پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ہمراہ مجھے بھی ۱۸ دسمبر کو مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں ’’دفاعِ پاکستان کونسل‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’دفاعِ پاکستان کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں دفاع پاکستان کونسل اپنی تشکیل نو کے بعد کچھ عرصہ سے متحرک ہے اور مختلف شہروں میں اجتماعات منعقد کر کے اس بات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بندش کے بارے میں حکومت نے اب جو موقف اختیار کیا ہے وہ باوقار اور عوامی جذبات سے ہم آہنگ ہے ، اس لیے حکومت اس پر قائم رہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جلد از جلد علیحدگی کا اعلان کرے۔ کانفرنس بہت بھرپور اور کامیاب تھی جس سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور دینی و سیاسی راہنماؤں نے خطاب کیا اور عوام کے مختلف طبقات نے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس کی میزبانی جماعت الدعوہ نے قبول کر رکھی تھی اور اس نے کانفرنس کی تیاریوں اور انتظامات میں میزبانی کا حق ادا کیا۔ قریب کے مختلف شہروں میں جماعت الدعوۃ کی ٹیمیں متحرک رہیں اور لوگوں کو کانفرنس میں لانے اور آنے والے مہمانوں کے کھانے وغیرہ کا فراخدلی کے ساتھ انتظام کیا گیا جس پر جماعت الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء مولانا امیر حمزہ اور مولانا محمد یعقوب شیخ بطور خاص مبارکباد کے مستحق ہیں۔
کالعدم سپاہِ صحابہ کی قیادت اور کارکن بھی روایتی جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شریک تھے اور مجھے اس کانفرنس میں سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے کسی اجتماعی اور قومی پروگرام میں بھرپور انداز میں شرکت کی ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ دینی جذبہ رکھنے والے پرجوش نوجوانوں کی ایک بھرپور قوت ہے ، اس کے کارکن اہل سنت کے حقوق اور صحابہ کرامؓ کے ناموس کے تحفظ کے لیے پورے خلوص اور ایثار کے ساتھ سرگرم رہتے ہیں۔ ان کی پالیسیوں اور طریق کار کے بارے میں میرے تحفظات بھی مسلسل رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ناموس صحابہؓ کے دفاع و تحفظ کو ایک دینی تقاضا اورا س کے لیے ان کی محنت کو مخلصانہ محنت سمجھتا ہوں، البتہ میری ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ یہ دینی قوت اپنے محاذ پر سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاملات میں بھی شریک ہو اور ملی و قومی معاملات میں اس دائرے کی ذہنی وسعت کے ساتھ ان کا حصہ ہر مرحلہ میں شامل ہوتا رہے۔ اس پس منظر میں کانفرنس کے اسٹیج پر اور پنڈال میں سپاہ صحابہ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔
پنڈال میں اور اس کے اردگرد پرچموں کی اس قدر کثرت تھی کہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہم پرچموں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر جھنڈے جماعت الدعوۃ کے تھے اور چونکہ وہ کانفرنس کے میزبان اور منتظم تھے اس لیے ایسا ہونا فطری بات تھی۔ اس کے بعد سب سے زیادہ پرچم سپاہ صحابہ کے دکھائی دیے۔ کانفرنس کے انتظامات اور اسٹیج کو کنٹرول کرنے میں جمعیۃ علماء اسلام (س) کے راہنما اور کارکن پیش پیش تھے اور ان کی محنت بھی نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔
کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں مولانا سمیع الحق کے علاوہ جنرل (ر) حمید گل، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک خان، مولانا ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، جناب اعجاز الحق، شیخ رشید احمد، صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، حافظ طاہر محمود اشرفی، مولانا سید عبد اللہ شاہ مظہر، پیر سید محمد کفیل شاہ بخاری اور صاحبزادہ ابتسام الٰہی ظہیر بطو رخاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اسٹیج پر دیگر اہم شخصیات کے علاوہ مولانا فداء الرحمان درخواستی اور مولانا شاہ اویس نورانی بھی رونق افروز تھے۔
راقم الحروف نے اپنے مختصر خطاب میں دو باتوں کا ذکر کیا:
- ایک یہ کہ ہماری اصل قوت اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی مدد و فضل ہے لیکن عالم اسباب میں دینی قوتوں کی سب سے بڑی قوت ہمیشہ باہمی وحدت رہی ہے۔ یہ وحدت و ہم آہنگی کل بھی عالم اسباب میں دینی حلقوں کی سب سے بڑی قوت تھی، آج بھی یہی بڑی قوت ہے اور کل بھی یہی وحدت اور باہمی تعاون و اشتراک دینی جماعتوں کی بڑی قوت رہے گی۔ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ وحدت و اشتراکِ عمل کی اس قوت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔
- دوسری گزارش میں نے یہ کی کہ آج ہم مہمند ایجنسی میں نیٹو کے جارحانہ حملے میں شہید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے بھائی تھے اور پاکستان کے سپاہی تھے، ان کا حق بنتا ہے کہ ہم انہیں خراج عقیدت پیش کریں اور قوم کے سب طبقات اس میں شریک ہیں۔ لیکن وہ شہداء جو امریکی ڈرون حملوں میں شہید ہوئے ہیں اور وطن عزیز کے وہ ہزاروں پر امن اور غیر متعلقہ شہری جو اس جنگ میں بلاوجہ شہید کر دیے گئے ہیں، خواہ وہ ڈرون حملوں کے دوران گھروں میں بیٹھے شہید ہوئے ہیں یا خودکش حملوں کا نشانہ بنے ہیں، انہیں یاد رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ وہ بھی ہمارے شہری تھے، وہ بھی مظلوم ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
کانفرنس کے اجتماعی مطالبات میں بطور خاص یہ بات شامل تھی کہ حکومت پاکستان امریکہ کی اس جنگ سے فوری طور پر لاتعلقی کا اعلان کرے، نیٹو کی سپلائی مستقل طور پر بند رکھی جائے، ڈرون حملوں پر موجودہ موقف کو برقرار رکھا جائے اور بیرونی جارحیت کے خلاف جرأت مندانہ پالیسی جاری رکھ کر قومی خودمختاری اور ملکی سالمیت و وحدت کا تحفظ کیا جائے۔ جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے امریکی جنگ سے پاکستان کی علیحدگی کی تاریخ کا اعلان کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
مینارِ پاکستان کے سائے میں منعقد ہونے والی یہ آل پارٹیز دفاع پاکستان کانفرنس بلاشبہ عوامی جذبات کی ترجمانی کر رہی تھی اور مذہبی مکاتب فکر کی بھرپور نمائندگی کے ساتھ وہ قوم کی متفقہ آواز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ مگر ایک بات مجھے دل ہی دل میں محسوس ہوتی رہی اور جی چاہتا ہے کہ اپنے قارئین کو بھی اس میں شامل کر لوں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اپنی جماعت کی پوری جنرل کونسل کے ساتھ اس روز لاہور میں موجود تھے، کانفرنس کے اسٹیج پر بیٹھ کر مجھے وہ بہت یاد آئے۔ اب یہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ دعوت دینے کو خلافِ مصلحت سمجھا گیا یا دعوت قبول کرنا مصلحت کے خلاف قرار پایا۔ بہرحال جو بھی ہوا کم از کم مجھے اچھا نہیں لگا۔
ملی و دینی مقاصد کے لیے وسیع تر اتحادوں کا میں سب سے بڑا داعی رہا ہوں، ہر دور میں اس کے لیے میں نے محنت کی ہے اور اب بھی مختلف دائروں میں اس کے لیے متحرک رہتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بحمد اللہ تعالیٰ دیوبندی بھی ہوں اور بہت سے دیوبندیوں کی طرح میرا بھی جی چاہتا ہے کہ دیوبندی قیادتیں کبھی کبھی عوامی اسٹیج پر اکٹھی نظر آجایا کریں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے دونوں بھائی میری اس بات سے خوش نہیں ہوں گے لیکن اس کے باوجود اپنے دل کی اس خواہش کے اظہار پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق اپنی اپنی سیاسی ترجیحات پر بلاشبہ قائم رہیں اور اپنے اپنے سیاسی اتحادوں کے دائروں کو بھی ضرور باقی رکھیں، لیکن کبھی کبھی اس سے ہٹ کر استعمار دشمنی کے مشترکہ فورم کے ساتھ دیوبندی دائرے میں بھی مشترکہ جلسوں سے اکٹھے خطاب کر لیا کریں۔ اور اگر وہ اپنے ساتھ مولانا محمد احمد لدھیانوی کو بھی اسٹیج پر کھڑا کر سکیں تو دیوبندی وحدت کے اظہار کا لطف ہی دوبالا ہو جائے، آخر دو چار جگہ ایسا کر لینے میں حرج ہی کیا ہے؟