متحدہ جمہوری محاذ کی پیش قدمی

   
۲۱ ستمبر ۱۹۷۳ء

گورنر پنجاب نے متحدہ جمہوری محاذ کی ۲۴ روزہ کامیاب تحریک کے بعد دفعہ ۱۴۴ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس دوران محاذ کے کارکنوں کو جن حالات میں جدوجہد جاری رکھنا پڑی ان پر ذرا سرسری نظر ڈال لیجئے:

  • ریڈیو اور ٹی وی نے محاذ کے راہنماؤں کی کردارکشی اور کارکنوں کی تذلیل کی مہم مسلسل جاری رکھی۔
  • پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
  • سرکاری پارٹی کے کارکنوں نے محاذ کے جلسوں اور جلوسوں میں دل کھول کر غنڈہ گردی کی۔
  • محاذ میں شامل جماعتوں کے چیدہ چیدہ راہنماؤں کو گرفتار کر کے تحریک کو روکنے کی ناکام کوشش کی گئی۔
  • سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر چھاپے مار کر ان کی کارکردگی معطل کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔
  • پولیس نے جبر و تشدد کا کوئی حربہ باقی نہ چھوڑا جو ان غریب کارکنوں پر آزمایا نہ ہو۔ خصوصاً ملتان پولیس نے تو ظلم و تشدد کی انتہا کر دی کہ گرفتاریاں پیش کرنے والے کارکنوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا، ان کی داڑھیاں نوچیں، انہیں ننگا کر کے پیٹا، برف پر مسلسل لٹایا اور غنڈوں اور بدمعاشوں کی طرح ان پر جیل کے معروف ’’لتر‘‘ برسائے۔ جمعیۃ کےدفتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ اور فون اٹھا کر لے گئی۔ مدرسہ قاسم العلوم میں گھس کر طلباء کے لیے تیار شدہ کھانا چٹ کر گئی۔ اور جمعیۃ کے راہنما حضرت مولانا عبد القادر قاسمی کی گرفتاری میں ناکامی پر ان کی اہلیہ اور معصوم بچے کو پکڑ لیا اور تھانے میں بٹھائے رکھا۔
  • لاہور پولیس کا رویہ بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ اس نے کارکنوں کی تذلیل و تحقیر کے ساتھ ساتھ ان پر چوری اور جیب تراشی کے مقدمات قائم کیے۔ بے پناہ تشدد کے علاوہ انہیں کئی کئی روز تھانوں میں بٹھائے رکھا۔ اور کئی کارکنوں کو رات کے وقت دور دراز جنگلوں میں لے جا کر چھوڑ دیا۔
  • جھنگ پولیس نے جمعیۃ کے کارکن حفیظ الدین کی گرفتاری کے لیے ان کے والد اور بھائیوں کو یرغمال کے طور پر بند کیے رکھا۔
  • سیاسی محاذ پر بھی تحریک کو پوری طرح نشانہ مشق بنایا گیا اور اسے سیاسی غلطی ظاہر کرنے میں پورا زور صرف کیا گیا۔
  • سیلاب کے بہانے تحریک کو بے وقت قرار دینے میں حکمران پارٹی کے ڈھنڈورچیوں کا بعض نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بھی یہی راگ الاپنے میں عافیت سمجھی۔
  • متحدہ جمہوری محاذ میں شامل جماعتوں کے محب وطن راہنماؤں کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت حراست میں لے کر ان کی ناقابل انکار حب الوطنی کو چیلنج کیا گیا۔
  • ملک بھر میں عموماً اور بلوچستان میں خصوصاً خوف و ہراس پھیلا کر عوام کو بددل کرنے اور بلوچستان میں فوجی کاروائی کا عمل تیز کر کے قبائل کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی مذموم سعی کی گئی۔
  • ’’مذاکرات‘‘ کا خوشنما لیبل پھینک کر محاذ کے راہنماؤں کو شکار کرنے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔

مگر ان میں سے کوئی حربہ حکمرانوں کے کام نہ آیا اور بالآخر انہیں متحدہ جمہوری محاذ کے حوصلہ، تدبر، جرأت اور استقامت کے سامنے سپرانداز ہونا پڑا۔ محاذ کے کارکنوں نے ہر ظلم اور حوصلہ شکنی کا خندہ پیشانی سے سامنا کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی حق و انصاف کی جنگ لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ آمریت و فسطائیت جس گھناؤنی شکل میں پاکستان پر پنجے گاڑنا چاہتی ہے اور قومی وحدت و سلامتی اور ملی افکار و نظریات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اس کے جو عزائم ہیں ان کے پیش نظر جمہوری محاذ کی یہ جدوجہد یقیناً جہاد ہے۔ بلکہ آقائے نامدار سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو ’’افضل الجہاد‘‘ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں افضل الجہاد یہی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور قومی وحدت کو چیلنج کرنے اور غریب عوام کے جمہوری حقوق کی طرف ظلم کا ہاتھ اٹھانے والی قوت کی کلائی مروڑ دی جائے۔

ہم اس کامیاب پیش قدمی پر محاذ کے راہنماؤں کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں اور عوام کے جمہوری حقوق کی خاطر مصائب جھیلنے والے غیور کارکنوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کارکنوں کی قربانیاں بہت جلد رنگ لائیں گی اور پاکستان میں آمریت کے کھنڈرات پر جمہوری و اسلامی حقوق کی عمارت بلند ہو کر رہے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter