا اور اس کا احساس کرنا چاہیے۔ آدمی کو اپنی حیثیت کا احساس نہ ہو تو وہ الٹی سیدھی باتیں کرتا رہتا ہے، اور اگر اپنا مقام پہچان لے تو پھر اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

تابعین میں ایک بڑے بزرگ امام ربیعۃ الرائےؒ گزرے ہیں، ان کی عظمت کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ آپؒ امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ دونوں کے استاد ہیں۔ امام ربیعۃ الرائے کا ایک قول ذکر کرنا چاہتا ہوں جو امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے اور ہمارے بارے میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’لا ینبغی لاحد عندہ شیء من العلم ان یضیع نفسہ‘‘ کہ جس آدمی کے پاس کچھ تھوڑا بہت بھی علم ہے اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کرے۔ اس جملے کے اندر معانی کا ایک سمندر ہے آپ علماء کرام کے لیے اشارہ ہی کافی ہے کہ عالم اپنے آپ کو ضائع نہ کرے اور جو تھوڑا بہت علم اللہ نے اسے دیا ہے اس کی لاج رکھے۔ اس لیے میں نے علماء کرام کے سامنے یہ قول نقل کیا ہے کہ اپنے آپ کو پہچانیں، آپ کا ایک مقام اور ذمہ داری ہے، اپنے وقار اور سنجیدگی کو قائم رکھیں۔

اسی طرح امام غزالیؒ نے علمی اعتبار سے چار طبقے ذکر کیے ہیں، وہ بھی ہمیں ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:

’’رجل یدری ویدری انہ یدری فھو عالم فاتبعوہ ورجل یدری ولا یدری انہ یدری فھو نائم فایقظوہ ورجل لایدری و یدری انہ لا یدری فھو مسترشد فعلموہ ورجل لایدری ولا یدری انہ لا یدری فھو جاھل فاحذروہ‘‘۔

بڑے خوبصورت پیرائے میں بات کی ہے کہ ایک آدمی علم رکھتا ہے اور اس کو اس بات کا احساس ہے کہ میں علم رکھتا ہوں، وہی ’’لا یضیع نفسہ‘‘ والی بات کہ ایک آدمی کے پاس تھوڑا بہت علم ہے اور اسے احساس ہے کہ میرے پاس علم ہے تو ایسا آدمی عالم ہے، اس کی پیروی کرو۔ دوسرا آدمی جس کے پاس علم تو ہے لیکن اسے اپنے آپ کے عالم ہونے کا احساس نہیں ہے، وہ سویا ہوا ہے اس کو جگاؤ۔ یہ دوسرا دائرہ ہے اور ہمارا اکثر کا تعلق اسی دائرے سے ہے۔ تیسرا وہ آدمی جو علم نہیں رکھتا اور اسے احساس ہے کہ میرے پاس علم نہیں ہے، وہ طالب علم ہے اس کو پڑھاؤ۔ اور چوتھا وہ آدمی کہ جو کچھ بھی نہیں جانتا اور اس کو اس کا اندازہ نہیں ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، تو ایسا آدمی جاہل ہے اس سے بچو۔

امام غزالیؒ نے یہ چار دائرے ذکر کیے ہیں، میں اپنے آپ کو بھی دوسرے دائرے میں شمار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی ہے تو ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ ہم اس دائرے میں ہیں، اس لیے ایک دوسرے کو جگاتے رہنا اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہنا ضروری ہے، اور یہ آج کا سب سے اہم کام ہے جو ہم سب کو سر انجام دینا چاہیے۔

اس کے بعد عرض کرنا چاہوں گا کہ سود کے خلاف تحریک تو لمبی ہے۔ ابھی مولانا تنویر علوی بتا رہے تھے کہ سب سے پہلے قائد اعظمؒ نے یہ بات کہی تھی کہ پاکستان میں معیشت کی بنیاد مغربی اصولوں پر نہیں ہوگی بلکہ اسلامی اصولوں پر ہوگی۔ یہ بات قائد اعظم ؒنے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے واضح تقریر میں فرمائی تھی کہ

’’میں ذاتی لگن اور پوری توجہ سے اسٹیٹ بینک کے تحقیقی شعبے کی کارکردگی کی نگرانی کروں گا کہ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی اصولوں کے مطابق بینکاری نظام کو مرتب کرے۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے ناقابلِ اصلاح مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کوئی معجزہ ہی ہے جو مغرب کے اس المیے سے دنیا کو بچا سکے جو اس کے معاشی نظام نے پیدا کیا ہے۔‘‘

یعنی قائد اعظمؒ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں پاکستان میں معیشت کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں، اور انہوں نے صرف رسمی بات نہیں کی تھی بلکہ دلیل دی تھی کہ مغرب کے معاشی اصولوں نے دنیا کو جھگڑوں اور لڑائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یعنی قائد اعظمؒ کو احساس تھا کہ اس کے پیچھے کیا ہے؟ اور انہوں نے فرمایا کہ اس لیے میں اپنے ماہرین معیشت سے کہوں گا کہ وہ اپنی معیشت کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کریں، اور میں انتظار کروں گا کہ کب تک آپ یہ کام مکمل کر لیتے ہیں۔ لیکن انہیں انتظار کا وقت نہیں ملا، اس تقریر کے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہوگئے اور ہم ابھی تک انتظار میں ہیں کہ کب کچھ ہوگا لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہو رہا۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی یہ تقریر اب بھی اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس تقریر میں بانی پاکستان نے مغرب کے سرمایہ دارانہ سودی معاشی نظام کا بھرپور رد کیا ہے اور اسلامی مالیاتی اصولوں کی روشنی میں مالیاتی و بینکاری نظام تیار کر کے ملک میں نافذ کرنے کا عزم مصمم کیا ہے۔

درمیان کی ساری تفصیلات چھوڑتے ہوئے کہ وہ لمبی کہانی ہے مگر کم از کم تیس سال مجھے بھی اس جدوجہد میں ہو گئے ہیں، کسی نہ کسی بہانے شریک رہتا ہوں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے بتیس سال کی عدالتی جنگ کے بعد فیصلہ دیا۔ ۱۹۹۰ء میں یہ معرکہ شروع ہوا تھا۔ ان بتیس سالوں میں ایک دفعہ فیصلہ ہوا، وہ اپیل ہوگیا۔ پھر فیصلہ ہوا، وہ بھی اپیل ہوگیا۔ پھر فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کی طرف واپس ہو گیا، پھر اپیل ہو گئی۔ ان اپیلوں کے چکروں میں بتیس سال گزرے ہیں۔ گزشتہ رمضان میں وفاقی شرعی عدالت نے بہت واضح، دو ٹوک اور جامع فیصلہ دیا کہ ملک سے سودی قوانین کو ختم کیا جائے، اور صرف ختم کرنے کا کہا نہیں بلکہ سارے سسٹم کا متبادل پیش کیا ہے اور حکومت کو پانچ سال کا وقت دیا ہے کہ اس کے اندر اندر ملک کے تمام شعبوں سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔

اس میں ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ پہلے فیصلے سودی بینکاری کے حوالے سے تھے، جبکہ یہ فیصلہ پورے ملک کے نظام معیشت کے حوالے سے ہے کہ پورے نظامِ معیشت اور قومی زندگی کے تمام شعبوں کو پانچ سال کے اندر اسلامی تعلیمات کے مطابق کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ آپ کام شروع کریں، جہاں کہیں الجھن پیش آئے گی ہم دور کرنے کے لیے موجود ہیں۔

ہم نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ مکمل اور دو ٹوک فیصلہ آیا ہے۔ مختلف جماعتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اس سے پہلے یہی فیصلہ تین اپیلوں سے گزر چکا ہے۔ ۱۹۹۰ء کا فیصلہ سپریم کورٹ میں اپیل ہوا تھا، سپریم کورٹ نے واپس بھیج دیا۔ پھر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہوا۔ یہ فیصلہ تین چار اپیلوں کے مراحل سے گزر چکا تھا۔ ان مراحل میں عدالت میں کیس دو پارٹیوں نے لڑا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں بہت سے گروپ تھے لیکن سپریم کورٹ میں مسلسل کیس لڑنا آسان کام نہیں ہے، اس لیے دوسرے لوگ چھٹتے رہے اور دو پارٹیاں تب سے اب تک کورٹ میں کھڑی ہیں۔ ایک جماعتِ اسلامی اور دوسری تنظیمِ اسلامی۔ بتیس سال عدالت میں یہ دو پارٹیاں کھڑی رہیں اور اب بھی کھڑی ہیں، ہم ان کی ہلکی پھلکی سپورٹ کرتے چلے آ رہے ہیں۔

آٹھ سال پہلے ۲۰۱۴ء میں دوستوں نے کہا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے تو ہم نے تمام مکاتبِ فکر کا مشترکہ فورم ’’تحریک انسدادِ سود پاکستان‘‘ کے نام سے بنایا، جس میں تمام مکاتبِ فکر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ کے اکابر علماء کرام شریک ہیں۔ میں ابھی تک اس کا کنوینر چلا رہا ہوں ، الحمد للہ جب بھی بلاتا ہوں علماء کرام آتے ہیں اور بات ہوتی ہے۔ ہم نے مختلف اجتماعات کیے اور ایک موقف اختیار کیا اور جب یہ فیصلہ ہوگیا جو کہ تیسرا فیصلہ ہے۔ تین دفعہ نظر ثانی ہو چکی ہے۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آپ اسے قبول کرنے کا اعلان کریں۔ پانچ سال بہت عرصہ ہے۔ ویسے تو یہ عرصہ زیادہ ہے لیکن ہم نے سوچا کہ جہاں بتیس سال گزرے ہیں وہاں پانچ سال اور سہی۔ حکومت سے کام شروع کرنے کا کہا اور دوسری طرف مالیاتی اداروں سے کہا کہ خدا کے لیے پہلے کی طرح اپیلوں میں نہ جائیں۔ لیکن ہماری گزارش قبول نہیں کی گئی اور سرکاری بینک بھی اپیلوں میں چلے گئے اور غیر سرکاری بینک بھی اپیلوں میں چلے گئے ۔

شرعی عدالت کے فیصلوں کا اصول یہ ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی ایک اپیل بھی دائر ہو جائے تو حکمِ امتناعی خودبخود جاری ہو جاتا ہے۔ اور کسی کیس کے فیصلے میں یہ کچھ ہو جائے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ فرق آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے کہ باقی تمام مقدمات میں اپیل کر کے سٹے کی درخواست دینی پڑتی ہے، مستقل کیس لڑنا پڑتا ہے کہ ہماری نظرثانی کی اپیل قبول کی جائے، لیکن یہاں یہ بات نہیں ہے، بلکہ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک عام آدمی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دے تو اس کے ساتھ ہی سٹے ہو جاتا ہے۔ باقی جگہوں پر تو سٹے کی درخواست دی جاتی ہے، نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف بڑی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے تو سٹے آرڈر کی درخواست کی جاتی ہے۔ جبکہ یہاں درخواست ضروری نہیں ہے صرف اپیل کی درخواست ہی سٹے کے لیے کافی ہے۔ تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ستائیس اپیلیں چلی گئیں۔ ہم نے کچھ دباؤ ڈالا اور آواز اٹھائی کہ یہ کیا کر رہے ہو، تین دفعہ تو نظرثانی ہو چکی ہے۔ عوامی سطح پر جماعتِ اسلامی، تنظیمِ اسلامی، متحدہ علماء کونسل، تحریک انسداد سود پاکستان اور پاکستان شریعت کونسل نے مختلف مقامات پر اجتماعات کیے، جبکہ سرکاری سطح پر مولانا فضل الرحمٰن اور پروفیسر ساجد میر نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور حکومت سے کہا کہ ضد چھوڑ دو۔ دونوں طرف کے دباؤ پر حکومت کی طرف سے اعلان ہوا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے اعلان کیا کہ سرکاری بینک اپیلیں واپس لے رہے ہیں، ہم اس فیصلے پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہیں اور اقدامات کریں گے۔ ہم اس پر بہت خوش ہوئے کہ سرکاری اپیلیں واپس ہوگئیں، ستائیس میں سے سرکاری بینکوں کی تیرہ اپیلیں واپس ہو گئیں لیکن غیر سرکاری بینکوں کی چودہ اپیلیں باقی ہیں۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ اگر ایک اپیل بھی سپریم کورٹ کے ڈیسک پر پڑی ہوئی ہو تو سٹے آرڈر قائم رہے گا۔ نہ وزارت خزانہ کچھ کر سکتی ہے اور نہ کوئی اور کچھ کر سکتا ہے۔ عدالت میں کسی فیصلے پر حکمِ امتناعی ہو جائے تو جو ہوتا ہے، اس وقت یہ پوزیشن ہے۔

ملک سے سودی نظام کے خاتمے کا اعلان اس سے پہلے بھی ہوا تھا۔ ۱۹۸۴ء میں غلام اسحاق خان مرحوم ملک کے وزیر خزانہ تھے جو بعد میں صدر بھی بنے۔ ۱۹۸۴ء کی بجٹ تقریر میں انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے سودی نظام ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ہم نے سودی نظام کے متبادل پورا سسٹم تیار کر لیا ہے، سارے اشکالات دور کر دیے ہیں، انہوں نے اعلان کیا کہ میں قوم کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہوگا۔ ہم اس اعلان پر بہت خوش ہوئے جیسے اب ہو رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ اگلا سال ابھی تک نہیں آیا۔ اب اسحاق ڈار صاحب نے اعلان کیا تو میں نے ایک کالم میں لکھا کہ پہلے بھی اسحاق صاحب نے یہ اعلان کیا تھا اور اب بھی اسحاق صاحب یہ اعلان فرما رہے ہیں۔ اُنہوں نے ایک سال کا کہا تھا اور اِنہوں نے پانچ سال کا کہا ہے۔ ہمیں یہ بھی منظور ہے، لیکن اللہ کرے کہ ان اسحاق صاحب کا اعلان پہلے اسحاق صاحب کے اعلان سے مختلف ہو۔

بہرحال اس صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی سے مشاورت ہوئی کہ کیا کرنا چاہیے۔ اپیل تو ایک بھی باقی ہوگی تو کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ اس پر اکابر نے کراچی میں ۳۰ نومبر کو ’’قومی حرمتِ سود سیمینار‘‘ منعقد کیا۔ اس کے پیچھے بہت محنت اور بڑا ورک ہے، میں بھی اس میں شریک ہوا ہوں۔ اس سیمینار میں وزیر خزانہ صاحب تشریف لائے اور تمام پارٹیوں کے رہنما اور تمام مکاتبِ فکر کی اعلیٰ قیادت موجود تھی، یہ بڑی بات ہے۔ دوسری بات کہ وہاں صرف علماء نہیں تھے بلکہ تاجر برادری کی قیادت بھی موجود تھی، بلکہ اس کانفرنس کی منتظم ہی تاجر برادری تھی۔ ’’وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان‘‘ کے مرکزی چیمبر نے اپنے ہیڈ آفس میں یہ پروگرام منعقد کیا جس کے صدر جناب سلیمان چاولہ صاحب بھی شریک ہوئے اور انہوں نے تقریر فرمائی۔ یہ بڑی بات تھی کہ تاجر برادری نے اسے اپنی مہم قرار دیا۔ میرے لیے یہ نئی بات تھی کہ چاولہ صاحب نے کہا کہ کام ہم کریں گے آپ علماء ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ میں اس پر ان کا بہت شکر گزار ہوا کہ ہمیں کسی نے تعاون کے لیے کہا ہے، ورنہ پہلے تو ہم لوگوں کو تعاون کے لیے کہتے تھے۔سیمینار میں تیسری بات یہ ہوئی کہ وزارت خزانہ نے دوٹوک اعلان کیا۔ آگے کیا ہوتا ہے اللہ جانے، لیکن اسحاق ڈار صاحب نے دو ٹوک بات کی کہ ہم اس حوالے سے یہ کچھ کر رہے ہیں اور یہ بھی کریں گے، وہ بھی کریں گے۔ کراچی کا جو قومی حرمت سود سمینار ہوا، میں اسے ایک جملے میں یوں تعبیر کرتا ہوں کہ سودی نظام سے نجات پر قومی اتفاق رائے کا اظہار ہوا ہے۔

مگر اگلا مرحلہ باقی ہے۔ میں نے وہیں سیمینار کے بعد شجاع الدین شیخ صاحب جو ہمارے دوست اور تنظیمِ اسلامی پاکستان کے امیر ہیں، ان سے کہا کہ تبلیغی جماعت کا اصول ہے کہ وعدے اجتماع میں لیے جاتے ہیں لیکن بعد میں وصولیاں بھی کی جاتی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہاں وعدے تو ہوگئے ہیں لیکن وصولیاں کس نے کرنی ہیں؟ وصولیاں یہ بڑے نہیں کریں گے، ہمیں کرنی پڑیں گی۔ وعدے لینے والے اور ہوتے ہیں اور وصولیاں کرنے والے اور ہوتے ہیں۔ اسے سیاسی زبان میں یوں کہیں گے ہم نے اتنا بڑا کنونشن کیا ہے تو اب اس کو کیش کس نے کروانا ہے؟ اتنا بڑا کام پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کی اعلیٰ قیادت اور تاجر برادری کی اعلیٰ قیادت کا چیمبر آف کامرس کے ہیڈ آفس میں اس سطح کا اجتماع ہوا ہے۔

اس پر ضرورت پڑی کہ ہم پھر اکٹھے ہوں۔ ہم نے لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں اس غرض سے اجتماعات کیے کہ وصولیاں کرنی ہیں، اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے، کیونکہ اگر پبلک دباؤ قائم رکھیں گے تو کام ہو گا ورنہ نہیں ہوگا۔ میں دو ٹوک بات کر رہا ہوں کہ جتنا کام آپ لے لیں گے وہ ہوگا، جو آپ کام نہیں لیں گے وہ نہیں ہوگا۔ اگر اس فیصلے پر ہم خوش ہیں تو فیصلے پر عملدرآمد انہوں نے نہیں کرنا ہم نے کروانا ہے۔

اس لیے اب کرنے کے دو کام ہیں۔ ایک تو جنہوں نے اعلانات کیے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ آپ کام کریں، ہم آپ کے ساتھ شریک ہیں۔ لیکن اس سے بڑا محاذ یہ ہے کہ ستائیس اپیلوں میں سے جو پرائیویٹ بینکوں کی چودہ اپیلیں سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہیں، وہ کیسے واپس ہوں گی۔ جب تک وہ واپس نہیں ہوں گی اور ایک اپیل بھی باقی ہو گی تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا، اعلانات کرنے والے بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اس وقت ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں اور اس مخمصے میں ہیں کہ اپیلیں واپس کیسے کروانی ہیں؟ اپیلیں واپس کروانے کے لیے ہمیں دو محاذ درپیش ہیں۔ ایک پبلک پریشر کا محاذ کہ جن بینکوں کی اپیلیں پڑی ہوئی ہیں ان کو مجبور کیا جائے کہ اپنی اپیلیں واپس لو۔ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک نے اپیلیں واپس لے لی ہیں تو آپ لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں یہ فضا پیدا کرنا ہوگی۔

اور دوسری بات کہ سودی نظام کے حوالے سے جو شکوک و شبہات اور اشتباہات بتیس سال پہلے کھڑے کیے گئے تھے، جن کے بارے میں تین دفعہ اعلیٰ عدالتیں تفصیلی فیصلہ دے چکی ہیں، وہ اشکالات دوبارہ کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ جن مسائل پر دو دفعہ وفاقی شرعی عدالت فیصلہ دے چکی، ایک دفعہ سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بینچ دو ٹوک فیصلہ دے چکا ہے، وہ اشکالات دوبارہ کھڑے کیے جا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ان لوگوں کا مزاج بھی عرض کرتا ہوں۔ جب ۲۰۰۲ء میں دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں گئے تو کیس شروع کرنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔ اعلیٰ عدالتوں کے فریزر میں کوئی چیز چلی جائے تو اسے کون نکال سکتا ہے؟ سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فریزر بڑے طاقتور فریزر ہیں، پتا نہیں کیا کیا ان میں منجمد پڑا ہوا ہے۔ مگر جب شروع کیا تو وہی سوالات کہ ربوٰا کسے کہتے ہیں؟ انٹرسٹ کیا ہوتا ہے؟ فلاں چیز ربوٰا میں ہے یا نہیں؟ جن مسائل پر تین دفعہ عدالتیں پوری بحث کر کے فیصلہ دے چکی تھیں وہ سوالات پھر شروع کر دیے، وفاقی شرعی عدالت نے سوال نامہ جاری کر دیا اور ملک کے مختلف مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء کو بھجوا دیا۔ فقہی نوعیت کے اٹھارہ بیس سوالات سینکڑوں علماء کو الگ الگ بھیجے جائیں تو ظاہر ہے کہ جواب ایک نہیں آئے گا۔ ایک مکتبہ فکر کے علماء کا جواب بھی ایک نہیں ہوگا، یہاں تو پانچ مکاتبِ فکر ہیں۔ یہ طریقہ واردات اختیار کیا گیا کہ جوابات مختلف آئیں گے تو ہم کہیں گے کہ علماء اس پر خود متفق نہیں ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ کی تحریک پر ہم کچھ ساتھی جامعہ نعیمیہ میں اکٹھے ہوئے کہ اتنے علماء کرام میں سے چالیس پچاس تو جواب دیں گے ہی، اور ان کا جواب ایک نہیں ہوگا تو حکومت کو بہانہ مل جائے گا کہ علماء متفق نہیں ہیں۔ اس لیے ہم نے اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ کم از کم ایک مشترکہ جواب ریکارڈ میں ضرور جمع کروائیں۔ جوابات تو پہلے فیصلوں میں موجود ہیں صرف ان کو نقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک متفقہ جواب لکھ کر وفاقی شرعی عدالت کے ریکارڈ میں جمع کروا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا متفقہ موقف ہے۔ اس پر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ سب کے اکابر علماء کے دستخط ہوں۔

’’ملی مجلسِ شرعی پاکستان‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ کوئی ایسا فورم ہونا چاہیے کہ جب کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے تو ایک متفقہ موقف پیش کر دیا جائے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ آپ تو خود متفق نہیں ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر ہم نے جواب لکھا۔ جواب موجود تھا اس کو مزید ریفائن کیا، اس پر جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ مدنیہ، جامعہ سلفیہ، جامعہ المنتظر اور منصورہ سے دستخط کروا کے ریکارڈ میں جمع کروا دیا کہ یہ ہم سب کا متفقہ موقف ہے، اس سے وہ دروازہ بند ہو گیا۔ ان کاموں میں اس طرح کے دروازے بند کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اس کے بعد ملک میں آواز بلند کی گئی اور یہ عدالتی فیصلہ آیا۔ اب ہم اس مرحلے میں ہیں کہ ایک طرف تو اپیلیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف وہ سوالات جن پر تین دفعہ فیصلے ہو چکے، وہ سوالات پھر کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم یہ کہہ کر کہ اللہ کو منظور نہیں ہے خدانخواستہ میدان چھوڑ دیں کہ ہم بے بس ہو گئے ہیں۔ یا یہ کہ ہم میدان میں کھڑے رہیں اور کام بھی کریں۔ میں آپ سے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ ہم تو ان شاء اللہ مورچہ نہیں چھوڑیں گے۔

آخری بات یہ کہ اس کام میں عوامی دباؤ کے اعتبار سے، متفقہ رائے کے اعتبار سے، اور لابنگ و ہوم ورک کے اعتبار سے سب سے مرکزی جگہ اسلام آباد ہے۔ سارے ملک کا کام ایک طرف اور اسلام آباد و راولپنڈی کا کام ایک طرف۔ یہ سب پر بھاری ہے۔ آپ حضرات اپنی اہمیت محسوس نہیں کر رہے، میں بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ مختلف مسائل کے حوالے سے آواز اٹھاتا رہتا ہوں۔ مشترکہ موقف دینے کے حوالے سے، اس کے لیے متعلقہ محکموں میں لابنگ کے حوالے سے، کیونکہ صرف موقف لکھ کر دے دینا کافی نہیں ہے، متعلقہ حضرات سے ملاقات کر کے بریف کرنا، اور تیسری چیز پبلک دباؤ۔ ان سب حوالوں سے اسلام آباد مرکزی جگہ ہے۔ اب ہم اس مرحلے میں ہیں اور ابھی لاہور کے سیمینار میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ منظم کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون فرمائیے اور جو کام کرنے کے ہیں، آپ کے علم میں ہے کہ کیا کام کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے، اس کے لیے حضرت مولانا ظہور احمد علوی اور حضرت مولانا نذیر احمد فاروقی صاحب کی قیادت آپ کو حاصل ہے۔ آپ حضرات معاملے کو سمجھتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ جیسے سمجھتے ہیں ایسے ہمارے ساتھ تعاون بھی کیجئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے امید ہے ہم مورچہ نہیں چھوڑیں گے، ہم جتنا مورچے کو مضبوط کریں گے اتنا کام آگے بڑھے گا، مورچہ جتنا ڈھیلا پڑے گا اتنا ہی فیصلہ معطل اور بیکار ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس اور بڑھ چڑھ کر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ جبکہ اسلام آباد کے علماء کرام سے میری گزارش ہے کہ؎

حق نے کر ڈالی ہیں دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے
2016ء سے
Flag Counter