۱۰ اپریل کو راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے اسلحہ کے ڈپو میں آگ لگنے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس سے پورا ملک نہ صرف سوگوار ہے بلکہ رنج و الم اور اضطراب کی ٹیسیں رہ رہ کر اسلامیانِ پاکستان کے دلوں میں اٹھ رہی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اسلحہ کے ڈپو میں آگ کیسے لگی اس پر بین الاقوامی پریس اور سیاسی لیڈروں کے بیانات میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے ایک اعلیٰ فوجی افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ اس لیے اس سلسلہ میں سردست حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے تاہم سیاسی حلقوں کی اس رائے میں وزن ہے کہ صرف فوجی افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کافی نہیں ہے بلکہ تحقیقات سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ہونی چاہیے۔
یہ المناک حادثہ تخریب کاری کا نتیجہ ہو (جس کے خدشات زیادہ ہیں) یا اتفاقی ہو، دونوں صورتوں میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ
- شہری آبادیوں کے اندر اسلحہ کے ذخیروں کی موجودگی کسی وقت بھی پر امن اور بے خبر شہریوں پر موت کی اندھی بارش کا باعث بن سکتی ہے،
- جبکہ اسلحہ کے نازک اور حساس ذخائر کی حفاظت اور ان سے شہریوں کی حفاظت کے انتظامات اس قدر مکمل نہیں ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔
ان دونوں پہلوؤں پر فوری توجہ اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی راولپنڈی کے سانحہ میں متاثر ہونے والے شہریوں کی بحالی، جاں بحق ہونے والوں اور مالی نقصانات کے معاوضہ کی ادائیگی، اور زخمیوں کے علاج معالجہ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پیش رفت ہونی چاہیے۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت اس حادثہ کے شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ دیں، زخمیوں کو جلد صحت یاب فرمائیں اور متاثرین کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس قومی سانحہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں، آمین یا الہ العالمین۔