جامع مسجد حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ۱۰ نومبر اتوار کو بعد از نماز مغرب شاہ ولی اللہ سوسائٹی اور عالمی انجمن خدام الدین کی طرف سے حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری کی زیر صدارت ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور صاحبزادہ مولانا احمد علی انور کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر پیش کی گئی گزارشات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شیرانوالہ لاہور میں حاضری میرے لیے ہمیشہ باعث سعادت رہی ہے۔ اس مرکز کے ساتھ اپنی نسبت کو تازہ رکھنے کے لیے کبھی کبھی حاضر ہوتا ہوں، لیکن اس دفعہ یہ حاضری میرے لیے دُہری خوشی کا باعث ہے۔ اس لیے کہ آج میں عزیز محترم صاحبزادہ مولانا احمد علی انور کی دعوت پر آیا ہوں جو میرے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کے پوتے اور محترم میاں محمد اجمل قادری صاحب کے فرزند ہیں۔ امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مرقدہ کی چوتھی پشت کو اپنے پردادا کے عظیم مشن کے لیے متحرک دیکھ کر مجھے جو خوشی ہوئی اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور اس مرکز حق کو ہمیشہ آباد رکھیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مجھ سے پہلے مولانا اللہ وسایا اور مولانا عبد الرؤف فاروقی نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور اس کی جدوجہد کے تقاضوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ مجھے ان کے ارشادات سے اتفاق ہے اور تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس لیے شیرانوالہ گیٹ اور شاہ ولی اللہ سوسائٹی کی مناسبت کو سامنے رکھتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کے ایک قدرے مختلف پہلو پر کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے تبلیغی بھائی یہ کہتے ہیں اور بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ پوری نسل انسانی کے لیے نبی اور رسول بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں اس لیے نسل انسانی کے ہر فرد تک ان کی دعوت کا پہنچنا ضروری ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کی وجہ سے یہ ذمہ داری پوری امت کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور فرشتے بھی یہ کام نہیں کریں گے، ظاہر بات ہے کہ موجودہ حالات میں نسل انسانی کی سات ارب افراد پر مشتمل آبادی میں سوا پانچ ارب کے لگ بھگ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا، ان تک قرآن کریم پہنچانا اور انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متعارف کرانا مجموعی طور پر پونے دو ارب مسلمانوں کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے اور میں خود بھی یہ بات اکثر کیا کرتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ اس پہلو پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ بحیثیت نبی اور رسول جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ذمہ داریاں بھی اسی طرح امت کو منتقل ہوگئی ہیں جس طرح دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری امت کے ذمہ آگئی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری امت مسلمہ کی اجتماعی قیادت اور مسلم سوسائٹی میں اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و احکامات کا عملی نفاذ ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے لوگوں کو صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہیں دی بلکہ اس دعوت کے ذریعہ کلمہ پڑھنے والوں کا باہمی نظم قائم کیا ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے نفاذ کا اہتمام کیا ہے اور ان کے ملی و قومی مفادات کا تحفظ بھی کیا ہے۔ اس لیے یہ سارے کام بھی نبوی کام ہیں جو نبوت کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد امت کو منتقل ہوگئے ہیں۔ قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ اس امر کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو جب بنی اسرائیل کی طرف رسول اور نبی بنا کر بھیجا گیا تو انہیں فرعون کی طرف اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو غلامی کے عذاب میں مبتلا نہ رکھے اور انہیں آزادی دے تاکہ وہ اپنے وطن اسرائیل کی طرف واپس جا سکیں۔
چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنے احسانات گنوانا شروع کر دیے کہ تم نے ہمارے گھر میں پرورش پائی ہے اور ہم نے تمہیں پالا پوسا۔ اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ تم مجھ پر کونسی نعمت کا احسان جتلا رہے ہو، یہی کہ تم نے میری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟ اس طرح بنی اسرائیل کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت اللہ تعالیٰ کے حکم پر اس کے دو پیغمبروں نے کی اور انہی کی قیادت میں بنی اسرائیل نے قلزم میں فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کے بعد آزادی حاصل کی۔
فرعون سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی دوسری منزل بیت المقدس اور فلسطین کی طرف ان کی واپسی تھی جس کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جہاد کی دعوت دی مگر اس کے لیے وہ تیار نہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی سزا کے طور پر بنی اسرائیل صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اس کے بعد بیت المقدس کا جہاد اور اس میں بنی اسرائیل کی دوبارہ آبادی بھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں ہوئی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب بنی اسرائیل پر جالوت نامی ظالم بادشاہ نے تسلط جما لیا اور اس کے ظلم و جبر کے سامنے بنی اسرائیل بے بس ہوگئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کریں تاکہ وہ اس کی قیادت میں ظالم بادشاہ جالوت کے خلاف جہاد کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کیا جن کی قیادت میں بنی اسرائیل نے جالوت کے خلاف جنگ لڑ کر اسے شکست دی اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ پھر اسی ریاست میں جب جالوت بادشاہ کو میدان جنگ میں قتل کرنے والے حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ بنے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا ہے اس لیے لوگوں پر عدل و انصاف کے مطابق حکومت کرنا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ آزادی، جہاد، خلافت، حکومت اور سیاسی قیادت کے یہ سارے کام بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے کام ہیں اور نبوی فرائض کا حصہ ہیں اور یہ سارے واقعات جو میں نے عرض کیے قرآن کریم میں ہی مختلف مقامات پر تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ جبکہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کو یوں بیان فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت اور حکومت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا لیکن چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے میرے بعد یہ کام خلفاء کے ذمے ہوگا اور امت کی ذمہ داری ہوگی کہ ان خلفاء کی اطاعت کرے۔ چنانچہ امت کی قیادت خلفاء کی ذمہ داری اور خلافت کا قیام امت کی ذمہ داری قرار پا گیا۔
گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح دعوت و تبلیغ کا کام نبوی کام ہے جو ختم نبوت کی وجہ سے امت کو منتقل ہوا ہے، اسی طرح امت کا اجتماعی نظم قائم کرنا اور خلافت و جہاد کا اہتمام کرنا بھی پیغمبروں کا کام ہے جو نبوت کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے باعث امت کو منتقل ہوگیا ہے اور یہ امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں خلافت کا نظم قائم کرے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مسلم سوسائٹی میں نفاذ کا اہتمام کرے۔ اس لیے ہمیں اپنی اس ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اسے پورا کرنے کے لیے امت کو بیدار کرتے ہوئے خلافت کے قیام کے لیے محنت کرنی چاہیے۔