توہینِ رسالت کی سزا اور بائبل

   
تاریخ : 
۱۹ جنوری ۲۰۱۱ء

پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کیتھولک مسیحیوں کے عالمی سربراہ ہیں اور دنیا کے بڑے مذہبی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن جس انداز سے انہوں نے پاکستان میں آسیہ مسیح کیس کے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے پہلے اسے چھیڑا اور اس کا نتیجہ اپنی منشا کے خلاف ظاہر ہوتا دیکھ کر اب جس غیظ و غضب کا اظہار کر رہے ہیں وہ نہ صرف ان کے منصبی مقام کے منافی ہے بلکہ معروضی حقائق، بائبل کی تعلیمات، اور پاکستان کے مسیحی مذہبی رہنماؤں کے موقف سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم پہلے اس کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان کے سرکردہ مسیحی رہنماؤں نے، جن میں بشپ الیگزینڈر جان ملک، بشپ منور، اور پادری انتھونی اعجاز جیسے ممتاز مسیحی مذہبی رہنما بھی شامل ہیں، لاہور میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام کے ساتھ ملاقات و گفتگو میں اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ وہ توہین انبیائے کرام علیہم السلام کو جرم تصور کرتے ہیں اور اس پر موت کی سزا کے خلاف نہیں ہیں۔ البتہ ان کے بقول اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال پر ان کے تحفظات ہیں اور وہ ان کے تحت قانون پر عملدرآمد کے طریق کار میں تبدیلی کا تقاضا کر رہے ہیں۔

پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ بھی اگر یہی بات کہتے تو معاملہ مختلف ہوتا اس لیے کہ اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کا الزام درست ہو یا غلط، دونوں صورتوں میں ہم نے اس پر باہمی گفتگو و مکالمے کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا، اور مبینہ طور پر غلط استعمال کی روک تھام کے لیے طریق کار میں کسی ایسی تبدیلی کو مسترد نہیں کیا جس سے نفس قانون متاثر نہ ہوتا ہو۔ لیکن پاپائے روم نے سرے سے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو ہمارے نزدیک بائبل کی نمائندگی نہیں ہے۔ بلکہ اس مطالبے کے ذریعے پاپائے روم ان لادین سیکولر حلقوں کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں جو سرے سے مذہب کے معاشرتی کردار کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور ریاست و حکومت کے تمام معاملات سے مذہب کا حوالہ ختم کردینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ورنہ بائبل تو انبیائے کرامؑ کے ان خدام کی توہین پر قتل کی سزا دیتی ہے جو بطور کاہن اور قاضی حضرات انبیائے کرامؑ کی ماتحتی میں دینی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

جیسا کہ بائبل کی کتاب استثناء کے باب ۱۷ آیت ۱۱ تا ۱۳ میں درج ہے کہ

’’شریعت کی جو بات وہ تجھ کو سکھائیں اور جیسا فیصلہ تجھ کو بتائیں اسی کے مطابق کرنا اور وہ جو کچھ فتویٰ دیں اس سے دائیں یا بائیں نہ مڑنا اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے تو اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘‘

اسی طرح بائبل کی کتاب خروج کے باب ۳۵ کی آیت ۲ و ۳ کے مطابق ہفتہ کے مقدس دن کام کرنے کی سزا بھی موت ہی تجویز کی گئی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں کہ

’’اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو جمع کر کے کہا کہ جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم خداوند نے تم کو دیا ہے وہ یہ ہیں ۔ ۔ ۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتویں دن تمہارے لیے روز مقدس یعنی خداوند کے آرام کا سبت ہو۔ جو کوئی اس دن میں کام کرے وہ مار ڈالا جائے، تم سبت کے دن اپنے گھروں میں کہیں آگ بھی نہ جلانا۔‘‘

ممکن ہے یہاں یہ کہہ دیا جائے کہ ’’استثناء‘‘ اور ’’خروج‘‘ بائبل کے اس حصے کی کتاب ہیں جو عہد نامہ قدیم کہلاتا ہے اور اس کا تعلق موسوی شریعت سے ہے۔ لیکن یہ بات بے فائدہ ہوگی اس لیے کہ عہد نامہ جدید یعنی مسیحی شریعت کی کتاب ’’متی کی انجیل‘‘ کے باب ۵ آیت ۱۷ و ۱۸ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے واضح طور پر اعلان فرمایا ہے کہ

’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔‘‘

گویا عہد نامہ قدیم کے یہ احکام مسیحی شریعت کا بھی بدستور حصہ ہیں۔ اس لیے ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت پر سزا کے قانون کے خلاف مہم چلا کر پاپائے روم ہرگز ہرگز بائبل کی نمائندگی نہیں کر رہے اور نہ ہی پاکستان کے سنجیدہ مسیحی مذہبی رہنماؤں کا یہ موقف ہے۔ اس سلسلے میں سرکردہ مسیحی رہنماؤں کے ساتھ ممتاز مسلمان علماء کی ملاقات کا تذکرہ ہم سطور بالا میں کر چکے ہیں جو گورنر سلمان تاثیر کے قتل سے پہلے ہوئی تھی۔ جبکہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد کی صورتحال میں بھی متعدد مسیحی مذہبی رہنماؤں نے اس قسم کے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ امت نے اپنی ۱۱ جنوری ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں بشپ آف پاکستان ڈاکٹر اعجاز عنایت کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جن کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں۔ بشپ چرچ آف پاکستان ڈاکٹر اعجاز عنایت نے کہا ہے کہ

  • موجودہ صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جس نے معاملے کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ اگر حکومت معاملے کو ابتداء میں ہی سمجھداری سے حل کر لیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ سلمان تاثیر سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں نے طاقت کے زعم میں ایسی باتیں کیں جو ان کو نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ درحقیقت انہوں نے لاپروائی کا مظاہرہ کر کے اقلیتوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ سلمان تاثیر نے آسیہ کے معاملے میں جو مداخلت کی ہے ہم اس کے طریق کار کو مناسب نہیں سمجھتے اس لیے کہ اگر قانون میں کوئی سقم تھا تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
  • سلمان تاثیر کی جہاں تک بات ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بےوقوف دوست سے عقلمند دشمن زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ان کے بیان کی وجہ سے ملک میں لبرل اور انتہا پسند طبقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جو غیر ضروری اور غیر اہم ہے۔
  • میں توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور اسے موجود رہنا چاہیے۔ تاہم جو شخص الزام عائد کرتا ہے اس کا سب سے پہلے پولی گرافک ٹیسٹ ہونا چاہیے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ اس کے علاوہ الزام عائد کرنے والے کے الزام کا جائزہ لینے کے لیے علمائے کرام کی ایک ہائی پروفائل کمیٹی ہونی چاہیے جو یہ دیکھے کہ الزام کسی دشمنی یا رنجش کی بناء پر تو عائد نہیں کیا جا رہا؟
  • مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ روزِ اول سے ہی ۲۹۵C کے غلط استعمال کو روکنے کی کوشش کرتے تاکہ آسیہ مسیح اور سلمان تاثیر کے اس مقام تک پہنچنے کی نوبت نہ آتی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اہل اسلام کو معلوم ہوگا کہ ۲۹۵C کے نفاذ میں اقلیتوں کے تمام ووٹ اس قانون کے حق میں تھے، اس وقت بھی ہمیں اس قانون سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور آج بھی ہم اس قانون کی عزت کرتے ہیں۔
  • عام تاثر یہی ہے کہ سلمان تاثیر بیرونی دنیا کے دباؤ اور صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہدایات پر عملدرآمد کر رہے تھے تاہم میں اس سوچ کی سختی سے مذمت کرتا ہوں ۔ صدر پاکستان اور حکمرانوں کو میرٹ کی بنیاد پر ملک کے عوام کو انصاف فراہم کرنا چاہیے تاکہ عدل و انصاف کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے بے گناہ افراد کو سزا نہ مل سکے۔ میں اپیل کروں گا کہ ہم سب مل کر پاکستان میں عادلانہ نظام قائم کرنے کی کوشش کریں۔

بشپ چرچ آف پاکستان جناب ڈاکٹر اعجاز عنایت کے متوازن اور حقیقت پسندانہ خیالات اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ انہوں نے معروضی صورتحال کا بہتر تجزیہ کیا ہے اور اس سازش کو بروقت بھانپ لیا ہے جو پاکستان میں مسلم اکثریت اور مسیحی اقلیت کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے اور اس کے ذریعے لادینیت کے سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مفاد پرست عناصر کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔ لیکن کیا پاپائے روم عالمی استعمار کی بولی بولنے کی بجائے بائبل اور پاکستانی مسیحی رہنماؤں کی پکار پر توجہ دینے کے لیے تیار ہوں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter