آسیہ مسیح کیس: سیکولر لابی کی دیدہ دلیری اور دینی قوتوں کا امتحان

   
۲۶ نومبر ۲۰۱۰ء

آسیہ مسیح کا کیس توہینِ رسالت کے سابقہ درجنوں کیسوں سے مختلف نہیں ہے اور نہ ہی اس پر سیکولر حلقوں کا ردعمل اور ان کی سرگرمیاں غیر متوقع ہیں۔ البتہ دینی حلقوں کی بیداری اور ان کے ردعمل کی کیفیت بہرحال پہلے جیسی نہیں ہے اور اہل دین کے لیے اصل لمحۂ فکریہ یہی ہے۔ ایک مسیحی خاتون نے مبینہ طور پر توہینِ رسالتؐ کا ارتکاب کیا، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا، عدالت میں کیس چلا اور تمام ضروری عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد مجاز عدالت نے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس کے لیے بالائی عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل کے مراحل ابھی موجود ہیں اور مقدمہ کا نتیجہ ابھی آخری مرحلہ تک نہیں پہنچا کہ درمیان میں پورا کیس ’’ہائی جیک‘‘ ہوگیا۔ اور اور ہائی جیک کرنے والی شخصیت ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر ہے جس نے گورنری کا یہ منصب دستور کی وفاداری اور قانون کی پاسداری کے حلف کے تحت سنبھالا ہے۔

اس کیس نے ہائی جیک ہونا ہی تھا کہ اس قسم کے کیسوں کے ساتھ یہی ہوتا آرہا ہے مگر اس دفعہ تکنیک بدل گئی ہے۔ پہلے ان کیسوں کو بین الاقوامی ایجنڈے اور فنڈز پر کام کرنے والی این جی اوز ہائی جیک کرتی تھیں اور سرکاری مناصب پر فائز سیکولر شخصیات انہیں درپردہ سپورٹ کیا کرتی تھیں، مگر اب خود ایک ذمہ دار سرکاری شخصیت سامنے آئی ہے اور اس نے اپنے منصب، حلف اور قانونی ذمہ داریوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اس سے اس کیس کی اہمیت و نزاکت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

کل مجھ سے ایک ذمہ دار اور اچھے خاصے سمجھدار دوست نے فون پر پوچھا کہ مولانا صاحب! کیا کوئی غیر مسلم قرآن کریم کو ہاتھ لگا لے تو اس کی سزا موت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم تو دعوت کے مقصد کے لیے خود غیر مسلموں میں قرآن کریم کے نسخے تقسیم کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ مسیح نے تو صرف قران کریم کو ہاتھ ہی لگایا ہے اسے سزائے موت کیوں دی جا رہی ہے؟ میں نے ان سے گزارش کی کہ کیا آپ کے خیال میں پاکستان کا کوئی سیشن جج ایسا شخص ہو سکتا ہے جو کسی غیر مسلم کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے پر موت کی سزا سنا دے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اسے سرکاری حلقوں کا پروپیگنڈا اور میڈیا کی سیکولر لابی کی کارستانی سمجھیں جو اس معاملے کو یہ کہہ کر گول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک غیر مسلم خاتون کو صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانے پر موت کی سزا دی جا رہی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ توہین رسالتؐ کا مقدمہ درج کرانے کے طریق کار میں تو عرصہ سے تبدیلی کی جا چکی ہے، اب کئی سالوں سے کیفیت یہ ہے کہ توہین رسالت کا کیس براہ راست درج نہیں ہوتا بلکہ اس کی انکوائری ہوتی ہے اور تسلی کے بعد کیس کا اندراج ہوتا ہے۔ یہ کیس بھی اسی طرح درج ہوا ہے، پھر اس کے بعد پورے عدالتی پراسیس سے گزرا ہے، گواہیاں ہوئی ہیں، جرح ہوئی ہے، باقاعدہ عدالتی بحث و مباحثہ ہوا ہے اور قانونی طور پر ایک مجاز عدالت نے تمام تر عدالتی تقاضوں کی تکمیل کے بعد سزا سنائی ہے۔ اگر یہ سب کچھ صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانے پر ہوگیا ہے تو پھر آپ کو مولویوں کو کوسنے کی بجائے اپنے عدالتی نظام کا ماتم کرنا چاہیے۔

میں نے عرض کیا کہ مجھے ذاتی طور اس کیس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے مگر میں کسی صورت میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے قانون میں کسی شہری کو سزائے موت سنانے تک کے جو مراحل ہیں، کسی مجاز عدالت نے ان مراحل سے گزرے بغیر اور قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کیے بغیر موت کی سزا سنا دی ہو۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ گورنر پنجاب نے پورے عدالتی نظام پر بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے اور کیس کو درمیان میں ہائی جیک کر کے ان لابیوں کے ایجنڈے کو سپورٹ کیا ہے جو اس ملک میں قراردادِ مقاصد، تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت، اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے قوانین کے خلاف مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور انہیں ختم کرانے کے درپے ہیں۔ اور یہ بات گورنر کے اس حلف کی خلاف ورزی ہے جو انہوں نے یہ منصب سنبھالتے ہوئے آئین کی وفاداری اور قانون کی پاسداری کے حوالے سے اٹھایا تھا۔

جہاں تک مغربی ممالک اور بین الاقوامی سیکولر لابیوں کا تعلق ہے انہوں نے تو یہ بطور پالیسی طے کر رکھا ہے کہ نہ صرف اپنے ممالک میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے واقعات کی سرپرستی کرتی رہیں گی بلکہ مسلم ممالک میں بھی ایسے افراد اور لابیوں کی پشت پناہی کریں گی جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتی رہیں اور مذہبی اقدار و شخصیات کی اہانت اور بے توقیری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ برطانیہ کے سلمان رشدی، بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین، مصر کے ڈاکٹر نصر ابوزید، گوجرانوالہ پاکستان کے سلامت مسیح اور بہت سے دیگر افراد کو اسی بنیاد پر مغربی ممالک میں پناہ دی گئی ہے۔ اور ان کے اخراجات اور تحفظ کی سرکاری طور پر ذمہ داری اٹھائی گئی ہے کہ وہ توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے توہین رسالت کے قبیح اور مذموم جرم کا ارتکاب کر کے بین الاقوامی سیکولر لابیوں کو نفسیاتی تسکین مہیا کی ہے۔ آسیہ مسیح کے ساتھ مغربی ملکوں اور لابیوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا بلکہ مبینہ طور پر ایک مغربی ملک نے تو آسیہ مسیح کو پورے خاندان سمیت سیاسی پناہ اور تحفظ کی پیشکش بھی کر دی ہے۔

البتہ اس سلسلہ میں ملک کے دینی حلقوں کے ردعمل اور پروگرام کا معاملہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ہم ابھی تک رسمی احتجاج اور اخباری بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکے اور اس سلسلہ میں اصل کام جو کرنے کا ہے اس کی طرف ہماری سرے سے توجہ نہیں ہے۔ دینی تحریکات کے ایک شعوری کارکن کے طور پر میری رائے یہ ہےکہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہونے کے بعد اس طرح کے دینی معاملات میں نئی صف بندی سامنے آگئی ہے۔ قراردادِ مقاصد کا معاملہ ہو، قادیانیوں کے بارے میں دستور و قانون کی بات ہو، یا تحفظ ناموس رسالتؐ کا مسئلہ ہو، اب دینی حلقوں کے خلاف سب سے بڑا مورچہ سپریم کورٹ بار اور وکلاء کا فورم ہوگا اور آسیہ مسیح کیس میں بھی یہ فورم گورنر پنجاب کی پشت پر پوری طرح متحرک نظر آرہا ہے۔ اس کے لیے دینی حلقوں کو اب نئی صف بندی کرنا ہوگی، وکلاء برادری میں اپنے ہم خیال تلاش کرنا ہوں گے، ان میں باہمی رابطے کا اہتمام کرنا ہوگا، انہیں متحرک کرنا ہوگا اور اس کے لیے حکمتِ عملی اور طریق کار بھی ازخود طے کرنے کی بجائے سینئر اور تجربہ کار وکلاء کے مشورہ سے اور ان کی راہنمائی میں مرتب کرنا ہوگا۔ ورنہ آسیہ مسیح کیس صرف ٹیسٹ کیس ہے، اس سے بڑے بہت سے کیس مستقبل قریب میں دینی حلقوں کو چیلنج کرنے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔

اس پس منظر میں گزشتہ روز گوجرانوالہ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا ایک مشترکہ اجلاس مولانا قاری محمد سلیم زاہد کی دعوت پر راقم الحروف کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں مولانا سید غلام کبریا شاہ، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا قاری محمد سلیم زاہد، مولانا اظہر حسین فاروقی، مولانا مشتاق احمد چیمہ، حافظ ابرار احمد ظہیر، جناب محمد جمیل بٹ، حافظ محمد یعقوب اور دیگر حضرات کے علاوہ شیعہ راہنما جاب کاظم ترابی بھی شریک ہوئے۔ سب حضرات نے صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس موقع پر باہمی اتفاق وا تحاد کے مظاہرے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہیں اس لیے مقامی طور پر اشتراک و تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ تمام مسالک اور دینی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے بھی گزارش کی جائے کہ وہ موجودہ صورتحال اور مستقبل کے خدشات و خطرات کے پیش نظر جلد از جلد مل بیٹھ کر ان معاملات میں قوم کی متفقہ راہنمائی کا اہتمام کریں۔

اجلاس میں طے پایا کہ آسیہ مسیح کیس کے حوالے سے گورنر پنجاب کے رویہ کے خلاف جمعۃ المبارک کے دن مشترکہ احتجاجی ریلی نکالی جائے گی جو نماز جمعۃ المبارک کے بعد اڑھائی بجے شیرانوالہ باغ سے شروع ہو گی اور گوندلانوالہ چوک پر اختتام پذیر ہوگی۔ جبکہ تاجر راہنماؤں حاجی نذیر احمد، ڈاکٹر محمود احمد اور میاں فضل الرحمان چغتائی نے بھی اس پروگرام کے ساتھ مکمل اتفاق کا اعلان کیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter