فیصلے سے قبل ہی سزا

   
تاریخ : 
۱۶ مارچ ۲۰۰۷ء

جسٹس افتخار محمد چودھری نے جب اسٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے فیصلہ دیا تو یہ خدشہ اسی وقت سے ذہن پر منڈلانے لگا تھا کہ ”کچھ ضرور ہو گا“۔ پھر جب پتنگ بازی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آیا تو خدشے کا دائرہ وسیع ہو نے لگا، جب کہ بہت سے دیگر کیسوں میں چیف جسٹس کے برق رفتار فیصلوں نے بھی اس خدشے کو خطرے کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن سچی بات ہے کہ اس صورتحال کا ذہن کے کسی گوشے میں وہم و گمان بھی نہ تھا جس کا ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو سامنا کرنا پڑا اور جس نے پوری قوم کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے۔ آج ہی لندن سے ایک بزرگ دوست کا فون آیا جن کا تعلق انڈیا سے ہے، وہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہے تھے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ میں نے ان سے گزارش کی کہ ہم تو ”ہو سکتا ہے“ کے مرحلے سے بہت آگے جا پہنچے ہیں۔

جہاں تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف جاری کی جانے والی ’’فرد جرم‘‘ کا تعلق ہے، اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا، لیکن اس سے ہٹ کر آج سارا دن دو تین سول میرے ذہن میں گردش کرتے رہے۔

ایک یہ کہ اگر اس ”چارج شیٹ“ میں درج سارے الزامات درست ثابت ہو جائیں تو بھی کیا ان کی سزا وہی ہے جو دی جا رہی ہے، بلکہ اب تک دی جا چکی ہے؟ اس لیے کہ کسی جرم کی سزا کے تعین میں صرف جرم کی نوعیت نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس ماحول کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے جس میں اس جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ماحول کسی جرم کی سنگینی اور سطح کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور شاید اس معروف مسیحی روایت کا پس منظر بھی یہی ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کے سامنے بدکاری کا ایک مجرم لایا گیا، جس کی سزا موسوی شریعت میں سنگسار کرنا تھا۔ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ اسے شریعت کے قانون کے مطابق سنگسار کر دیا جائے۔ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا، ٹھیک ہے، اس کو یہی سزا دی جائے لیکن اسے سنگسار کرنے لیے پہلے پتھر وہ شخص اٹھائے جس نے زندگی میں خود کبھی بدکاری نہ کی ہو، کہتے ہیں کہ کسی شخص کو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی اور سزا کا مطالبہ کرنے والا ہجوم رفتہ رفتہ خود ہی چھٹ گیا تھا۔

دوسرا سوال جس نے گزشتہ دو دنوں سے میرے ذہن کو پریشان کر رکھا ہے کہ کیا کسی پر فرد جرم عائد کرنے، الزامات لگانے اور پھر سزا دینے کا طریقہ کار وہی ہوتا ہے جو ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے؟ ابھی تو ٹرائیل نہیں ہوا، جرم ثابت نہیں ہوا، سزا کا تعین نہیں ہوا، جب کہ سزا پہلے ہی دے دی گئی ہے۔ اور سزا بھی ایسی کہ اس سطح کے ”ملزم“ کے لیے جرم ثابت ہونے کے بعد اس سے زیادہ کسی سزا کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اس اسٹیٹس کے لوگوں کے لیے تذلیل سے بڑی اور کون سی سزا ہو سکتی ہے اور اہانت سے زیادہ اور کس برے سلوک کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ اسی سپریم کورٹ میں اس نکتے پر بحث ہو چکی ہے کہ کسی مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد کھلے بندوں سزا نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اس سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ انسانی عزت و شرف کا احترام، انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے رو سے ہماری دستوری اور قانونی ذمہ داری ہے، اگر قانون کی دنیا کے لوگوں کو یاد ہو کہ قتل اور ڈکیتی کے کسی کیس میں ایک خصوصی عدالت نے مجرم کو کھلے بندوں پھانسی پر لٹکانے کا حکم صادر کیا تھا جس میں ”کھلے بندوں“ سزا دینے کا پہلو عدالت عظمیٰ میں چیلنج ہو گیا تھا اور اس پر ملک کے نامور قانون دانوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل بھی اس نکتے کی وضاحت کے لیے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے کہ کھلے بندوں سزا دینا عزت نفس کے منافی ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، چنانچہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، عدالت عظمیٰ نے اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ تبدیل کر دیا تھا۔ لیکن اب اسی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو الزامات کی ایک فہرست پر فیصلہ سنائے جانے سے پہلے، بلکہ ٹرائیل سے بھی پہلے پوری دنیا کے سامنے سزا دی گئی ہے اور اس کی عزت و احترام کے تمام تمغے اتار کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے گئے ہیں۔

عرصہ ہوا کہ کسی افیمی کا لطیفہ سنا تھا، کہتے ہیں کہ افیم کھانے والوں کو اکثر قبض کی شکایت رہتی ہے، وہ افیمی بھی قبض کا مریض تھا، جب کہ اس کے لوٹے میں سوراخ تھا، جب قضائے حاجت کے لیے بیٹھتا تو اس کے فارغ ہونے سے پہلے لوٹا پانی سے فارغ ہو جایا کرتا تھا، وہ تنگ آ گیا کہ جب فارغ ہو کر استنجا کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہیں تو لوٹا خالی ہو چکا ہوتا ہے۔ ایک دن اس نے اس کا یہ حل نکالا کہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھتے ہی پہلے استنجا کر لیا اور لوٹے سے مخاطب ہو کر بولا کہ لے میں نے اپنا یہ کام پہلے ہی کر لیا ہے، اب تجھ سے جو ہو سکتا کر لے۔ ہمارے مہربانوں نے بھی شاید یہی سوچا ہے کہ الزامات کی انکوائری، جرم کے ثبوت اور سزا کے تعین کا مرحلہ تو بہت طویل ہے، اس زلف کے سر ہونے تک کون جیتا ہے، اس لیے جو سزا دی جا سکتی ہے، وہ تو دے دی جائے، الزامات خودبخود ثابت ہوتے رہیں گے۔

میرے ذہن کی محدود سی اسکرین دو تین روز سے اس ”وسیع پس منظر“ کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس صدر کے کیمپ آفس اس کے روبرو بیٹھا اپنی صفائی پیش کر رہا ہے اور اس کے مطمئن نہ ہونے پر جب اپنے گھر پہنچا ہے تو وہ اپنے چیف جسٹس کے اسٹیٹس اور پروٹوکول سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کے گھر پر پہرا لگ گیا ہے، اس کے خاندان کی ناکہ بندی ہو گئی ہے، ٹیلی فون کٹ گئے ہیں اور اس سے کسی کا ملنا ”شجر ممنوعہ“ قرار پا چکا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میرے ذہن کی جھلملاتی اسکرین اس منظر کو کیچ کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی کہ چیف جسٹس کی رہائشگاہ ہے اور اس سے ملنے کے لیے ایک حاضر سروس جسٹس باہر کھڑا ہے، مگر درمیان میں ایک ادنیٰ درجے کا پولیس افسر حائل ہے، اس لیے کہ جسٹس کو اپنے چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ شاید بیداری کیے عالم میں نہیں ہوں اور کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن جب اردگرد چاروں طرف حرکت کرتی دنیا کو دیکھتا ہوں تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ خواب نہیں بیداری کا ماحول ہے، جو کسی خوفناک خواب سے زیادہ بھیانک روپ اختیار کر چکا ہے۔ سزا تو دی جا چکی اور پوری دنیا نے اس کا تماشہ بھی دیکھ لیا، کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے افسر کے لیے مزید کسی سزا کی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟

تیسرا سوال جو ذہن کے نہاں خانے میں مسلسل کلبلائے جا رہا ہے، یہ ہے کہ یہ صورتحال اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں پیش آتی تو کیا یہی کچھ ہوتا؟ مغربی ممالک کو تو چھوڑیے کہ وہاں عدالت کا تصور ہی حکمرانوں کے اوسان خطا کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کیا تیسری دنیا کے کسی ترقی پذیر، بلکہ غریب ممالک میں سے کسی ملک میں، جہاں ہماری طرح آمریتوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کیا ملک کی عدالت عظمیٰ اور اس کے سربراہ کے ساتھ اس قسم کے طرز عمل کا سوچا جا سکتا ہے؟ سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں، جن پر سپریم جوڈیشیل کونسل کا فیصلہ آنے کے بعد ہی کچھ عرض کیا جا سکے گا، مگر کوئی دانشور دوست سردست ان دو تین سوالات کے حوالے سے ہی کچھ رہنمائی فرما سکیں تو ان کا بے حد کرم ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter