روزنامہ پاکستان، لاہور

اقبالؒ کے پاکستان کی بات کون کر رہا ہے؟

علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا کہ پاکستان کے نام سے قائم ہونے والی نئی ریاست میں نفاذِ اسلام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی حدود میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ ملک کے دینی حلقوں نے اجتماعی طور پر اقبالؒ کے اس تصور کو قبول کر لیا مگر اقبالؒ کے پاکستان کا نعرہ لگانے والے بہت سے لوگ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دینے کو پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی کہہ کر پاکستان کے دستور کی اس نظریاتی اساس کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اپریل ۲۰۱۴ء

ایوننگ دینی مدرسہ کا تجربہ

گزشتہ روز مولانا محمد ادریس اور حافظ سید علی محی الدین کے ہمراہ راجہ بازار راولپنڈی میں دارالعلوم تعلیم القرآن کے سامنے سے گزرا تو دل سے اک ہوک سی اٹھی اور اس علمی و دینی مرکز کے بارے میں ماضی کی کئی یادیں ذہن میں تازہ ہوتی چلی گئیں۔ اس سے قبل ظہر کے بعد ایف ٹین ٹو اسلام آباد کی مسجد امیر حمزہؓ میں علماء کرام کی ایک فکری نشست تھی، اس مسجد میں مولانا محمد ادریس اور ان کے رفقاء نے منفرد نوعیت کا دینی مدرسہ ’’کلیۃ الدراسات الدینیۃ‘‘ کے نام سے قائم کر رکھا ہے جس میں سرکاری ملازمین تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم فروری ۲۰۱۴ء

تبلیغی اور دعوتی سرگرمی

گوجرانوالہ کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد کا سالہا سال سے معمول ہے کہ عید الاضحی کی تعطیلات میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگاتے ہیں اور مجھے بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سال چالیس کے لگ بھگ علماء کرام اور ان کے رفقاء کی جماعت تھی جس کی تشکیل منڈی بہاء الدین کی مرکزی جامع مسجد میں ہوئی اور ہم بحمد اللہ تعالیٰ جمعۃ المبارک کی شام سے اتوار کو شام تک وہاں مصروف عمل رہے۔ جلیل ٹاؤن کے مفتی محمد رضوان جماعت کے امیر تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اکتوبر ۲۰۱۳ء

’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘

قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

درخواستی خاندان کی اسلام کے لیے خدمات

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ پاکستان کی دینی و سیاسی تاریخ کی ایک اہم شخصیت تھے جن کا اوڑھنا بچھونا تعلیم و تدریس اور ذکر و اذکار تھا۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان جیسی معروف دینی و سیاسی جماعت کے تین عشروں تک امیر رہے اور ان کی امارت میں کام کرنے والے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ، مولانا شمس الحق افغانیؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری شامل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اکتوبر ۲۰۱۲ء

’’خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی جج‘‘

پروفیسر حافظ محمد سعید اور مولانا عبد الرحمان مکی کے سروں کی قیمت مقرر کر کے امریکہ اور بھارت نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا ہوگا کہ انہوں نے مبینہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کوئی پیش رفت کی ہے اور اس سے انہیں اس جنگ میں کوئی فائدہ مل سکتا ہے۔ لیکن اس کے مضمرات اور نتائج پر غور کرنے کی زحمت نہ اس کا فیصلہ کرنے والے امریکی دانشوروں نے گوارا کی ہے اور نہ ہی اس کا خیرمقدم کرنے والے بھارتی دانشوروں کو اس کی توفیق ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اپریل ۲۰۱۲ء

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ

میو ہسپتال پہنچا تو بہت زیادہ رش تھا اور بظاہر ان تک رسائی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر گوجرانوالہ کے ایک اہل حدیث نوجوان کی ڈیوٹی تھی جو علامہ شہیدؒ کے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور مجھے پہچانتے تھے۔ انہوں نے ہمت کر کے اس قدر رش کے باوجود مجھے ان کے بیڈ تک پہنچایا۔ میں نے علامہ شہیدؒ کے چہرے کی طرف دیکھا، آنکھیں چار ہوئیں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس حالت میں وہ مجھے پہچان پائیں گے۔ ان کے لبوں کو حرکت ہوئی تو میں نے کان قریب کر لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’حضرت صاحب سے میرے لیے دعا کی درخواست کرنا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۲۰۱۲ء

مواخذہ سے استثنا اور اسلامی تعلیمات

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھنا آئین کے آرٹیکل ۶ کی خلاف ورزی ہوگی جس کی سزا موت ہے، اس لیے وہ توہینِ عدالت میں سزا پانے کو ترجیح دیں گے جو چھ ماہ قید ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی پی سے بے وفائی نہیں کریں گے اور اپنے ہی صدر کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔ سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ عجیب سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود وزیراعظم پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے مقدمات کے حوالے سے سوئس عدالت کو خط لکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مارچ ۲۰۱۲ء

نبی اکرمؐ کے معمولاتِ زندگی

حضورؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ لوگ خیر کے معاملات سے غافل نہ ہو جائیں اور اس بات کا بھی اہتمام کرتے تھے کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ ہر قسم کے معاملے کا آپ کے پاس حل تیار ہوتا تھا اور ہر صورتحال کے لیے مستعد ہوتے تھے۔ آپؐ حق بات کہنے سے نہیں کتراتے تھے اور ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ لوگوں میں سے آپؐ سے زیادہ قریب وہی حضرات ہوتے تھے جو اچھے لوگ ہوتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کے ہاں سب سے زیادہ قابل احترام وہی شخص ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۱۲ء

خلافتِ راشدہ اور عمران خان

عمران خان آج کل اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے مشکل اننگز کھیل رہے ہیں اور ابھی تک بظاہر کامیاب جا رہے ہیں۔ بلا ہاتھ میں ہوتا ہے تو چوکے چھکے لگاتے چلے جاتے ہیں اور گیند پکڑتے ہیں تو وکٹیں اڑانے کی رفتار بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو ورلڈ کپ جیتنے والا عمران خان ایک بار پھر فارم میں دکھائی دے رہے ہے اور مجھ جیسے بوڑھے کبھی آنکھیں ملتے اور کبھی عینک کے شیشے صاف کرتے ہوئے اس قدر نئے منظر کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۲۰۱۱ء

تحفظِ ناموسِ رسالتؐ: حکومت کا مستحسن موقف

پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر بازی لیتی دکھائی دے رہی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی روح دوبارہ اپنی پارٹی کے قلب و دماغ کو متوجہ کرتی نظر آرہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے تمام تر اختلافات کے باوجود ان کا یہ کریڈٹ ہمیشہ غیر متنازعہ رہا ہے کہ انہوں نے ۱۹۷۳ء کے دستور میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کو قائم رکھا، قوم سے نفاذِ اسلام کا دستوری عہد کیا، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا دیرینہ مسئلہ حل کیا، اسلامی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کر کے عالم اسلام کو وحدت اور یکجہتی کا پیغام دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ فروری ۲۰۱۱ء

میڈیا سے متعلق چند لطائف

جہاں میڈیا کے افراد اپنے قارئین کے ذہنوں کو کنفیوژ کرنے کا رول ادا کرتے ہیں، وہاں سیاسی رہنما اور کارکن بھی میڈیا کو استعمال کرنے میں محتاط نہیں ہوتے۔ اس کا تعلق ہمارے عمومی کلچر سے ہے کہ ہم کسی بھی چیز کے صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں اور ہر چیز سے ذاتی اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے لیے عمومی اصلاحی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ہمیں ذاتی، گروہی، اور وقتی اغراض و مفادات سے بالاتر ہو کر قومی اور اجتماعی سوچ کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کر دے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جنوری ۲۰۱۱ء

نکاح کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی عمر اور راویانِ حدیث کا مقام و مرتبہ

گزشتہ دنوں روزنامہ پاکستان میں محترم بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر صاحب کا قسط وار مضمون نظر سے گزرا جس میں انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے نکاح کے وقت ان کی عمر کے حوالے سے تفصیلی بحث کی ہے، اور خلاصے کے طور پر یہ بات بیان فرمائی ہے کہ ہمیں احادیث کی وہ تمام روایات مسترد کر دینی چاہئیں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ ستمبر ۲۰۱۰ء

نیویارک کی امیگریشن / قرآن کریم کا مقصدِ نزول

۲۲ جولائی کو نیویارک پہنچا تھا اور کم و بیش چار پانچ دن مصروف رہنے کے بعد اب بالٹیمور میں ہوں۔ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر ہمارے جیسے لوگوں کے لیے امیگریشن کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے جس سے کم و بیش ہر دفعہ گزرنا پڑتا ہے، اس سال بھی اس آزمائشی مرحلہ سے گزرنا پڑا۔ گزشتہ سال اہلیہ بھی ساتھ تھیں اور امیگریشن کے عملے نے ہم دونوں کو جہاز سے اترتے ہی قابو کر لیا تھا، میں اس صورتحال کا عادی تھا مگر اہلیہ کے لیے یہ پہلا موقع تھا وہ بہت گھبرائیں مگر میں نے تسلی دی کہ پریشان نہ ہونا دو تین گھنٹے کی پوچھ گچھ کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اگست ۲۰۱۰ء

داتا دربار لاہور کا سانحہ اور ’’صوفی اسلام‘‘

حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار پر گزشتہ جمعرات کو ہونے والے دہشت گردی کے وحشیانہ واقعہ پر ملک بھر میں بلکہ عالمی سطح پر جس صدمے اور غم و غصے کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے وہ نہ صرف یہ کہ بجا ہے بلکہ اس سطح اور توقع سے بہت کم ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس قسم کے افسوسناک واقعات اس تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ کسی بھی سانحہ کو ان واقعات کے مجموعی تناظر سے الگ کر کے اس کی اپنی اہمیت و سنگینی کے حوالے سے دیکھنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جولائی ۲۰۱۰ء

عورت کی ملازمت ۔ فطرت کے اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے

بھارتی اخبارات میں ان دنوں عورت کے حوالے سے تین موضوعات پر بطور خاص بات ہو رہی ہے اور مختلف اطراف سے ان پر اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک عنوان یہ ہے کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعے یہ معلوم ہونے پر کہ پیدا ہونے والا بچہ صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے ہزاروں حمل گرا دیے جاتے ہیں، اور اسقاط حمل کے تناسب میں مسلسل اضافے نے سنجیدہ حضرات کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی کے ایک اخبار میں اس سلسلے میں ایک سیمینار کی رپورٹ نظر سے گزری جس میں کہا گیا ہے کہ بچی کی پیدائش کو عام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مئی ۲۰۱۰ء

سانحۂ فیصل آباد اور مابعد اثرات

مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ہمارے ملک کے نامور خطباء میں سے تھے۔ وہ صرف خطیب نہیں بلکہ خطیب ساز تھے۔ ان کا طرزِ خطابت منفرد تھا اور ان کے بیسیوں شاگردوں نے اس طرزِ خطابت کو اپنا کر میدانِ خطابت میں اپنے استاد اور مربی کے نام کو باقی رکھا ہوا ہے۔ توحید و سنت کا پرچار ان کا خصوصی موضوع تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مارچ ۲۰۱۰ء

ملی مجلسِ شرعی کا پسِ منظر اور تعارف

جنوری ۲۰۱۰ء کو لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے زیراہتمام مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور سول سوسائٹی کے مختلف طبقات کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد ملک کی خودمختاری کی بحالی کے لیے جدوجہد کو منظم کرنا ہے۔ اس موقع پر ملی مجلس شرعی کا تعارف اور پس منظر پیش خدمت ہے۔ ۳ اگست ۲۰۰۷ء کو تحریک اصلاحِ تعلیم ٹرسٹ کے زیر اہتمام گلبرگ شان اسلام ارقم سکول میں دینی مدارس کے علماء کرام کی ایک ورکشاپ میں یہ خیال سامنے آیا کہ ایک علمی مجلس ایسی ہونی چاہیے جس میں تمام مکاتب فکر کے ثقہ علماء شریک ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ جنوری ۲۰۱۰ء

معاشی نظام اور معاشرتی رویے میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت

مساجد و مدارس کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر مراعات آج کے معاشرتی ماحول میں بہت کم ملتی ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے تو یہ بہت ہی کم ہیں۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کا چند بڑے اور معیاری اداروں کو چھوڑ کر، جن کا تناسب مجموعی طور پر شاید پانچ فیصد بھی نہ ہو، ملک میں ہر جگہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امام، خطیب، مدرس، مفتی، حافظ، قاری اور مؤذن قسم کے لوگ اپنی تربیت کے لحاظ سے تنخواہ اور معاشی مفادات کے لیے احتجاج، ہڑتال، جلوس، مظاہرہ اور بائیکاٹ وغیرہ کے عادی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ و ۹ دسمبر ۲۰۰۹ء

چند روز ہانگ کانگ میں

ہانگ کانگ کی مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی دعوت پر ’’تذکرہ خیر الوریٰ‘‘ کے عنوان سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے متعدد اجتماعات میں شرکت کے لیے ۵ مارچ سے ۹ مارچ تک ہانگ کانگ میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ شجاع آباد ضلع ملتان میں ہمارے ایک بزرگ دوست مولانا رشید احمد تھے جن کا قائم کردہ مدرسہ جامعہ فاروقیہ ایک عرصہ سے تعلیمی ودینی خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء

پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات

اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۹ء

قبلِ اسلام اور ظہورِ اسلام کے بعد ادائیگیٔ حج میں فرق

حج اسلام کے بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ادا ہوتا تھا۔ بلکہ جب سے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا ہے تب سے حج کا فریضہ اب تک مسلسل ادا ہو رہا ہے اور منیٰ میں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد بھی ہر سال تازہ کی جا رہی ہے۔ اسلام نے اس فریضہ اور قربانی دونوں کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ اسے اور زیادہ تقدس و حرمت سے نوازا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ دسمبر ۲۰۰۸ء

تعلیم اور دہشت گردی : حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟

جہاں تک تعلیم کے فروغ کے لیے سختی کرنے کی ضرورت ہے ہم وزیراعظم سے اتفاق کرتے ہیں اور اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان سے گزارش کرتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ اور خواندگی کے تناسب میں اضافہ کے لیے حکومت کو سختی کے ساتھ سنجیدہ پیش رفت کرنی چاہیے۔ بلکہ وزیراعظم نے تو پرائمری کی سطح تک تعلیم کو لازمی کرنے کی بات کی ہے جبکہ ہم میٹرک تک تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس بات کو بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جس سطح تک تعلیم قانونی طور پر لازمی ہو وہاں تک تعلیم مفت بھی ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۰۸ء

وکلاء تحریک اور ہمارے مذہبی رہنما

لانگ مارچ میں ملک بھر سے وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکن شریک ہوئے، ان کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، اگرچہ پنجاب کے گورنر جناب سلمان تاثیر نے اسے ’’شارٹ مارچ‘‘ سے تعبیر کر کے اور اس کا نتیجہ ’’زیرو بٹا زیرو‘‘ بتا کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیاسی حلقے سمجھ رہے ہیں کہ وکلاء نے دستور کی بالادستی، عدلیہ کی خود مختاری اور پی سی او کے تحت معزول کیے جانے والے معزز ججوں کی بحالی کے لیے جو صبر آزما جدوجہد شروع کر رکھی ہے اس میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جون ۲۰۰۸ء

قادیانیت کے بارے میں اقبالؒ کے ارشادات

۲۶ مئی قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کا یومِ وفات ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں وفات پائی تھی جسے ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔ اور اپنے مذہب کے ایک سو سال مکمل ہو جانے پر مرزا قادیانی کے پیروکار دنیا بھر میں یہ پورا سال ’’صد سالہ تقریبات‘‘ کے عنوان سے منا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۲۰۰۸ء

اسلام وکالت کا مخالف نہیں

پشاور ہائی کورٹ کے صدر جناب لطیف آفریدی اور بعض دیگر سرکردہ وکلاء کو مبینہ طور پر القاعدہ اور طالبان کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’وکالت یہودیوں کا پیشہ ہے، چھوڑ دو ورنہ مار دیں گے‘‘۔ اس پر رد عمل کے اظہار کے طور پر خبر میں بتایا گیا ہے کہ وکالت کا پیشہ یہودیوں کی میراث نہیں ہے اور اسلام میں وکالت کا پیشہ جائز ہے۔ یہ خبر یا خط عین اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب ملک بھر کے وکلاء دستور کی بالادستی اور اعلیٰ عدالتوں کے معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی کے لیے تحریک کو منظم کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۰۸ء

بلاول بھٹو زرداری سے چند گزارشات

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی جگہ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت مکمل کرنے تک ان کے والد جناب آصف علی زرداری کو شریک چیئرمین کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، جبکہ مخدوم امین فہیم کو آئندہ وزارت عظمی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی آئندہ قیادت کے خدوخال کچھ نہ کچھ واضح ہوگئے ہیں۔ چیئرمین شپ کو بھٹو خاندان میں رکھنا ہمارے خطے کی روایتی مجبوری ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ

محترمہ بے نظیر بھٹو گزشتہ روز ایک خودکش حملہ میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ہے، ہر باشعور شہری اشک بار ہے اور اس کا دل ایک عوامی راہنما کے المناک قتل کے غم کے ساتھ ساتھ ملک اور قومی سیاست کے مستقبل کے حوالہ سے انجانے خدشات سے دوچار ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ دسمبر ۲۰۰۷ء

امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی تعلیمات

’’اسلام کے بنیادی ارکان مسلم ریاست کو کیا سبق سکھاتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے محترم افضال ریحان صاحب کے ایک حالیہ کالم کے ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کر چکا ہوں، ایک اور پہلو کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ محترم موصوف ارشاد فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا جو فریضہ ہے، اس کو جتنا بھی بڑھا لیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ و ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء

اسلامی احکامات اور حکومت کی ذمہ داری

محترم افضال ریحان صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ’’مسلم ریاست کیسی ہونی چاہیے؟‘‘ کی تمہید کے ساتھ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان (۱) کلمہ طیبہ (۲) نماز (۳) زکوٰۃ (۴) روزہ اور (۵) حج کا ذکر کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اسلام ان ہی پانچ ارکان کا نام ہے اور ان کے علاوہ باقی تمام امور ضمنی اور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۲۰۰۷ء

حدود و تعزیرات سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جسے اس غرض سے تشکیل دیا گیا تھا کہ دستور پاکستان میں ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو ضمانت دی گئی ہے، وہ اس کی تکمیل کے لیے حکومت پاکستان کی مشاورت کرے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جدید قانون کے ممتاز ماہرین اور جید علمائے کرام پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو حکومت کے استفسار پر یا اپنے طور پر ملک میں رائج کسی قانون کا اس حوالے سے جائزہ لیتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء

امریکہ میں چند دینی اور سیاحتی سرگرمیاں

ورجینیا کے علاقے اسپرنگ فیلڈ میں، جو واشنگٹن ڈی سی کا (ملحقہ) حصہ تصور ہوتا ہے، دارالہدٰی کے نام سے ایک دینی مرکز کام کر رہا ہے جس کے بانی اور سربراہ مولانا عبد الحمید اصغر ہیں۔ میری سالانہ حاضری پر وہ حدیثِ نبویؐ کے کسی نہ کسی عنوان پر پانچ سات روز کے مسلسل لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں جن میں بہت سے احباب ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۰۷ء

اسلامی نظریاتی کونسل کی علمی اشاعتیں اور ملی مجلس شرعی کا قیام

جامعہ حفصہ کے سانحہ اور دیگر اہم معاملات کے باعث دو علمی مجالس کا تذکرہ مؤخر ہوتا آ رہا ہے، اب اس کا موقع ملا ہے کہ ان کی کچھ تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں۔ ایک مجلس کا اہتمام اسلام آباد میں ۲ اگست کو اسلامی نظریاتی کونسل نے کیا، اسی روز بھوربن مری کے مدرسہ تعلیم القرآن میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ عاملہ کا اجلاس تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اگست ۲۰۰۷ء

آل پاکستان مینارٹیز الائنس کی ریلی اور چارٹر آف ڈیمانڈ

مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں پاکستانی سوسائٹی کا حصہ ہیں اور انہیں وہ تمام سیاسی اور شہری حقوق حاصل ہیں جن کی دستورِ پاکستان میں ان کے لیے ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا، اس کے لیے اجتماع کرنا، اور اپنے مطالبات پیش کرنا ان کا دستوری حق ہے اور اس پر کسی ردعمل یا مخالفانہ تبصرے کا جواز نہیں ہے۔ البتہ چارٹر آف ڈیمانڈ کی بعض باتوں کے بارے میں ہم تحفظات رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اگست ۲۰۰۷ء

وفاق المدارس العربیہ عوام کی عدالت میں

رجب ہمارے ہاں دینی مدارس کے تعلیمی نظام میں سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے۔ شوال کے وسط سے شروع ہو کر رجب کے وسط تک عام طور پر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے بعد امتحانات ہوتے ہیں اور پھر شوال کے وسط تک کے لیے سالانہ تعطیلات ہو جاتی ہیں۔ کچھ عرصے سے ان دنوں میں بخاری شریف کے اختتام کی تقریبات کثرت کے ساتھ ہونے لگی ہیں۔ بخاری شریف درس نظامی کے تعلیمی نصاب میں آخری کتاب ہے جس کی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ ہی طالب علم امتحان میں کامیابی کی صورت میں سند فراغت کے مستحق ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اگست ۲۰۰۷ء

توہین رسالتؐ اور آزادیٔ رائے کے حوالہ سے مغرب کا افسوسناک رویہ

ملکۂ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے سلمان رشدی کو نائٹ ہڈ (سر) کا خطاب دے کر مسلمانوں کے پرانے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے اور اس پر عالم اسلام میں احتجاج کی ایک نئی لہر شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکۂ برطانیہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک ایک انتہائی قابل نفرت شخص کو اس اعزاز کے لیے کس بنیاد پر چنا ہے اس کی باقاعدہ وضاحت تو وہی کر سکتی ہیں لیکن ایک عام مسلمان کا دنیا کے کسی بھی خطے میں تاثر یہی ہے کہ اس سے سلمان رشدی کی ان خرافات کی ملکۂ برطانیہ کی طرف سے تائید جھلکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۷ء

جامعہ اشرفیہ لاہور کے ساٹھ سال

جامعہ اشرفیہ لاہور اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کر کے ساتویں عشرہ میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارہ جو صرف ایک درسگاہ اور ادارہ نہیں بلکہ تحریک ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کی جدوجہد کا وارث بھی ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ کا شمار برصغیر کے ان نامور علماء کرام میں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اپریل ۲۰۰۷ء

مسلم معاشروں میں خواتین کے حقوق ۔ مسٹر ڈیوڈ کے سوالات

مسٹر ڈیوڈ نیویارک کے رہنے والے ہیں، امریکہ کے معروف جریدے ’’کرسچین مانیٹر‘‘ سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ محترمہ ظل ہما عثمان کے افسوسناک قتل کے حوالے سے مختلف حلقوں کے تاثرات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ دنوں گوجرانوالہ آئے ہوئے تھے۔ ہمارے محترم دوست راشد بخاری اور عبد الحفیظ طاہر اُن کے ہمراہ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مارچ ۲۰۰۷ء

’’روشن خیالی‘‘ پر ایک نظر

افضال ریحان صاحب ہمارے محترم اور دانشور کالم نویس ہیں جو وسیع تر مطالعہ کی روشنی میں اپنے تاثرات اور خیالات سے قارئین کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ میں بھی ان کے کالموں کا اکثر مطالعہ کرتا ہوں اور بہت سی باتوں سے استفادہ کرتا ہوں، جبکہ بعض امور سے اختلاف بھی ہوتا ہے جو فطری امر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ فروری ۲۰۰۷ء

شراب پر پابندی کا قانون ختم کرنے کی مہم

وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے شراب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے بعض دوست اتفاقی بات سمجھ رہے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ جس انداز میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ شراب نوشی پر پابندی کا قانون ختم کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے اور اس کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ فروری ۲۰۰۷ء

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاحی تدابیر

۳، ۴، ۵ فروری ۲۰۰۷ء کو جامعہ سید احمد شہیدؒ لکھنؤ (انڈیا) میں برصغیر کے دینی نصاب و نظام کے حوالے سے منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ (پاکستان) میں اس سیمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نشست ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم کی زیر صدارت ۳ فروری ۲۰۰۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ فروری ۲۰۰۷ء

پانی ہمیشہ نچلی جانب ہی بہتا ہے!

پنجاب کے دو اعلیٰ ترین افسروں کی کھلی کچہریوں کی اخباری رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے۔ چیف سیکرٹری جناب سلمان صدیق اور آئی جی پولیس چودھری احمد نسیم نے کھلی کچہریاں لگا کر عوام کی شکایات سنی ہیں اور بہت سے لوگوں کی داد رسی کے لیے موقع پر احکامات جاری کیے ہیں۔ ہماری دونوں سے پرانی یاد اللہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم فروری ۲۰۰۷ء

گوجرانوالہ شہر کی فریاد

گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے سرکٹ ہاؤس میں ضلعی امن کمیٹی کا اجلاس تھا اور محرم الحرام کے سلسلہ میں انتظامات زیربحث تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ڈی سی او صاحب کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام بھی شریک تھے۔ محرم الحرام سے قبل اس قسم کا اجلاس ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ عشرۂ محرم الحرام کے دوران اہلِ تشیع کے جو جلوس وغیرہ ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۰۷ء

مذہبی انتہا پسندی کے اسباب اور اس کا علاج

برطانیہ کی انتظامیہ کا مسلمانوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے مسلم نوجوانوں کے جذبات اور مبینہ طور پر ان کی انتہا پسندی کو کنٹرول میں رکھنا ہے، تاکہ انتظامی مسائل پیدا نہ ہوں اور اس سلسلے میں مشکلات کم ہوں۔ آج جبکہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، میرے سامنے لندن میں شائع ہونے والا ایک اردو اخبار پڑا ہے جس کی اہم خبر یہ ہے کہ برطانوی حکومت لوکل اتھارٹیز کو پانچ ملین پونڈ اس مقصد کے لیے دے رہی ہے کہ وہ نوجوان مسلمانوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے روکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ جنوری ۲۰۰۷ء

صدام حسین اور عرب قومیت

عید قربان پر سابق عراقی صدر صدام حسین امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انا کی سولی پر لٹک گئے اور اتحادیوں نے عید کے روز عراقی عوام اور امت مسلمہ کو صدام حسین کی لاش کا تحفہ دے کر ایک بار پھر دنیا کو بتا دیا کہ مسلم دنیا میں امریکہ کی ’’ون قطبی طاقت‘‘ کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اتحادی جب چاہیں اپنے باغیوں کی گردن میں پھندا فٹ کر کے انہیں زندگی کے حق سے محروم کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۲۰۰۷ء

تحفظ حقوق نسواں بل: قرآن و سنت سے متصادم دفعات عوام کو منظور نہیں

قومی اسمبلی نے ”تحفظ حقوقِ نسواں بل“ منظور کر لیا ہے، جس کے بارے میں وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر کا کہنا ہے کہ یہ سلیکٹ کمیٹی کا منظور کردہ نہیں ہے، جبکہ قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن کا ابتدائی تبصرہ یہ ہے کہ یہ بل نہ سلیکٹ کمیٹی والا ہے اور نہ ہی علماء کی سفارشات والا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس: تاثرات و خیالات

حدود آرڈیننس کے بارے میں آزاد کشمیر کی عدلیہ اور رفقاء سے تعلق رکھنے والے تین حضرات کے تاثرات اور تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے ان کے خیالات گزشتہ کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ اب پنجاب کے ایک ضلع میں عدالتی خدمات سرانجام دینے والے حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے تاثرات انہی کے قلم سے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ نومبر ۲۰۰۶ء

تحفظِ حقوقِ نسواں بل: سسٹم کو درست کیا جائے

حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل کی بحث پھر سے قومی حلقوں میں شدت اختیار کرنے والی ہے، اس لیے کہ ۱۰ نومبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جس کے بارے میں وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ اس میں تحفظ حقوق نسواں بل کو سلیکٹ کمیٹی کی تجویز کردہ صورت میں منظور کر لیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۰۶ء

تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے بارے میں خصوصی علماء کمیٹی کا موقف

حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم اور قومی اسمبلی میں زیر بحث تحفظ حقوقِ نسواں بل کے بارے میں (۱) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، (۲) مولانا حسن جان، (۳) مولانا مفتی منیب الرحمٰن، (۴) مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، (۵) مولانا مفتی غلام الرحمٰن، (۶) مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور (۷) راقم الحروف ابو عمار زاہد الراشدی پر مشتمل جو ”خصوصی علماء کمیٹی“ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ و ۵ اکتوبر ۲۰۰۶ء

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ رپورٹ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء سے اسلام کی دعوت و تبلیغ، اسلام مخالفت لابیوں کی نشان دہی اور ان کی سرگرمیوں کے تعاقب، اسلامی احکام و قوانین پر کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کے ازالہ، دینی حلقوں میں باہمی رابطہ و مشاورت کے فروغ اور نوجوان نسل کی فکری و علمی تربیت و راہ نمائی کے لیے مصروف کار ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء

تحفظِ حقوقِ نسواں بل اور خصوصی علماء کمیٹی

احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح رضامندی کے زنا پر حدِ شرعی جاری کی ہے، اسی طرح جبری زنا کے ایک کیس میں بھی مجبور کی جانے والی خاتون کو بری کر کے جبر کرنے والے مرد پر شرعی حد جاری کی تھی۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عملی فیصلے کے بعد اس سلسلہ میں مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ ستمبر ۲۰۰۶ء

پاکستانی معاشرے میں عورت کی مظلومیت کی معروضی صورتحال

مذاکرات کی تفصیلی کہانی تو آئندہ ایک دو کالموں میں ان شاء اللہ تعالیٰ بیان کروں گا، مگر اس کے پہلے مرحلے کے طور پر علمائے کرام کی ان تجاویز اور سفارشات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، جو انہوں نے تحفظ حقوق نسواں بل پر متحدہ مجلس عمل کے تحفظات کے حوالے سے حکمران جماعت اور وزارت قانون کے ذمہ دار افراد کے ساتھ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس اور الطاف حسین کا بیان

حدود آرڈیننس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاقی وزیر جناب شیر افگن کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، پیر کو حقوق نسواں کے تحفظ کا بل جو دراصل حدود آرڈیننس میں ترمیمات کا بل ہے، بہرصورت منظور کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور متحدہ مجلس عمل نے باہمی اتفاق سے عملی سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے چند علمائے کرام کو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ء

قائد کا تصورِ پاکستان: قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت

قائد اعظم محمد علی جناحؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے وہ عظیم سیاسی رہنما ہیں جن کی کوششوں سے پاکستان کے نام پر اس وقت ایک ایسی اسلامی سلطنت وجود میں آئی، جب دنیا بھر میں ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق ختم کرنے کا سلسلہ عروج پر تھا، حتیٰ کہ اسلامی خلافت کی نمائندگی کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ بھی اپنا وجود کھو چکی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جولائی ۲۰۰۶ء

’’نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ جدید مسائل اور اجتہاد‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جسے اس غرض سے تشکیل دیا گیا تھا کہ دستورِ پاکستان میں ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کی تکمیل کے لیے حکومتِ پاکستان کی مشاورت کرے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جدید قانون کے ممتاز ماہرین اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو حکومت کے استفسار پر یا اپنے طور پر ملک میں رائج کسی بھی قانون کا اس حوالے سے جائزہ لیتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جولائی ۲۰۰۶ء

مہنگائی، قوتِ خرید اور طبقاتی کلچر

تین خبریں بظاہر ایک دوسرے سے الگ نظر آتی ہیں مگر خدا جانے کیوں مجھے ایک سی لگتی ہیں: ایک یہ کہ وزیر اعظم نے بجٹ کے موقع پر عوام کو خوشخبری دی ہے کہ دالیں کچھ سستی ہو گئی ہیں۔ دوسری یہ کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس شکایت کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے کہ ارکانِ اسمبلی کو ایک روز ناشتہ میں جو حلوہ دیا گیا اس میں ریت پائی گئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جون ۲۰۰۶ء

امریکی مفادات اور اسلام آباد کی کمٹمنٹ

’’آن لائن‘‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس نے اپنی حالیہ رپورٹ میں امریکی مفادات کے حوالے سے اسلام آباد کی کمٹمنٹ کو بعض معاملات میں مشکوک قرار دیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی بنا، تاہم بعض اہم امریکی مفادات کے بارے میں اسلام آباد کی ک مکمل تحریر

۲۸ فروری ۲۰۰۶ء

وراثت میں عورتوں کا حصہ اور عدالتِ عظمیٰ کے ریمارکس

روزنامہ پاکستان کی ۷ فروری ۲۰۰۶ء کی ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ مرد ورثاء مختلف طریقوں سے ان کی جائیداد اپنے نام کرا لیتے ہیں۔ اسلام نے خواتین کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کر رکھا ہے مگر خواتین اپنے رشتہ داروں کے زیر اثر خود ہی اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ فروری ۲۰۰۶ء

ڈاکٹر یوگندر سکند کے خیالات

بھارت کے معروف دانشور ڈاکٹر یوگندرسکند گزشتہ دنوں پاکستان آئے، چند روز لاہور میں قیام کیا، حیدر آباد اور دیگر مقامات پر بھی گئے، دو دن ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں قیام کیا، الشریعہ اکادمی کی ایک نشست میں سرکردہ علماء کرام اور اساتذہ و طلبہ سے بھارت کی مجموعی صورتحال خاص طور پر مسلمانوں کے حالات پر گفتگو کی اور مختلف حضرات سے ملاقاتوں کے بعد بھارت واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر یوگندرسکند کے والد سکھ تھے، والدہ کا تعلق ہندو خاندان سے تھا اور خود اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جنوری ۲۰۰۶ء

ایک تبلیغی دورے کی سرگزشت

تبلیغی جماعت کی برکت سے مجھے عید الاضحی کے بعد دو دن ماڈل ٹاؤ ن لاہور کے علاقے میں گزارنے کا موقع ملا۔کبھی کبھی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگایا کرتا ہوں جس کا ایک مقصد تو اس کارِ خیر کے ساتھ نسبت اور تعلق قائم رکھنا ہوتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بہت سے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور دینی جدوجہد کے نئے رجحانات سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ پروگرام کے مطابق مجھے عیدالاضحی کے بعد جمعہ کے روز شام کو گوجرانوالہ سے علمائے کرام کی ایک بڑ ی جماعت کے ساتھ لاہور پہنچنا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جنوری ۲۰۰۶ء

بھٹو مرحوم ۔ مخالفین کا خراجِ عقیدت

گزشتہ روز ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سالگرہ منائی گئی اور قوم کے مختلف طبقات اور جماعتوں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کی قومی خدمات کو سراہنے والوں میں ان کے سیاسی کارکن اور ساتھی بھی تھے اور ان حضرات نے بھی اس سلسلے میں بخل سے کام نہیں لیا جو ان کی زندگی میں ان کے مخالف سیاسی کیمپ میں رہے ہیں بلکہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ بھٹو مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے ربع صدی سے بھی زیادہ عرصے کے بعد انہیں اس انداز سے یاد کیا جانا جہاں پاکستان کی قومی سیاست میں ان کے انمٹ کردار کا اعتراف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۶ء

تعلیمی نصاب ۔ اسلامی کانفرنس کا معذرت خواہانہ موقف

مکہ مکرمہ میں منعقدہ مسلم سربراہ کانفرنس کے حالیہ غیر معمولی اجلاس کے فیصلوں میں ایک اعلان یہ بھی تھا کہ مسلم ممالک اپنے اپنے نصاب تعلیم میں تبدیلی کریں گے۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ مسلم دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں معاصر اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اس کوتاہی کی گزشتہ دو صدیوں سے خوفناک سزا بھگت رہی ہے، اس سلسلہ میں ہمارے حکمرانوں کو کچھ احساس ہوگیا ہوگا اور انہوں نے باہم مل بیٹھ کر یہ طے کیا ہوگا کہ اس کی تلافی کے لیے کوئی راستہ اختیار کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۲۰۰۵ء

قانون سازی کا اختیار اور غامدی صاحب

جس طرح بہت سی دواؤں کا سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور ماہر معالجین اس سے تحفظ کے لیے علاج میں معاون دوائیاں شامل کر دیتے ہیں، اسی طرح بہت سی باتوں کا بھی سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور سمجھدار لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کسی بات سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے تو وہ اس کا ازالہ بھی اپنی اسی گفتگو میں کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۵ء

سردار عبد القیوم خان سے ملاقات

سردار محمد عبد القیوم خان کے ساتھ میری علیک سلیک اس دور سے ہے جب وہ ممتاز کشمیری لیڈر چودھری غلام عباس خان مرحوم کے رفیق کار کی حیثیت سے کشمیری سیاست میں آگے بڑھ رہے تھے۔ میری جماعتی زندگی (جمعیۃ علماء اسلام) کا ابتدائی دور تھا اور ان کا عنفوان شباب تھا۔ گوجرانوالہ میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے سرگرم راہ نما مولانا عبد العزیز راجوروی مرحوم ہمارے ساتھ دینی تحریکات میں متحرک رہتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ اکٹھے جیل بھی گزاری ہے، بڑے زندہ دل اور دلیر سیاسی راہ نما تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ نومبر ۲۰۰۵ء

امدادی سامان کی تقسیم: رابطے اور نظم کی ضرورت

زلزلہ زدہ علاقوں کے چار روزہ دورے کے حوالے سے مختصر رپورٹ کچھ تاثرات کے ساتھ اس کالم میں اس سے قبل پیش کر چکا ہوں، اسی سلسلے میں کچھ مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔ عام لوگوں کی یہ شکایت اس سے قبل بار بار ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ ان تک حکومتی اداروں کی رسائی بہت دیر سے ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۲۰۰۵ء

زلزلے کی تباہ کاریاں: آئندہ کی ترجیحات

عید الفطر کے بعد آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے بعض زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور سے پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر شریک سفر تھے، بلکہ سارا سفر انہی کی گاڑی پر ہوا۔ گوجرانوالہ سے ڈاکٹر محمد رفیق میر ساتھ ہو گئے۔ کچھ ساتھی قاری صاحب کے ہمراہ بھی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۰۵ء

آفاتِ سماوی احادیثِ رسولؐ کی روشنی میں

کسی مسئلہ پر قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کا مطالعہ کرنے سے قبل اگر ہمارے ذہن میں پہلے سے ایک رائے جگہ پکڑ چکی ہو، اور اس کو سامنے رکھ کر ہم قرآن پاک اور حدیثِ نبویؐ کا مطالعہ کرنا چاہیں تو اکثر اوقات الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں، پھر اس الجھن کو اپنی عقل و فہم کے ساتھ دور کرنے کی کوشش اس میں مزید اضافہ کرتی چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ و ۱۲ نومبر ۲۰۰۵ء

شرعی سزائیں اور مغربی فلسفہ

گزشتہ ہفتے بریڈ فورڈ، برطانیہ کے ’’ریڈیو رمضان‘‘ کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے فرمائش ہوئی کہ ان کے سامعین سے ٹیلیفون کے ذریعے ’’اسلام کی مقرر کردہ سزائیں اور ان پر شکوک و اعتراضات‘‘ کے حوالے سے گفتگو کروں۔ یہ گفتگو سوالات و جوابات سمیت ایک گھنٹہ سے زیادہ جاری رہی جو براہ راست نشر کی گئی۔ اس کے اہم حصوں کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اکتوبر ۲۰۰۵ء

قدرتی آفات کا ضابطہ اور اسوۂ نبویؐ

محترم ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب نے ایک اخباری انٹرویو میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصوں میں آنے والے زلزلے کے بارے میں یہ نہ کہا جائے کہ یہ لوگوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں آیا ہے، اس لیے کہ جو لوگ اس زلزلے کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں ان کی اکثریت دیندار لوگوں کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ اکتوبر ۲۰۰۵ء

زلزلہ: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تشویش

میں ۱۰ ستمبر کو امریکہ پہنچا تھا۔ ۱۰ اکتوبر کو وہاں سے لندن واپسی ہوئی اور اس وقت ساؤتھ لندن میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ امریکہ میں ایک ماہ کے قیام کے دوران نیویارک کے علاقوں بروک لین، کوئینز اور لانگ آئی لینڈ، ورجینیا کے علاقے سپرنگ فیلڈ اور اس کے علاوہ اٹلانٹا، برمنگھم، بالٹی مور، واشنگٹن ڈی سی، نیو جرسی اور دیگر علاقوں میں مختلف دینی اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء

عالمی یہودی کانگریس سے صدر مشرف کا خطاب

صدر جنرل پرویز مشرف نیویارک کے ہنگامہ خیز دورے سے واپس پہنچ کر اسلام آباد میں اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں مگر نیویارک میں ان کے دورے کے حوالے سے مختلف امور پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کی نجی محفلوں کے علاوہ نیویارک سے شائع ہونے والے مقامی اردو اخبارات میں صدر پرویز مشرف کی باتوں پر دلچسپ تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ یہ اخبارات اگرچہ زیادہ تر اشتہارات پر مشتمل ہوتے ہیں اور مساجد اور اسٹوروں میں مفت تقسیم کیے جاتے ہیں لیکن پاکستانی کمیونٹی کے ایک بڑے حصے میں پڑھے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء

جائے سانحہ گیارہ ستمبر پر کچھ وقت

۱۱ ستمبر کو میں نیویارک میں تھا، اس دن میں نے اپنے میزبان دوستوں مولانا حافظ محمد اعجاز، بھائی برکت اللہ اور بھائی یامین کے ساتھ مین ہیٹن کے اس علاقے کا چکر لگایا جہاں آج سے چار برس پہلے تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دو بلند و بالا عمارتیں پورے کروفر کے ساتھ کھڑی تھیں۔ وہاں ہم نے بے شمار ٹولیوں کو گھومتے اور ان مرنے والوں کی یاد مناتے دیکھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۰۵ء

جنرل پرویز مشرف کا دورۂ امریکہ: چند گزارشات

صدر جنرل پرویز مشرف آئندہ ماہ امریکہ جا رہے ہیں جہاں وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے، متعدد عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کریں گے اور اخباری اطلاعات کے مطابق وہ یہودیوں کی ایک آرگنائزیشن کے تحت پروگرام میں بھی شریک ہوں گے جہاں وہ اسلام میں اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر گفتگو کریں گے۔ جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اس حوالے سے خاصا اہم ہے کہ اس میں اقوام متحدہ کے نظام میں بعض اہم اصلاحات زیر غور آنے والی ہیں جن میں سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع بھی شامل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اگست ۲۰۰۵ء

مسلم امہ اور مغربی حکمرانوں کا طرزِ عمل

لندن بم دھماکوں کے بعد جب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنے ابتدائی ردِعمل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی موجودہ صورت حال کو ناکافی قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے اسباب کا جائزہ لینے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا تو دنیا بھر میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جولائی ۲۰۰۵ء

طالبانائزیشن اور امریکنائزیشن!

سرحد اسمبلی نے دو دن کی بحث کے بعد ’’حسبہ بل‘‘ ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ کی اکثریت سے منظور کر لیا ہے، جبکہ وفاقی حکومت نے اسے دستور میں بنیادی حقوق کے بارے میں دی گئی ضمانت کے منافی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر نے کہا ہے کہ حسبہ بل ملک میں انارکی پھیلانے اور جمہوریت کو ناکام بنانے کا ذریعہ بنا ہے، جسے موجودہ جمہوری حکومت ہرگز کامیاب نہیں ہونے دے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جولائی ۲۰۰۵ء

محکمہ ڈاک اور پی آئی اے کی ’’حسن کارکردگی‘‘

محکمہ ڈاک اور پی آئی اے کے بارے میں اپنی ان تازہ شکایتوں کا قارئین سے تذکرہ تو کر دیا ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ باضابطہ شکایت کس سے کروں؟ جی چاہتا ہے کہ یہ شکایت امریکی سفیر محترمہ کرسٹینا روکا سے کروں کہ وہ ان دنوں ہماری ’’وزیر امور ہند‘‘ ہیں۔ ان سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ہم پر انگریزوں نے بھی ڈیڑھ دو سو برس حکومت کی ہے اور آزادی اور خودمختاری کے لیے ان سے ہماری کشمکش جاری رہتی تھی مگر محکمانہ نظام اور سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا معیار انہوں نے قائم رکھا ہوا تھا جسے اب تک یہاں کے لوگ یاد کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۲۰۰۵ء

برطانیہ میں مسلمانوں کی دینی تعلیم کا مربوط سلسلہ

برطانیہ کا اس سال کا گرم ترین ویک اینڈ میں نے بہت مصروف گزارا۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ ۱۹ جون کا اتوار اس موسم کا گرم ترین دن ہو گا۔ چنانچہ اس روز لندن کا درجہ حرارت ۳۳ سینٹی گریڈ تھا، مگر گرمی کے آثار ایک دو روز پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ لیسٹر کے مولانا محمد فاروق مُلا نے مجھے پابند کر رکھا تھا کہ ۱۸ جون کو ہفتہ کا دن ان کے ساتھ گزاروں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جون ۲۰۰۵ء

اسلامی اصولِ فقہ کا خط و کتابت کورس

اسلامی علوم میں ’’اصول فقہ‘‘ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس علم میں ان اصول و ضوابط پر بحث کی جاتی ہے جن کے ذریعے قرآن و سنت سے احکام و مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین و ضوابط کی درجہ بندی اور تشریح کی جاتی ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے ’’اصول قانون‘‘ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے، لیکن آج کے معروف اصول قانون کی بہ نسبت ’’اصول فقہ‘‘ کا دائرہ زیادہ وسیع اور اس کے پہلو زیادہ متنوع ہیں۔ البتہ اس کی بنیادی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اسے ’’اصول قانون‘‘ کی اصطلاح میں بیان کر دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مئی ۲۰۰۵ء

گوجرانوالہ میراتھن ریس: کھلی عدالتی تحقیقات ضروری ہے

گوجرانوالہ میں تین اپریل کو میراتھن ریس کے موقع پر پولیس اور مجلس عمل کے مظاہرین کے درمیان جو تصادم ہوا، اس پر ملک بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے، اس پر سب متفق ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۲۰۰۵ء

اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کی بے بسی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب کوفی عنان نے ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں متعدد اصلاحات کی تجویز پیش کی ہے اور کم و بیش باسٹھ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں اس عالمی ادارے میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اپریل ۲۰۰۵ء

”گوجرانوالہ بناؤ تحریک“ ایک خوش آئند اور ضروری اقدام

گوجرانوالہ میرا شہر ہے۔ میرا بچپن، جوانی اور اب بڑھاپا اسی شہر کے در و دیوار سے شناسا چلے آ رہے ہیں۔ میری پیدائش گکھڑ کی ہے، مگر ننھیال گوجرانوالہ شہر میں ہونے کی وجہ سے بچپن کا ایک بڑا حصہ اس شہر کی گلیوں سے مانوس رہا ہے۔ میرے نانا مولوی محمد اکبر مرحوم ریلوے سٹیشن کے قریب رام بستی کی ایک مسجد کے امام تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مارچ ۲۰۰۵ء

فہمِ قرآن کے تقاضوں کے حوالے سے ایک بحث

فہمِ قرآن کریم کے تقاضوں کے حوالے سے ان دنوں دو علمی حلقوں میں ایک دلچسپ بحث جاری ہے۔ ایک طرف غلام احمد پرویز صاحب کا ماہنامہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ ہے اور دوسری طرف جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب ہیں۔ طلوعِ اسلام کے ماہِ رواں کے شمارے میں خورشید ندیم صاحب کا ایک مضمون، جس میں انہوں نے پرویز صاحب کی فکر پر تنقید کی ہے، شائع ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ فروری ۲۰۰۵ء

چودھری شجاعت حسین کا شکریہ اور دو گزارشات

یہ خاندانی مزاج کا اثر ہے یا تعلیم و تربیت کے ماحول کا ثمرہ کہ حکمرانوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کو بحمد اللہ تعالیٰ کبھی جی نہیں چاہا ور اگر کبھی خودبخود مواقع پیدا ہوئے ہیں تو بھی معاملے کے دائرے کو محدود رکھنے ہی کی کوشش کی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں پاکستان قومی اتحاد شامل ہوا تو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۲۰۰۴ء

مذہب کا خانہ اور دستورِ پاکستان کا تقاضا

ان دنوں پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کے خاتمے پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر ۱۸ دسمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس طلب کر لی ہے۔ پاکستان کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ آج سے ربع صدی قبل اس وقت شامل کیا گیا تھا، جب ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۲۰۰۴ء

حدود و قوانین اور مغرب کا معاندانہ رویہ

صدر جنرل پرویز مشرف کے اس بیان پر ملک کے دینی حلقوں میں خاصی لے دے ہو رہی ہے کہ وہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطالبہ مان کر غریب عوام کو ٹنڈا نہیں کر سکتے۔ بہت سے دینی رہنماؤں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کے احکام کے بارے میں نامناسب زبان بول رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۰۴ء

رائے ونڈ کا اجتماع: تبلیغِ دین کا ذریعہ

رائے ونڈ کا سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع ۱۸ نومبر جمعرات کی شام شروع ہوا، جو اتوار کو دوپہر تک جاری رہے گا اور اختتامی دعا کے بعد مختلف علاقوں کے لیے تشکیل دی جانے والی دعوت و تبلیغ کی جماعتیں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں گی۔ یہ اجتماع ہر سال ہوتا ہے اور اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے علمائے کرام، دینی کارکن اور مبلغین شریک ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ نومبر ۲۰۰۴ء

اسلامی شریعت اور بین الاقوامی انسانی حقوق

اکتوبر ۲۰۰۴ء کے اوائل میں اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور ریڈ کراس کے زیر اہتمام ’’متاثرین کا تحفظ: اسلامی شریعت اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر دو روزہ سیمینار ہوا، جس میں شرکت کی مجھے بھی دعوت تھی، مگر میں بیرون ملک سفر کی وجہ سے سیمینار میں شریک نہ ہو سکا۔ البتہ اپنی معروضات تحریری صورت میں منتظمین کو لندن سے بھجوا دیں، جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۲۰۰۴ء

جارج ڈبلیو بش کی کامیابی اور عالمِ اسلام

جارج ڈبلیو بش (George Walker Bush) دوسری مدت کے لیے امریکہ کے صدر منتخب ہو چکے ہیں اور ان کے حریف جان کیری نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی ہے۔ اس پر حسبِ توقع دنیا بھر میں تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، فتح کے اسباب کا ذکر ہو رہا ہے اور مستقبل کے نقشے کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ نومبر ۲۰۰۴ء

اقوامِ عالم کا ہائیڈ پارک

جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ ہے، جہاں دنیا بھر کی حکومتوں کے سربراہوں اور نمائندوں کو سال میں ایک بار دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کھل کر دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک فیصلوں اور اختیارات کا تعلق ہے، وہ صرف سلامتی کونسل کے پاس ہیں، اس میں بھی ویٹو پاور رکھنے والے پانچ مستقل ارکان ہی حقیقی اختیارات کا سرچشمہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۲۰۰۴ء

سعودی عرب کی عمرہ پالیسی اور پاکستانی ایجنٹ

یہ سطور مدینہ منورہ میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ ۱۹۹۸ء کے بعد چھ سال کے وقفے سے یہاں حاضری ہوئی ہے۔ ۱۹۸۴ء سے معمول تھا کہ ہر دوسرے یا تیسرے سال لندن سے واپسی پر حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل ہو جایا کرتی تھی مگر سعودی عرب کی نئی عمرہ پالیسی کی وجہ سے اب یہ آسان نہیں رہا۔ پہلے لندن میں سعودی سفارت خانہ وزٹ پر برطانیہ آنے والوں کو واپسی پر سعودی ایئرلائن کے ذریعے سفر کی صورت میں عمرے کا ویزا دے دیا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ ستمبر ۲۰۰۴ء

’’ورلڈ کونسل آف ریلیجئنز فار جسٹس اینڈ پیس‘‘

دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ قیادت نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں متعلقہ مسائل پر اپنے موقف سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ اور صدر پرویز مشرف نے انہیں ایک بار پھر یقین دلایا کہ دینی مدارس کے نظام میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور ان پر اچانک چھاپے نہیں مارے جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء

حسبہ ایکٹ: اہداف و مقاصد

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ’’حسبہ ایکٹ‘‘ اس وقت قومی حلقوں میں زیرِ بحث ہے، اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر مختلف اطراف سے اظہار خیال کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے، یہ نہ صرف کسی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کا حصہ بھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ ستمبر ۲۰۰۴ء

جامعہ اسلامیہ انجراء: ایک خاندان کا کارنامہ

جنگل میں منگل کا محاورہ تو بچپن سے سن رکھا ہے، مگر اس کی صحیح تصویر ۲۵ اگست کو ضلع اٹک کے تھانہ انجراء کے صدر مقام پر پراچہ برادری کے قائم کردہ دینی دارالعلوم کو دیکھ کر سامنے آئی۔ راولپنڈی سے کوہاٹ جاتے ہوئے جنڈ کے مقام پر مین سڑک کوہاٹ کی طرف مڑ جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف مکھڈ شریف اور انجراء کی طرف سڑک جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم ستمبر ۲۰۰۴ء

جبر کی حکومتوں کی ملی روایت؟

ایک محفل میں عالمِ اسلام کی موجودہ صورتحال پر گفتگو ہو رہی تھی اور مسلم ممالک پر جبر اور طاقت کے ذریعے مسلط ہونے والی حکومتوں کا ذکر ہو رہا تھا کہ ایک صاحب نے کہا، ہمارے ہاں یہ پرانی روایت چلی آ رہی ہے کہ عوام کی رائے کی پروا کیے بغیر جبر کی حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں اور پھر انہیں سندِ جواز بھی فراہم ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اگست ۲۰۰۴ء

اسلامی نظام میں رائے عامہ کی حیثیت

ہجری مہینہ جمادی الثانی ختم ہو چکا اور ماہ رجب المرجب کا آغاز ہو گیا ہے۔ جمادی الثانی کے دوران خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا، اس مناسبت سے اس ماہ کے دوران ان کی یاد میں اجتماعات کا انعقاد ہوا، ان کی ملی و دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اگست ۲۰۰۴ء

غیرت کے نام پر قتل اور اسلامی نظریاتی کونسل

وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے غیرت کے نام پر قتل اور الزام تراشی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں جو قانون تجویز کیا جائے گا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بھجوایا جائے گا۔ غیرت کے نام پر قتل اور ’’کاروکاری‘‘ کا معاملہ ایک عرصہ سے ہمارے قومی حلقوں میں زیر بحث ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اگست ۲۰۰۴ء

’’دینی مدارس میں تحقیق و صحافت: موجودہ صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد ملک کے محبِ وطن اسلامی حلقوں کی طرف سے تبریک و شکریہ کا مستحق ہے کہ تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں وہ ایک بڑے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اپنے قیام کے بعد سے پندرہ سال کے عرصہ میں خاصا کام کر چکا ہے۔ مطالعہ و تحقیق، تجزیہ اور ریسرچ کے ادارے زندہ قوموں کی ضرورت اور علامت ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۲۰۰۴ء

سرحد میں نظامِ صلوٰۃ کے قیام کے اعلان پر منفی تبصرے کیوں؟

ایک کہاوت مختلف حوالوں سے بیان ہوتی آ رہی ہے کہ کسی صاحب کو اپنے بازو پر شیر کی تصویر بنوانے کا شوق چرایا تو انہوں نے ایک گودنے والے کی خدمات حاصل کیں، جو سوئی سے جسم پر نقشے کے مطابق سوراخ کر کے ان میں رنگ بھرتا اور جلد پر تصویر نقش ہو جاتی۔ گودنے والے نے سوئی سنبھالی اور ان صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اپنا کام شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء

کیا یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے نہیں تھے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ نسل انسانی کے گناہوں کے کفارے میں سولی چڑھ گئے تھے اور انہیں سولی کی یہ سزا یہودیوں نے دلوائی تھی۔ اہل اسلام کے نزدیک یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہو سکے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۴ء

ارکان پارلیمنٹ کے نام مولانا منظور احمد چنیوٹی کا خط

مولانا منظور احمد چنیوٹی تحریک ختم نبوت کے سرگرم راہنماؤں میں سے ہیں۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے اس محاذ پر مسلسل مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے زندگی اسی مشن کے لیے وقف کر رکھی ہے اور ہمہ وقت اسی فکر اور دھن میں مگن رہتے ہیں۔ چناب نگر اور چنیوٹ کے درمیان صرف دریائے چناب حائل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۲۰۰۴ء

انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی علمی و فکری بنیاد کیا ہو گی؟

صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے بارے میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر غیرت کے نام پر قتل، حدود آرڈیننس، اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کا ذکر چھیڑا، اور مروجہ قوانین پر نظرثانی کی حمایت کرتے ہوئے ایک بااختیار قومی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لے گا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مئی ۲۰۰۴ء

حضور نبی کریم ﷺ کا پیغام

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ اور شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ حالات و واقعات کے حوالے سے، ارشادات و اقوال کے حوالے سے، یا ہدایات و فرمودات کے حوالے سے رسول اکرمؐ کا تذکرہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں نہ ہو رہا ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۲۰۰۴ء

گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی سرپرستی میں اجتماعی شادیوں کا سلسلہ

گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول کچھ عرصہ سے اجتماعی شادیوں کی سرپرستی میں مصروف ہیں، اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی اس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہو گئے ہیں، بلکہ گزشتہ دنوں لاہور میں اجتماعی شادیوں کے حوالے سے ایک تقریب میں صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی شرکت کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۲۰۰۴ء

اسرائیلی وزیراعظم کا منصوبہ اور امریکی صدر کی منظوری

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر، اور اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ایک بڑے حصے پر اسرائیلی قبضے کے بارے میں اسرائیل کے موقف کی جس حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اپریل ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے اہداف و مقاصد، مائیکل سیمپل کی گوجرانوالہ آمد

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دفتر کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ ۱۸ مارچ جمعرات کو اسلام اباد سے کسی این جی او کا ایک وفد مدرسہ دیکھنے آرہا ہے، آپ کو بھی موجود رہنا چاہیے۔ میرا معمول یہ ہے کہ صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک مدرسے میں میرے اسباق ہوتے ہیں اس کے بعد گھر واپس آجاتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر اس دوران وفد آگیا تو میں شریک ہو جاؤں گا لیکن جب جمعرات کو دس بجے کے لگ بھگ یہ وفد پہنچا تو معلوم ہوا کہ برطانوی ہائی کمیشن کے حضرات ہیں اور ان کے ساتھ ’’انسان‘‘ نامی ایک این جی او کے چند ساتھی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء

اسلام کی ناقابل تبدل تعلیمات

’’آن لائن‘‘ کے حوالے سے شائع شدہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سمیت بیشتر ممالک کے دینی مدارس اور سکول بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں اور امریکہ کو ان کے بارے میں تشویش ہے۔ یہ بات انہوں نے امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کے بارے میں کمیٹی کے اجلاس میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۲۰۰۴ء

اسلام کا تصورِ جہاد

جہاد کے حوالے سے ایک اور مسئلہ بھی مختلف حضرات کے لیے ذہنی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے کہ یہ مذہب اور عقیدہ کے لیے طاقت کا استعمال ہے، جبکہ عقیدہ کے لیے طاقت کا استعمال اب دنیا میں متروک ہو چکا ہے۔ آج کی دنیا میں رائے، عقیدہ اور مذہب کی آزادی کو جو مقام حاصل ہے اس کی رو سے عقیدہ اور مذہب کے لیے طاقت کا استعمال ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مارچ ۲۰۰۴ء

۸ مارچ: خواتین کا عالمی دن

۸ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا دن منایا جاتا ہے، اس موقع پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر مشتمل رپورٹیں سامنے آتی ہیں، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں، اخبارات کی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام ہوتا ہے، این جی اوز اپنے اپنے انداز میں پروگرام کرتی ہیں اور عورتوں کی مظلومیت کا تذکرہ ہر سطح پر ہوتا ہے۔ عورت بلاشبہ مظلوم ہے، ہر دور میں مظلوم رہی ہے، اور آج بھی مظلوم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ مارچ ۲۰۰۴ء

عظیم تر مشرقِ وسطیٰ یا عظیم تر اسرائیل؟

ایک قومی اخبار نے اپنے برسلز کے نمائندے کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں بادشاہتوں کے خاتمے کا ایک امریکی منصوبہ تیاری کے مراحل میں ہے اور اس کے تحت تمام اسلامی دنیا اور عرب ممالک کو مغربی تحفظ کی چھتری کے نیچے لایا جائے گا۔ یورپی سفارتی ذرائع کے مطابق ’’اقدام برائے عظیم تر مشرقِ وسطیٰ‘‘ کی حکمتِ عملی پر امریکہ، یورپی یونین، اور جی ایٹ ممالک میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مارچ ۲۰۰۴ء

عظمت و شہادت کا مہینہ

سن ہجری کے چودہ سو پچیسویں سال کا آغاز ہو گیا ہے اور ہمارے ہاں عام حلقوں میں جو مشہور تھا، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھ بھی دیا تھا کہ چودھویں صدی ہجری آخری صدی ہو گی اور اس کے بعد کوئی اور صدی نہیں ہے، زمانہ اس کو کراس کرتے ہوئے ربع صدی آگے بڑھ چکا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ فروری ۲۰۰۴ء

حضرت مولانا شاہ احمدؒ نورانی

مولانا شاہ احمد نورانی بھی ہم سے رخصت ہو گئے،انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔نواب زادہ نصراﷲ خان مرحوم کی وفات کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ ہے جو سال رواں کی آخری سہ ماہی میں قومی سیاست کو برداشت کرنا پڑا۔ وہ دینی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘کے صدر اور جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ تھے۔ ایک سینئر پالیمنٹیرین، بزرگ عالم دین، تجربہ کار سیاستدان اور بااصول رہنما کے طور پر ان کا احترام تمام دینی و سیاسی حلقوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے تمام طبقات اور سیاسی و دینی حلقوں میں ان کی اچانک وفات کا غم شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

چاند کا مسئلہ: مشترکہ دینی قیادت کی آزمائش

رؤیت ہلال کا مسئلہ اس سال قومی سطح پر متنازعہ صورت اختیار کرنا نظر آرہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی فوری کوشش نہ کی گئی تو عید الفطر کے موقع پر یہ خلفشار وسیع تر صورت اختیار کر جائے گا اور قوم متفقہ یا کم از کم اکثریتی عید کے ثواب و لطف سے محروم ہو جائے گی۔ اب سے ربع صدی قبل بلکہ اس سے بھی پہلے ہمارے طالب علمی کے دور میں یہ صورتحال عام طور پر پیش آ جاتی تھی کہ چاند کی رؤیت کے مسئلہ پر اختلاف ہو جاتا تھا اور بسا اوقات ایک شہر میں دو دن الگ الگ عید منائی جاتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ نومبر ۲۰۰۳ء

سعودی عرب میں جمہوریت: جارج ڈبلیو بش کا نیا پینترا

صدر جارج ڈبلیو بش کو سعودی عرب اور عالمِ اسلام کے حوالے سے جمہوریت یاد آئی ہے اور انہوں نے اسلام کو جمہوریت کا حامی مذہب قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں جمہوریت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے، جس پر عالمی سطح پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بش کچھ دنوں سے اسلام کے حوالے سے مسلسل کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۰۳ء

برمنگھم (الاباما، امریکہ) میں دو دن

گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران بلامبالغہ بیسیوں بار برمنگھم جانے کا اتفاق ہوا ہے، مگر ۷ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو جب میں برمنگھم کے ایئرپورٹ پر اترا تو یہ شہر میرے لیے بالکل نیا تھا، اس لیے کہ یہ وہ برمنگھم نہیں تھا جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور دنیا بھر میں معروف ہے۔ بلکہ یہ امریکہ کی ریاست الاباما کا ایک شہر ہے جو نیویارک سے تقریباً تیرہ سو میل جنوب کی طرف واقع ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ اکتوبر ۲۰۰۳ء

حدود آرڈیننس اور خواتین کے حقوق

قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی خواتین ارکان اسمبلی نے ویمن کمیشن کی سربراہ جسٹس ماجدہ کی طرف سے حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے مطالبہ پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ شرعی قوانین کی منسوخی کا کوئی قدم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ویمن کمیشن نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۲۰۰۳ء

سرحد اسمبلی کے شریعت ایکٹ اور حسبہ ایکٹ کے متعلق تحفظات

اخباری اطلاعات کے مطابق گورنر سرحد سید افتخار حسین شاہ نے سرحد اسمبلی کے ۶ جون ۲۰۰۳ء کو متفقہ طور پر منظور کردہ ’’شریعت ایکٹ‘‘ کی ابھی تک توثیق نہیں کی۔ جبکہ سرحد حکومت کی طرف سے بھیجے گئے ’’حسبہ ایکٹ‘‘ کو سات اعتراضات کے ساتھ واپس کر دیا ہے، جن کے بارے میں صوبائی وزارتِ قانون نے جوابی خط میں گورنر سرحد سے کہا ہے کہ یہ اعتراضات غلط فہمی پر مبنی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جولائی ۲۰۰۳ء

’’پاکستان کے مذہبی اچھوت‘‘

بعض مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ’’پاکستان کے مذہبی اچھوت‘‘ نامی ایک کتاب کے مندرجات پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ دو قادیانی مصنفین تنویر احمد میر اور مرتضیٰ علی شاہ کی مشترکہ کاوش ہے، اور اس میں پاکستان میں قادیانیوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کا رونا روتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصلی اور کھرے مسلمان صرف قادیانی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جولائی ۲۰۰۳ء

’’بڑھتا ہے ذوقِ جرم میرا ہر سزا کے بعد‘‘

پیر صاحب آف پگاڑا شریف بڑے مزے کے بزرگ ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں بات کرتے ہیں اور ہنسی دل لگی میں پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ راشدی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، میرا تو یہ پیرخانہ ہے اور اسی نسبت سے میں بھی راشدی کہلاتا ہوں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے روحانی سلسلہ کے بزرگ شاہ محمد راشدؒ نے سندھ میں روحانی مرکز آباد کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جولائی ۲۰۰۳ء

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کا سیرت اسٹڈی سنٹر

سیالکوٹ کے ’’سیرت اسٹڈی سنٹر‘‘ کا نام تو کافی عرصہ سے سن رکھا تھا اور اس کی سرگرمیوں کی اطلاعات بھی وقتاً فوقتاً ملتی رہیں، مگر اسے دیکھنے کا اتفاق گزشتہ روز ہوا۔ پروفیسر عبد الجبار شیخ اس ادارے کے ڈائریکٹر ہیں، پرانے اساتذہ میں سے ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد آرام سے نہیں بیٹھے اور نہ صرف سیرت اسٹڈی سنٹر کے کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۲۰۰۳ء

روایتی اسلام اور روشن خیال اسلام

طالبان کے اسلام کو انتہاپسندانہ قرار دیتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف نے متعدد مواقع پر پاکستان کو جدید اور روشن خیال اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد میں شریعت ایکٹ کی منظوری کے بعد اس حوالے سے ان کے اس لہجے اور ارشاد میں شدت آ گئی ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جون ۲۰۰۳ء

پاکستان ۔ اسلامی نظام سے دوری کیوں؟

قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے مہاتما گاندھی کے نام ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ قرآن مسلمان کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ موجود ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اگست ۲۰۰۲ء

حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ

خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ بھی ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، شوگر کے ساتھ ساتھ دل اور دمہ کی تکلیف بھی تھی اور کم و بیش 70 برس عمر پا کر وہ دارِفانی سے رحلت کر گئے۔ ان کا تعلق ہزارہ کے علاقہ ہری پور سے تھا اور انہوں نے اس دور میں لاہور میں خطابت کا آغاز کیا جب شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ حیات تھے اور مولانا اجمل خان کو ان کی بھرپور شفقت اور رہنمائی میسر تھی۔ مولانا محمد اجمل خان کا شمار اپنے دور کے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور انہیں خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۲۰۰۲ء

وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے

امریکہ نے جب اقوام متحدہ کے سامنے اپنا کیس رکھا اور اس سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے این او سی مانگا تو دلیل اور دانش نے ڈرتے ڈرتے وہاں بھی عرض کیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف طے کر لی جائے اور اس کی حدود متعین کرلی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی زد میں وہ مظلوم اور مجبور اقوام نہ آجائیں جو اپنی آزادی اور تشخص کے لیے قابض اور مسلط قوتوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مگر دلیل اور دانش کی آنکھوں پر یہ کہہ کر پٹی باندھ دی گئی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، ابھی امریکہ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۱ء

لیڈی ڈیانا کی یاد میں

پرنسس آف ویلز شہزادی ڈیانا کی حادثاتی موت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مسلسل لکھا جا رہا ہے۔ اصحابِ قلم اپنے اپنے ذوق اور زاویۂ نگاہ سے شہزادی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں اور اربابِ دانش لیڈی ڈیانا کو حادثاتی موت کے بعد عالمی سطح پر ملنے والی پذیرائی کے اسباب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اکتوبر ۱۹۹۷ء

پیر محسن الدین احمدؒ اور فرائضی تحریک

چند روز قبل لندن سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ بنگلہ دیش کے معروف روحانی پیشوا پیر محسن الدین احمد ضلع فرید پور میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پیر صاحبؒ ہمارے محترم بزرگ تھے جو ایک عرصہ تک جمعیت علماء اسلام مشرقی پاکستان کے امیر رہے ہیں، وہ متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کے رکن تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۱۹۹۷ء

برطانیہ میں غیر سودی سرمایہ کاری کا منصوبہ

چند ہفتے قبل برطانیہ میں لنکاشائر کے شہر برنلے کی مسجد فاروق اعظمؓ کے سیکرٹری حاجی عزت خان صاحب کے ہاں نماز جمعہ کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تھے کہ ایک انگریز نوجوان بریف کیس ہاتھ میں پکڑے وارد ہوا، اس کے ساتھ ایک مسلمان بھائی تھے۔ ہم کھانے سے فارغ ہو کر چائے پینے کی تیاری کر رہے تھے، انہیں بھی چائے میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی اور اس کے ساتھ ہی گفتگو کا آغاز ہو گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم ستمبر ۱۹۹۷ء

تبدیلی کا مجددی راستہ اور مولانا فضل الرحمٰن

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ اعلان نظر سے گزرا کہ جمعیت نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اب جمعیت الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے اپنے مقاصد کے لیے عوامی جدوجہد کو منظم کرنے کا راستہ اختیار کرے گی۔ انہوں نے موجودہ انتخابی سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظام میں اچھے افراد کا آگے آنا اور اسلامی نظام کا نافذ ہونا ممکن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جولائی ۱۹۹۷ء

چودھواں آئینی ترمیمی بل اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کا چودھواں بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت اسمبلیوں کے ارکان کی ’’فلور کراسنگ‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے، اور اب اگر کسی رکن اسمبلی نے اس سیاسی جماعت سے علیحدگی اختیار کی یا اس کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی جس کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہوا ہے یا جس میں اس نے باضابطہ شمولیت اختیار کی ہے، تو وہ اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا۔ اس بل کے بارے میں عام طور پر مکمل تحریر

۱۴ جولائی ۱۹۹۷ء

سعودی حکمران خاندان اور اہلِ دین کی کشمکش

روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے مدیر جناب حامد میر نے افغانستان میں سعودی عرب کے ممتاز تاجر اور جہادِ افغانستان کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ شخصیت اسامہ بن لادن سے مل کر ایک جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے، اس پر وہ بلاشبہ مبارکباد کے ساتھ ساتھ اہلِ دین کے شکریہ کے مستحق ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اپریل ۱۹۹۷ء

”گینگ ریپ“ پر سزائے موت اور علماء کرام

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے ’’گینگ ریپ‘‘ پر سزائے موت کا قانون منظور کیا تو اس پر بعض سرکردہ علماء کرام نے یہ اعتراض کر دیا کہ سزائے موت کا یہ قانون شرعی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے اسے عجلت میں منظور نہ کیا جائے اور اس پر سرکردہ علمائے کرام سے رائے لی جائے۔ ’’اجتماعی آبروریزی‘‘ کے واقعات کچھ عرصہ سے جس کثرت کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں اس کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی کو اس قانون کی ضرورت محسوس ہوئی ہے اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اجتماعی آبروریزی کے حیاسوز واقعات کی روک تھام کے سلسلہ میں اپنے وعدہ کی تکمیل کے لیے یہ قانون منظور کرایا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۱۹۹۷ء

خلافتِ راشدہ اور مروجہ سسٹم

اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف نے خلفائے راشدینؓ کا نظام نافذ کرنے کی بات کی ہے تو اس کے ساتھ ’’خلافت راشدہ‘‘ کی اصطلاح قومی سطح پر بحث و مباحثہ کا عنوان بن گئی ہے۔ میاں صاحب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ جب برسرِ اقتدار تھے اس وقت انہیں خلفائے راشدینؓ کا نظام نافذ کرنے کی بات کیوں نہ سوجھی؟ اور بعض راہنماؤں نے اس خیال کا اظہار بھی کیا ہے کہ خلافت کی بات موجودہ نظام کے خلاف سازش ہے اور اس طرح سسٹم کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم ستمبر ۱۹۹۶ء
2016ء سے
Flag Counter