معزول تیونسی صدر کے اثاثے / طالبان کے لیے امریکی امداد / شام کی صورتحال

   
یکم اگست ۲۰۱۲ء

گزشتہ دو روز سے مدینہ منورہ میں ہوں، حرم نبوی کی برکات سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے استاذ محترم حضرت قاری محمد انور کا مہمان ہوں اور ان کے اکلوتے بیٹے برادرم قاری محمد اشفاق صاحب کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ قاری محمد انور صاحب کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ ۱۹۵۹ء سے ۱۹۷۷ء تک گکھڑ میں مدرسہ تجوید القرآن کے صدر مدرس رہے ہیں، میں نے انہی دنوں ان سے قرآن کریم حفظ کیا تھا اور بحمد اللہ تعالیٰ اکتوبر ۱۹۶۰ء میں مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد وہ کینیا کے شہر ممباسہ میں دو سال تک حفظ قرآن کریم کے استاذ رہے، گزشتہ تینتیس سال سے مدینہ منورہ میں حفظ قرآن کریم کی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور کم و بیش پچھتر سال کی عمر میں ضعف و علالت کے باوجود اب بھی پڑھا رہے ہیں۔ مجھے جب بھی مدینہ منورہ حاضری کی سعادت ملتی ہے، ان کی شفقتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور دعائیں تو وہ بحمد اللہ تعالیٰ میرے لیے ہمیشہ کرتے ہی رہتے ہیں۔

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ کا ۱۸ جولائی کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے اور اس میں نظر سے گزرنے والی چند خبریں ہلکے پھلکے تبصرے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

عرب ٹی وی کے حوالے سے یہ خبر میرے لیے خصوصی طور پر دلچسپی کا باعث بنی کہ تیونس کے معزول صدر زین العابدین بن علی نے سویٹزر لینڈ میں اپنے تمام اثاثے واپس کرنے کی پیشکش کی ہے۔ خبر کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر اپنے تمام اثاثے اور مالیاتی ذخائر ریاست کے سپرد کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ زین العابدین لمبے عرصے تک تیونس کے مطلق العنان حکمران رہے ہیں اور اس طرز کے دیگر حکمرانوں کی طرح اپنے ملک کے عوام کو جبر اور دباؤ کا شکار رکھنے کے ساتھ ساتھ قومی اثاثوں میں لوٹ مار کر کے سویٹزر لینڈ کے بینکوں میں اپنے اثاثے بناتے رہے ہیں۔ لیکن عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے معزول ہونے کے بعد انہیں بالآخر قومی مفاد کا خیال آ ہی گیا ہے اور انہوں نے یہ اثاثے قوم کو واپس کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پاکستان کی قومی دولت کا بھی ایک بڑا حصہ سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں منجمد پڑا ہے جس کے بارے میں گزشتہ دنوں سوئس بینکوں کے ایک سابق ڈائریکٹر کے انٹرویو کے حوالے سے یہ رپورٹ پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ یہ رقم اگر پاکستان میں واپس آجائے تو حکومت پاکستان کو مسلسل تیس سال تک اپنے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن کیا ہمارے ان سیاستدانوں اور ان اثاثوں کے دیگر مالکان کو بھی تیونس کے سابق صدر کی طرح سب کچھ گنوا کر ہی قومی مفاد کا خیال آئے گا؟

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اصل صدقہ وہ ہے جو صحت اور غنا کی حالت میں دیا جائے۔ یہ بھی کیا صدقہ ہے کہ موت سر پر کھڑی ہو اور اس وقت آدمی یہ کہے کہ اتناں فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو دے دو، حالانکہ وہ فلاں فلاں کا یعنی وارثوں کا ہو چکا ہے۔ سوئس بینکوں میں پڑی پاکستانی دولت کے مالکان جس طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، ہماری ان سے گزارش ہے کہ ملک کے معاشی بحران کے اس مرحلے میں قومی دولت کو ملک میں واپس لانے کو وہ قوم پر صدقہ ہی سمجھ لیں لیکن خدا کے لیے وقت پر تو واپس لے آئیں۔

’’اردو نیوز‘‘ نے نیٹو کے انٹیگریشن سیل کے ڈائریکٹر میجر جنرل ڈیوڈ ہوک کا یہ بیان شائع کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی وفاداریاں خریدنے کے حوالے سے نیٹو حکمت عملی بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت صرف ۵ ہزار طالبان جنگجو ہتھیاروں سے دستبردار ہوئے، اس منصوبے کے اثرات ملک میں بہت معمولی رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں امریکی قیادت میں ایک پروگرام تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت افغانستان میں ہتھیار ڈالنے والے طالبان کے لیے تین ماہ کے اندر ۳۶۰ ڈالر ہر ایک جنگجو کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی اسی صفحہ پر شائع ہونے والی دوسری خبر یہ ہے کہ امریکہ کے سیاسی امور کے معروف ماہر اور کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر پال شیلڈن نو نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں فوجی مہم جوئی اور قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ٹیکس دہندگان سے حاصل شدہ رقم افغان جنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے۔ ایرانی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ویتنام کی جنگ کی طرح امریکہ افغانستان کی جنگ پر بھی بے پناہ پیسہ ضائع کر رہا ہے۔

امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے آج سے دس سال قبل جب افغانستان پر فوج کشی کی تھی تب سے ہم یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہ جنگ کبھی کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ ’’طالبان‘‘ کسی گروہ یا طبقے کا نام نہیں ہے بلکہ افغان قوم کی اسلامی حمیت، قومی غیرت اور خودمختاری کی مستحکم روایت نے طالبان کا عنوان اختیار کر لیا ہے۔ اس لیے یہ جنگ کسی گروہ کے خلاف نہیں بلکہ افغان قوم کے خلاف ہے اور قوموں کو کبھی میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ آج بھی اس مسئلہ کا حل جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک افغان قوم کے جذبہ حریت کا احترام کریں، طالبان کا وجود تسلیم کریں، افغانستان کی خودمختاری کو قبول کریں اور زمینی حقائق کی بنیاد پر جنگ بندی کا راستہ اختیار کر کے طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے ذریعے افغان قوم کو پوری آزادی کے ساتھ اور کسی قسم کے دباؤ کے بغیر افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کریں۔

اس خبر سے ایک اور فائدہ بھی ہوا، ہمیں کافی عرصہ سے افغانستان میں امریکی اتحاد کے خلاف نبرد آزما جنگجو طالبان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے میں مشکل پیش آرہی تھی، میجر جنرل ڈیوڈہوک نے یہ بتا کر ہماری مشکل کسی حد تک آسان کر دی ہے کہ پانچ ہزار جنگجو طالبان کا ان کے بقول ہتھیار ڈالنا اگر ’’صرف‘‘ اور ’’بہت معمولی‘‘ ہے اور اسے طالبان کی وفاداریاں خریدنے کی پالیسی کی ’’بری طرح ناکامی‘‘ سے تعبیر کرنا پڑ رہا ہے تو افغانستان میں جنگ لڑنے والے طالبان کی اصل تعداد کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا۔

’’اردو نیوز‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مراکش نے اپنے ملک میں متعینہ شامی سفیر اسماعیل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کے بعد ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے اور وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ شام میں جاری تشدد کے خلاف احتجاج کے طو رپر یہ قدم اٹھایا گیا ہے کیونکہ شام میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت میں قابل برداشت نہیں ہے۔

شام کا بحران روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اب تک کی صورتحال کے پیش نظر شام کی صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ عرب ممالک میں آمر اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر تیونس، لیبیا اور مصر کے بعد شام میں بھی اپنی جولانیاں دکھا رہی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے جو بشار الاسد کی حکومت کے جبر اور تشدد کا شکار ہے اور سینکڑوں شامی شہری اس میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کا ایک مذہبی پہلو ہے جس نے اس بحران کی شدت کو دوآتشہ کر دیا ہے، وہ یہ کہ شام کے صدر بشار الاسد اور فوجی قیادت کی اکثریت کا تعلق نصیری فرقے سے ہے جو اہل تشیع کے ہاں بھی انتہا پسند گروہ شمار ہوتا ہے۔ اس بحران کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کے لیے یہ ذکر شاید نامناسب نہیں ہوگا کہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور حکومت میں بھی اب سے ربع صدی قبل یہ سانحہ پیش آیا تھا کہ اہل سنت کے مذہبی مرکز ’’حماہ‘‘ کو ایک مرحلے میں بلڈوز کر دیا گیا تھا، کم و بیش دس ہزار علماء اور کارکنوں نے اس سانحہ میں جام شہادت نوش کیا تھا اور بہت سے علماء کرام جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے جن میں ہمارے استاذ محترم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ بھی شامل ہیں جو اس وقت اخوان المسلمین شام کے رئیس تھے اور جلا وطن ہو کر سعودی عرب آگئے تھے۔ اب بھی عوامی مظاہرین اور ان پر تشدد کرنے والی سرکاری فورسز کی تقسیم کا منظر یہی بیان کیا جاتا ہے اور گزشتہ روز جدہ ایئرپورٹ کے قریب مسجد عائشہؓ میں نماز مغرب کے دوران امام محترم سے شامی حکمرانوں کے خلاف ’’قنوت نازلہ‘‘ سن کر ہمیں اس پہلو کی شدت کا اندازہ ہوا۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شامی بھائیوں کو اس بحران میں سرخروئی اور کامیابی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter