حضرت مولانا طارق جمیل سے منسوب یہ بات میرے لیے تعجب کا باعث بنی ہے جس میں انہوں نے اپنے عقیدت مندوں کو تلقین کی ہے کہ وہ سیاست میں فریق نہ بنیں اور کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہ بنیں، یہ بات اگر انہوں نے کہی ہے تو مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے مگر انہیں اپنی رائے کا پورا حق حاصل ہے اور ان کے اس حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
البتہ اس سے مجھے ایک پرانا قصہ یاد آگیا ہے کہ گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ہم سب کے مخدوم تھے، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذ محترم تھے اور بیک وقت تبلیغی جماعت اور جمعیۃ علماء اسلام کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ رائے ونڈ کی شورٰی میں اہم مقام رکھتے تھے اور جمعیۃ علماء اسلام میں مولانا مفتی محمودؒ کے نائب کے طور پر مرکزی ناظم تھے۔ ان کا ذہن دونوں طرف یکساں چلتا تھا، دونوں کو وقت دیتے تھے اور دونوں حلقوں میں انہیں احترام اور عقیدت کا مقام حاصل تھا۔ انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں الیکشن بھی لڑا تھا، میں ان کی انتخابی مہم کا انچارج تھا اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کی نیابت و خدمت بھی میری ذمہ داری تھی۔ اسی طرح مرکزی جامع مسجد دونوں کا مرکز تھی، شب جمعہ کا اجتماع یہیں ہوتا تھا اور حوض کے ساتھ والا کمرہ جو آج کل میرا دفتر ہے، تبلیغی جماعت کے مقامی بزرگوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی یہ جامع مسجد سیاسی و دینی تحریکات کا مرکز بھی تھی کہ ۱۹۱۹ء کے مارشل لاء سے لے کر اب تک سیاسی و قومی سطح پر اکثر تحریکات یہیں سے چلی ہیں۔ تحریک آزادی، تحریک ترک موالات، تحریک کشمیر، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفٰیؐ، تحریک نفاذ شریعت اور تحریک بحالیٔ جمہوریت سمیت بیسیوں تحریکات میں گزشتہ صدی کے دوران اس مسجد نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کوئی قومی یا شہری مسئلہ سامنے آتا ہے تو شہریوں کی نظریں اسی مسجد کی طرف اٹھتی ہیں کہ یہاں سے کیا بات سامنے آتی ہے اور کونسی تحریک شروع ہوتی ہے۔
ابھی دو روز قبل تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام میرے دفتر میں جمع ہوئے اور اس بات کا جائزہ لیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل میں قادیانیوں کے حوالہ سے جو نئی تجویز پیش ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیانیوں کے بارے میں پاکستان پر کسی نئے بین الاقوامی دباؤ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے اور تحریک ختم نبوت کے ایک نئے راؤنڈ کی تیاریاں نظر آرہی ہیں۔ ان حالات میں گوجرانوالہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے، چنانچہ اس کے لیے ۲۴ اگست کو کل جماعتی ’’استحکام پاکستان و ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کی تیاریوں کے لیے مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں پر مشتمل رابطہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
اس تناظر میں جب یہ جامع مسجد سیاسی تحریکات اور تبلیغی جماعت دونوں کا مرکز تھی بسا اوقات عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی تھی۔ ہمارے ایک محترم بزرگ مرزا محمد یعقوب مرحوم ’’فنا فی التبلیغ‘‘ قسم کے بزرگ تھے، بہت مخلص اور دیندار تھے اور تبلیغی سرگرمیوں کے لیے ہر وقت وقف رہتے تھے۔ انہیں کسی شب جمعہ کو اجتماع میں خطاب کا موقع ملتا تو وہ بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ یہ فرما دیا کرتے تھے کہ بزرگو دوستو! سیاست سے کچھ نہیں ہوگا، جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا، جلوسوں سے کچھ نہیں ہوگا، ووٹ سے کچھ نہیں ہوگا، الیکشن سے کچھ نہیں ہوگا، بس جو کچھ ہوگا اللہ تعالٰی کی راہ میں نکلنے سے ہوگا۔ اگلے دن جمعہ مجھے پڑھانا ہوتا تھا، وہ جس رات یہ بیان فرماتے میں اگلے روز جمعۃ المبارک کے بیان میں اسی جوش و جذبہ کے ساتھ یہ کہہ دیتا تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جلسہ بھی عبادت ہے، جلوس بھی عبادت ہے، ووٹ بھی عبادت ہے، الیکشن بھی عبادت ہے، سیاست بھی عبادت ہے اور تحریک بھی عبادت ہے۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ رات کو انہوں نے اپنی گردان پڑھی اور صبح کو جمعہ میں، میں نے اپنی گردان دہرا دی۔ اس سے شہر میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اسی منبر پر رات کو کچھ کہا جاتا ہے اور صبح کو کچھ اور کہہ دیا جاتا ہے۔ کچھ دوستوں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے ہم دونوں کو طلب کر لیا اور اس پر باز پرس کی۔ میں نے عرض کیا کہ ہم یہاں سے سیاسی و دینی تحریکات چلاتے ہیں اور آپ کی سرپرستی میں ان تحریکات کا نظم میرے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں اس بات میں پہلے نہیں کرتا مگر جس شب جمعہ کو مرزا صاحب محترم یہ بات فرماتے ہیں تو اگلے روز اپنا موقف پیش کرنا اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنا میرے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی صاحب نے دونوں کو سرزنش کی اور محتاط رہنے کو کہا، اور تھوڑے عرصہ کے بعد جب شب جمعہ کا اجتماع اور تبلیغی مرکز جامع مسجد سے مکی مسجد ڈیوڑھا پھاٹک میں منتقل ہوا تو ہمارے درمیان بھی ’’سیز فائر‘‘ ہوگیا۔
جہاں تک تبلیغی جماعت کا تعلق ہے میں اس کے خدام میں سے ہوں۔ خود بھی الحمد للہ سالہا سال سے شہر کے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ سال میں ایک سہ روزہ لگاتا ہوں اور لوگوں کو بھی جماعت میں وقت لگانے کی تلقین کیا کرتا ہوں۔ حتٰی کہ دورۂ حدیث سے فارغ ہونے والے علماء کرام کے لیے میری ایک تلقین یہ بھی ہوتی ہے کہ موقع ملے تو تبلیغی جماعت کے ساتھ سال ضرور لگائیں، اس سے دیگر فوائد کے ساتھ دو نقد فائدے یہ ہوں گے کہ آپ کے روز مرہ کے معمولات اور اوقات کی ترتیب قائم ہو جائے گی، اور اس کے ساتھ آپ لوگ ’’پبلک ڈیلنگ‘‘ بھی سیکھ لیں گے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔ البتہ اس کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی نفی اور سیاسی دینی جماعتوں کی تحقیر کو نتھی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ سیاسی جدوجہد حضرت شیخ الہندؒ کے دور سے ہماری دینی محنت کا ناگزیر حصہ چلی آرہی ہے، ہم نے اس کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور بہت کچھ بچایا ہے، اور اب بھی دینی جدوجہد میں پیشرفت اور اسلام دشمن رجحانات کی روک تھام کے لیے یہی راستہ سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس لیے میری گزارش سب دوستوں سے یہ ہے کہ اگر اس کی تائید نہیں کی جا سکتی تو کم سے کم اس کی نفی اور تحقیر تو نہ کی جائے، اللہ تعالٰی ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیں، آمین یا رب العالمین۔