جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار پر ایک سرسری نظر

   
تاریخ اشاعت: 
۳ فروری ۲۰۰۳ء

جنوبی ایشیا میں آزاد دینی مدارس کا آغاز اس وقت ہوا جب ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ تاج برطانیہ نے نظام حکومت سنبھال کر متحدہ ہندوستان کو اپنی باقاعدہ نو آبادی بنا لیا۔ برطانوی حکومت نے متحدہ ہندوستان کے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان میں پرانے نظام تعلیم کا خاتمہ بھی تھا۔ اس سے قبل متحدہ ہندوستان میں فارسی دفتری زبان تھی اور عدالتوں میں فتاوٰی عالمگیری کا قانون رائج تھا جو اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں سلطان مرحوم کی سربراہی میں ملک کے پانچ سو جید علما ء کرام کی اجتماعی کاوشوں سے فقہ حنفی کی بنیاد پر ملک کے اجتماعی نظام کے طور پر مرتب ہوا تھا اور ملک میں بطور قانون نافذ کر دیا گیا تھا۔ دفتری زبان فارسی تھی جبکہ قانون کی زبان عربی تھی اور درس نظامی کا نصاب ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرتا تھا۔ اسی لیے مغل دور کے مدارس میں وہی نصاب رائج تھا اور مدارس کے اخراجات ریاستی وسائل سے پورے ہوتے تھے۔

مگر برطانوی حکومت نے دفتری زبان انگریزی قرار دے دی اور عدالتوں میں رائج اسلامی قوانین کو منسوخ کر کے برٹش لاء نافذ کر دیا۔ اس لیے ان دونوں حوالوں سے سابقہ تعلیمی نظام و نصاب کی افادیت ختم ہو گئی جو کہ اس اقدام سے برٹش گورنمنٹ کا اصل مقصد تھا۔ چونکہ ۱۸۵۷ء اور اس سے ۱۸۳۱ء کے معرکہ ہائے حریت میں علماء کرام ہی مسلح جدو جہد میں پیش پیش تھے اور آئندہ بھی انہی سے خطرہ تھا کہ جب بھی موقع ملا وہ انگریزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اس لیے اس طبقہ کو مکمل طور پر کچلنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ بہت سے علماء کرام معرکہ ہائے حریت میں کام آچکے تھے، ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا، ہزاروں کو بغاوت کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اور بے شمار علماء کرام کو جلا وطن کر کے کالا پانی کے جزیرے میں نظر بند کر دیا گیا۔ ان اقدامات کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ دین کا علم رکھنے والے اور اسلامی اقدار و روایات کی حفاظت کرنے والے علماء کرام کی اس وقت موجود کھیپ کو ختم کر دیا جائے اور ان مراکز کو بھی بند کر دیا جائے جہاں سے یہ کھیپ تیار ہوتی ہے۔ چنانچہ مدارس کا نظام مکمل طور پر سبوتاژ کر دیا گیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق متحدہ ہندوستان میں مجموعی طور پر تیس ہزار کے لگ بھگ مدارس یکلخت بند ہو گئے۔

اس صورت حال میں باقی ماندہ علماء کرام نے اپنے اپنے علاقہ میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جبکہ یوپی (اتر پردیش) کے علاقہ شاملی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ میں حصہ لینے والے چند علماء کرام نے دیو بند کے قصبہ میں رضاکارانہ بنیاد پر عوامی چندہ کے ذریعہ ایک دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ کے نام سے قائم کی جو آگے چل کر دار العلوم دیو بند کے نام سے متعارف ہوئی۔ اس درسگاہ کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حاجی عابد حسینؒ پیش پیش تھے اور ان کے ساتھ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا ذوالفقار علیؒ اور دیگر حضرات بھی معاون تھے جو عارف باللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے حلقۂ ارادت سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے دور میں چشتی سلسلہ کے بڑے مشائخ میں سے تھے۔ انہوں نے شاملی کے محاذ پر انگریزوں کے خلاف جنگ میں علماء کرام کی قیادت کی تھی اور شاملی فتح ہونے کے بعد چند روز تک امیر المومنین کی حیثیت سے حکمران بھی رہے مگر انگریزوں کا اس علاقے پر دوبارہ قبضہ ہو جانے کے بعد ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے اور مقبرۃ المعلاۃ میں مدفون ہیں۔ مکہ مکرمہ کا مدرسہ صولتیہ قائم کرنے والے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ بھی انہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خوشہ چینوں میں سے تھے، انہوں نے بھی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں عملی طور پر حصہ لیا تھا اور بعد میں ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی سرپرستی میں انہوں نے مدرسہ صولتیہ قائم کیا تھا۔

دیوبند مدرسہ کی بنیاد خالصتاً عوامی تعاون پر تھی اور اس کے بنیادی اصولوں میں، جو آج بھی تحریر کی صورت میں موجود ہیں، یہ بات مستقل طور پر طے کی دی گئی تھی کہ اس کے لیے کسی مستقل آمدنی کا انتظام نہیں کیا جائے گا اور کسی حکومت یا نواب سے امداد نہیں لی جائے گی بلکہ عام مسلمانوں کے رضا کارانہ چندوں کے ذریعہ اس کا نظام چلایا جائے گا۔ چنانچہ اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیو بند اور اس سے عملی و فکری طور پر وابستہ اکثر و بیشتر مدارس کا نظام اسی اصول کے مطابق چل رہا ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے مواقع پر متعدد حکومتوں نے امداد کی پیش کش کی مگر ان مدارس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دیوبند کے علاوہ اسی دور میں سہار نپور، مرادآباد اور ڈھاکہ میں بھی اسی طرز کے مدارس وجود میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی ایشیا کے طور و عرض میں ان مدارس کا جال بچھ گیا۔

ان مدارس نے جو نمایاں خدمات سر انجام دیں ان میں سے چند یہ ہیں:

  • مساجد میں امامت اور قرآن کریم کی تعلیم کے نظام کو باقی رکھنے کے لیے ائمہ مساجد، خطباء اور حفاظ قرآن تیار کیے۔ چنانچہ آج جنوبی ایشیا کے مسلم معاشرہ میں جتنی مساجد آباد ہیں اور جتنے مکاتب قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں ان میں انہی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کام کر رہے ہیں۔
  • قرآن کریم، حدیث نبویؐ، فقہ اسلامی، عربی و فارسی زبانوں اور دیگر متعلقہ علوم کی حفاظت و تدریس کا اہتمام کیا اور درس نظامی کے اس نظام و نصاب کو آج تک باقی رکھا جسے برطانوی حکومت اپنے خیال میں جڑ سے اکھاڑ کر سمندر میں پھینک چکی تھی۔
  • مسلمانوں کے عقیدہ و فکر کی حفاظت کی اور توحید و سنت کے سر چشمہ کے ساتھ انہیں وابستہ رکھنے کے علاوہ اس خطہ میں مسیحیت کو فروغ دینے کی مساعی کی روک تھام کی۔ اور انکار سنت، انکار معجزات، عقل پرستی، شرک و بدعت، انکار ختم نبوت اور دیگر اعتقادی و عملی فتنوں کا مقابلہ کیا۔
  • مسلمانوں میں حریت اور آزادی کے جذبہ کو باقی رکھا اور خود مختاری کے جذبات کی آبیاری کرتے ہوئے تحریک آزادی کے سینکڑوں قائدین اور ہزاروں کارکنوں کی کھیپ ہر دور میں مہیا کی۔
  • عام مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کے عمل کو جاری رکھا جو آج پوری دنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور دینی مدارس کے فضلاء کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔
  • تحریر و تقریر کے میدان میں بھی بڑے بڑے مصنفین، محققین، دانشور اور خطباء پیدا کیے جن کے تذکرہ کے لیے مستقل کتاب درکار ہے۔ اور اس طرح علمی و تحقیقی میدان میں بھی علماء کی جدو جہد کے تسلسل کو قائم رکھا۔

دینی مدارس کی ان خدمات کی وجہ سے مغربی استعمار انہیں اپنی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور ان مدارس کو ختم کرنے یا سرکاری کنٹرول میں لا کر بے اثر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً منصوبے بنتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہ دینی مدارس سمجھتے ہیں کہ ان کی مذکورہ بالاخدمات اور کارکردگی کا تسلسل و اثرات صرف اسی صورت میں باقی رہ سکتے ہیں جب وہ سرکاری مداخلت سے آزاد ہوں، مالی طور پر خود مختار ہوں، اور نصاب و نظام کے معاملات خود ان کے اپنے کنٹرول میں ہوں۔ ورنہ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ریاستی مشینری کو مداخلت کا موقع دینے سے دینی مدارس کا یہ سارا نظام مجروح ہوگا اور وہ مشنری جذبہ کے ساتھ مذکورہ بالا مقاصد کے لیے کام نہیں آئیں گے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۰ء میں پاکستان میں دینی مدارس کی مجموعی تعداد ۷ ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں طلبہ اور طالبات کی تعداد ۱۱ لاکھ کے قریب ہے جبکہ ۳۰ ہزار سے زائد اساتذہ تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کا تناسب ۶۴ فیصد ہے، بریلوی فکر کے مدارس ۲۵ فیصد، اہلحدیث مکتب فکر کے مدارس ۶ فیصد، اور اہل تشیع کے مدارس ۲ فیصد ہیں، جبکہ ۳ فیصد مدارس ایسے ہیں جو اپنا کوئی مسلکی تشخص نہیں رکھتے۔

پاکستان میں اس وقت مسلکی بنیاد پر ان مدارس کے پانچ بورڈ آزادانہ طور پر قائم ہیں۔

  1. وفاق المدارس العربیہ پاکستان، دیو بندی مکتب فکر
  2. تنظیم المدارس العربیہ پاکستان، بریلوی مکتب فکر
  3. وفاق المدارس السّلفیہ پاکستان، اہلحدیث مکتب فکر
  4. وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، شیعہ
  5. رابطۃ المدارس العربیہ پاکستان، جماعت اسلامی

ان وفاقوں کا اپنا اپنا امتحانی نظام ہے جس کے تحت ان کے زیر نگرانی تمام مدارس کے امتحانات ہوتے ہیں اور انہیں باقاعدہ اسناد جاری کی جاتی ہیں۔ ان وفاقوں کی آخری سند کو، جسے دورۂ حدیث سے فراغت کی سند کہا جاتا ہے اور الشہادۃ العالمیۃ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے، سرکاری طور پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔

ان مدارس سے فارغ التحصیل علماء کرام کی ایک بڑی تعداد ملکی سیاست میں حصہ لیتی ہے اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ اسمبلیوں میں پہنچ کر قومی سطح پر نفاذ اسلام کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ موجود تھے جو دارالعلوم دیوبند کے سابق اساتذہ میں سے تھے اور علماء کرام کی ایک بڑی جماعت جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سربراہ تھے۔ تحریک پاکستان میں ان کی نمایاں خدمات کا اعتراف خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کیا تھا۔ علامہ شبیر عثمانیؒ کی مساعی سے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ملک کا نظام چلانے کا عہد کیا گیا۔ یہ قرارداد مقاصد آج بھی پاکستان کے دستور کی بنیاد ہے اور اسی بنا پر پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست تصور کیا جاتا ہے۔

  • ۱۹۷۳ء کا دستور تشکیل دینے والی دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمود، مولانا عبد الحق، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبد الحکیم، مولانا عبد المصطفیٰ ازہری، مولانا محمد ذاکر، مولانا ظفر احمد انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی رحمہم اللہ جیسے سرکردہ علماء کرام کی موجودگی کی وجہ سے اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا، قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کو ممنوع قرار دیا گیا، اور ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی ضمانت دی گئی۔ ان دفعات پر اگرچہ ابھی تک عمل نہیں ہوا لیکن یہ دفعات ملک میں اسلامی نظام کے مکمل نفاذکے لیے دستوری بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
  • ۱۹۷۲ء میں جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور انہوں نے متعدد اسلامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سادگی و قناعت کے عملی مظاہرہ کر کے ایک اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کیا۔
  • افغانستان میں روس کی فوج کشی کے خلاف بغاوت کر کے علم جہاد بلند کرنے والے مجاہدین کی قیادت زیادہ تر انہی علماء کرام پر مشتمل تھی جو ان دینی مدارس کے تربیت یافتہ تھے۔ اور دینی مدارس سے تعلیم پانے والے ہزاروں علماء کرام نے میدان جہاد میں اسلام کی سر بلندی اور ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔
  • امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے سادہ منش، درویش صفت اور شریعت اسلامیہ کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھنے والے وزراء اور حکام بھی انہی مدارس کے تربیت یافتہ تھے جنہوں نے اپنی سادگی، ایثار، قناعت اور دینداری کے ساتھ اسلامی حکومت کے ایک مثالی نمونہ سے دنیا کو تعارف کرایا۔
  • ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ملک میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت متحدہ مجلس عمل میں بھی اکثریت ان علماء کرام کی ہے جو ان دینی مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔ ان میں جمعیۃ علماء اسلام سب سے نمایاں ہے اور صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کی قیادت جمعیۃ علماء اسلام کے رہنما محمد اکرم خان درانی کر رہے ہیں جن کے آباد و اجداد نے انگریزی استعمار کے خلاف جنگ آزادی میں سرگرم کردار ادا کیا تھا اور بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔

بلا شبہ اس پس منظر، خدمات اور کردار کے ساتھ یہ دینی مدارس جنوبی ایشیا میں مغربی استعمار کے توسیع پسندانہ عزائم اور مغربی ثقافت و تہذیب کو مسلط کرنے کے منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ چنانچہ اسی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان مدارس کی کردارکشی اور ان کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ انہیں ختم کرنے، ریاستی مشینری کے ذریعہ قابو میں لانے، اور انہیں بے اثر بنانے کے نت نئے منصوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی پس منظر کی وجہ سے امریکہ کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے گزشتہ دنوں کھلے بندوں یہ بات کہہ دی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس ہمارے لیے شدید خطرہ ہیں۔ لیکن تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود یہ دینی مدارس محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور غریب عوام کے مخلصانہ تعاون کے ساتھ اپنے مقدس مشن کے لیے جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی مخالفت کا کوئی حربہ انہیں ان کے مشن اور آزادانہ کردار سے محروم نہیں کر سکے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter