سنی شیعہ جھگڑوں کی وجوہات

   
۲۴ نومبر ۲۰۱۳ء

دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کے طلبہ اور جامع مسجد کے نمازیوں کی المناک شہادت اور سانحۂ راولپنڈی کے حوالہ سے تحریک تحفظ مساجد و مدارس لالہ موسیٰ کے زیر اہتمام ایک تعزیتی ریفرنس ۲۴ نومبر اتوار کو بعد نماز عشاء جامع مسجد رحمانیہ اہل حدیث لالہ موسیٰ میں منعقد ہوا جس کی صدارت مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے نائب امیر مولانا حافظ عبد الحمید عامر نے کی، جبکہ اس میں جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ پنجاب کے نائب امیر مولانا عطاء اللہ بندیالوی، جماعت اسلامی پنجاب کے راہ نما ڈاکٹر طارق سلیم اور شہری جمہوری اتحاد لالہ موسیٰ کے صدر شیخ حفیظ اللہ صدیقی کے علاوہ پروفیسر محمد افضل ضیاء، مولانا عبد الواحد سلفی، مولانا قاری عبد القیوم، مولانا محمد عمیر شریف اور مولانا قاری عبد الغفار نے خطاب کیا۔ راقم الحروف نے بھی اس موقع پر چند گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کا المناک سانحہ پوری قوم کے لیے باعث کرب و الم بنا ہے اور اس نے لال مسجد کے سانحہ کی یاد پھر سے تازہ کر دی ہے۔ مدرسہ کے طلبہ، مسجد کے نمازیوں اور مارکیٹ کے تاجروں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر اپنے غم و غصہ کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں ہے اور اس کا درد ایک عرصے تک سینوں میں اٹھتا رہے گا۔ مگر میں اپنے جذبات کو دباتے اور دل پر پتھر رکھتے ہوئے اس کے ایک پہلو پر کچھ گزارشات معروضی حقائق کے حوالہ سے پیش کرنا چاہوں گا۔ پنجاب حکومت نے اس سانحہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے ہائی کورٹ کے ایک محترم اور معزز جسٹس پر مشتمل عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے جو سانحۂ راولپنڈی کے اسباب و عوامل اور اس کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لے رہا ہے اور پوری قوم اس کی رپورٹ اور سفارشات کے انتظار میں ہے۔ مگر میں اپنے پیش رو مقررین کی اس بات کی تائید کروں گا کہ اس موقع پر صرف سانحۂ راولپنڈی کے حوالہ سے انکوائری اور سفارشات کافی نہیں ہوں گی بلکہ سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافے اور اس کے خوفناک تصادم کا رنگ اختیار کرجانے کے اسباب و عوامل کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ کیونکہ بیماری کے اسباب کی تشخیص کے بغیر اس کے علاج کی کوئی صورت کارگر نہیں ہوگی۔ اس لیے میں یہ چاہوں گا اور آپ حضرات کی وساطت سے حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ عدالتی کمیشن کے دائرہ کار میں پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ اور باہمی تصادم کی خوفناک صورت حال کے اسباب و عوامل اور پس پردہ محرکات کے جائزہ اور سفارشات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ان کو سامنے رکھ کر آئندہ ایسے سانحات کے امکانات کو روکا جا سکے۔

مجھے ملک کی دینی جدوجہد کے ماحول میں کام کرتے ہوئے نصف صدی ہوگئی ہے اور میں اپنے مشاہدات و تجربات اور احساسات و جذبات کی بنیاد پر پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی اور اس کے اشتعال انگیزی اور تشدد کا رخ اختیار کرنے کے چند اسباب کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ہمارے ہاں ربع صدی قبل تک صورت حال یہ تھی کہ ملک کے کسی حصے میں سنی شیعہ تنازعہ عام طور پر دو میں سے کسی ایک مسئلہ پر کھڑا ہوتا تھا۔ ایک یہ کہ حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ شخصیت پر تبرّا کے عنوان سے توہین کی جاتی تھی جو اہل سنت کے کسی فرد کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتی۔ اور یہ یکطرفہ ہی ہوتی ہے اس لیے کہ کوئی سنی جواب میں حضرات اہل بیت کرامؓ میں سے کسی بزرگ کی ادنیٰ ترین اہانت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارے تو دونوں بزرگ ہیں، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ دونوں ہماری آنکھوں کا نور ہیں۔ اس لیے حضرات صحابہ کرامؓ اور ان میں سے خاص طور پر حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت فاروق اعظمؓ، حضرت عثمان غنیؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ اور امیر المومنین حضرت معاویہؓ میں کسی بزرگ کی توہین پر غصہ اور جذبات کا بھڑکنا ایک فطری بات ہے جس کا یکطرفہ ہونا اس کی شدت اور سنگینی میں اور اضافہ کر دیتا ہے اور بات تنازعہ اور تصادم تک جا پہنچتی ہے۔

دوسرا سبب عام طور پر کسی ماتمی جلوس کا روٹ ہوتا ہے۔ ماتمی جلوس اور اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک فریق کے نزدیک بالفرض عبادت ہو تو بھی یہ صورت حال قابل قبول نہیں ہوتی کہ دوسرا فریق جو غالب اکثریت بھی رکھتا ہے، اس کے دروازہ پر یہ عبادت ادا کی جائے۔ گلیوں، بازاروں، مارکیٹوں اور مساجد و مدارس کے سامنے اس کے مظاہرے کو ضروری قرار دے دیا جائے، جبکہ یہ بات تصادم اور خونریزی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پتنگ بازی چونکہ جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے اس لیے حکومت نے اس پر پابندی لگا دی ہے اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی جلوس بالخصوص خنجر بردار جلوس گلیوں بازاروں اور مارکیٹوں میں گزرتا ہوا امن عامہ کے لیے خطرہ بنتا ہو تو اس کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ دو سبب تو شروع سے شیعہ سنی تنازعات کا باعث بنتے آرہے ہیں اس لیے عدالتی کمیشن کو اس کا جائزہ لے کر اس کی روک تھام کے لیے سفارشات پیش کرنی چاہئیں اور حکومت کو اس بد اَمنی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

کشیدگی کے یہ دو سبب تو مقامی اور علاقائی طور پر تنازعات کا باعث بنتے آرہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں لیکن سنی شیعہ کشیدگی کو قومی سطح پر لانے میں جس چیز نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ملک میں نفاذِ فقہ جعفریہ کا مطالبہ تھا جس کا قطعی طور پر کوئی جواز نہیں تھا کہ ملک کی غالب اکثریت کے خلاف کسی اقلیتی فقہ کو ملک میں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ لیکن ایسا ہوا اور اس کے لیے وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ بھی کیا گیا جس نے ملک بھر میں سنی شیعہ تعلقات کی دیوار میں دراڑیں ڈال دیں اور یہ مطالبہ آج تک مسلسل کیا جا رہا ہے۔

نفاذِ فقہ جعفریہ کے مطالبہ اور اس کے رد عمل میں دوسری طرف سے سامنے آنے والی تشدد کی لہر نے فرقہ وارانہ امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے اور اس کے تلخ ثمرات ہم اب تک سمیٹ رہے ہیں۔ عدالتی کمیشن کو اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور گزشتہ ربع صدی کے دوران دونوں طرف سے جو سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں ان کے اسباب و محرکات کو بے نقاب کر کے ان کے سدباب کے لیے سفارشات پیش کرنی چاہئیں۔

میری یہ گزارشات کسی ایک فریق کے حق میں اور دوسرے کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ مجموعی صورت حال پر اپنے تاثرات کا اظہار ہے۔ اس لیے میں اہل سنت کے تمام حلقوں، اہل تشیع کے سنجیدہ راہ نماؤں اور حکومت کے ذمہ دار حضرات سب کو اس صورت حال پر غور کی دعوت دیتا ہوں۔ کیونکہ اس ساری صورت حال کا حقیقت پسندانہ بنیادوں پر جائزہ لیے بغیر نہ ہم اس کشیدگی کو کم کر سکتے ہیں اور نہ ہی باہمی تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کو روک سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی میں اشارتاً ایک چوتھے سبب کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ اختلافات جو رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور عالمی استعمار مڈل ایسٹ میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اس کارڈ کو جس ہوشیاری اور مہارت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے، پاکستان کی داخلی صورت حال کو اس سے الگ تھلگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مشرق وسطیٰ میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والی یہ کشمکش مستقبل میں پاکستان پر پہلے سے زیادہ اثر انداز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس لیے میری تمام فریقوں سے اور ملک کے سنجیدہ مذہبی اور سیاسی راہ نماؤں سے آج کے اس اجتماع کی وساطت سے گزارش ہے کہ وہ ملک کے امن کی خاطر اور قوم کی وحدت کے لیے اس صورت حال کا مجموعی تناظر میں جائزہ لیں اور بیماری کے اسباب کو نظر انداز کرتے چلے جانے کی بجائے ان کی نشاندہی کر کے ان کے سدباب کی حکمت عملی طے کریں۔

آخر میں آج کی گفتگو میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی کو تنہا نہ سمجھا جائے، ملک بھر کے اہل دین اس کی پشت پر ہیں اور ہم کسی قسم کے تحفظات کے بغیر دارالعلوم تعلیم القرآن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت سے یہ عرض کروں گا کہ دارالعلوم تعلیم القرآن کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے یا اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت اسے محض ایک علمی ادارہ اور مرکز تصور نہ کیا جائے، دارالعلوم ہم سب کا ہے اور اس کے وقار اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہم سب اس کے ساتھ ہیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۶ نومبر ۲۰۱۳ء)
2016ء سے
Flag Counter