تجارت و ابلاغ اور اسلامی تعلیمات

   
رفاہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی، راولپنڈی
۱۰ جنوری ۲۰۱۲ء

’’رفاہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی‘‘ کا نام سن رکھا تھا مگر کبھی حاضری کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ۱۰ جنوری کو یونیورسٹی کے ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن (MBA) کے شعبے کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو راولپنڈی صدر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی سابقہ عمارت میں واقع رفاہ یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں منعقد ہوئی۔ شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر عمیر صاحب اور دیگر اساتذہ سے ملاقات و گفت و شنید ہوئی اور تجارت میں تشہیر و ابلاغ کی اخلاقیات و آداب کے حوالہ سے منعقدہ تقریب میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔ رفاہ یونیورسٹی جناب پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی سربراہی میں پرائیویٹ سیکٹر میں ایک معیاری تعلیمی ادارے کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہے اور مجھے اس میں مختلف دینی مدارس کے فضلاء کو ایم بی اے کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے بطور خاص فرمایا تھا کہ دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ذہین فضلاء کو عصری تعلیمی اداروں میں جا کر دیگر علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے، مگر ان کا یہ ارشاد ابھی تک دینی مدارس کی تحفظاتی پالیسی کا شکار چلا آرہا ہے، البتہ اب بعض یونیورسٹیوں میں کچھ فضلاء کو ایسا کرتے دیکھ کر مجھے بہرحال خوشی ہوتی ہے۔

سیمینار کا موضوع یہ تھا کہ مارکیٹنگ اور تجارت کے لیے جو تشہیری ذرائع اور طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں ان کی شریعت میں کس حد تک اجازت ہے اور انہیں جائز حدود میں لانے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ راقم الحروف نے اس سلسلہ میں جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی محفل میں تجارت اور ابلاغ کے دو مختلف شعبے زیربحث ہیں، ان میں سے ہر ایک کے مستقل تقاضے ہیں اور اپنی اپنی اخلاقیات ہیں۔ لیکن آج کے سیمینار کے موضوع میں دونوں کو یکجا کر دیا گیا ہے اس لیے دونوں پر تھوڑی تھوڑی گفتگو ہوگی۔

تجارت و صنعت

تجارت انسانی سوسائٹی کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس پر فرد، خاندان اور سوسائٹی کی بہت سی ضرورتوں کا مدار ہے۔ لیکن آج اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ زیربحث ہے کہ تجارت کی اخلاقیات اور تجارت میں جائز و ناجائز کی حدود مارکیٹ نے از خود طے کرنی ہیں یا اس مسئلہ میں کسی اور کی رہنمائی بھی درکار ہے۔ آج کا عالمی فلسفہ کہتا ہے کہ انسانی سوسائٹی کو باہر سے کسی رہنمائی کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ اپنی اخلاقیات اور جائز و ناجائز کی حدود طے کرنے میں خود ہی اتھارٹی ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس فلسفہ کی رو سے تجارت اور مارکیٹنگ کو بھی یہ حیثیت حاصل ہے کہ وہ اپنی اخلاقیات خود طے کرے اور جائز و ناجائز کی حدود خود متعین کرے۔ لیکن اسلام اس فلسفہ کو قبول نہیں کرتا اور آسمانی تعلیمات نے زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تجارت و معیشت کے شعبے کو بھی وحی الٰہی کا پابند بنانے کی بات کی ہے۔

سابقہ آسمانی مذاہب کے حوالے سے بھی انسانی سوسائٹی میں اس کشمکش کا پتہ چلتا ہے۔ جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ کریم میں اس طور پر کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید کے ساتھ ساتھ تجارت میں دیانت و امانت اختیار کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ ماپ ماپ تول میں کمی نہ کرو اور خرید و فروخت کی جانے والی اشیا کا معیار مت خراب کرو، یعنی صحیح چیزیں بیچو اور صحیح وزن کے ساتھ بیچو۔ اس پر ان کی قوم نے کہا:

’’اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں اس بات کی دعوت پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے اموال میں اپنی مرضی کے ساتھ تصرف نہ کر سکیں۔‘‘ (سورہ ہود ۸۷)

گویا ان کی قوم نے اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے ساتھ آزادانہ تصرف کو اپنا حق قرار دیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی طرف سے لگائی جانے والی قدغنوں کو ان کی نماز کے حوالے سے طعن و اعتراض کا نشانہ بنایا۔ میرا خیال ہے کہ ہم بھی آج کم و بیش اسی نوعیت کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ جبکہ اسلام نے مال اور اس کے لین دین کو اس قدر آزاد نہیں چھوڑا اور اموال و اشیا کی تجارت پر مختلف قسم کی قدغنیں عائد کی ہیں، بلکہ سرے سے مال کو انسان کی مطلقاً ملکیت کی حیثیت نہیں دی اور اسے اللہ تعالیٰ کی امانت قرار دے کر دنیا اور آخرت دونوں جگہ اس کی مسئولیت کی بات کی ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک کہ وہ چند سوالوں کا جواب نہیں دے چکے گا۔ ان میں سے ایک سوال مال و دولت کے بارے میں ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا؟ آمدنی کا ذریعہ اور خرچ کا مصروف دونوں اسے بتانا پڑیں گے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ کی رو سے انسانی سوسائٹی یا مارکیٹ اپنی حدود، قواعد و ضوابط اور اخلاقیات طے کرنے میں خود ہی واحد اتھارٹی نہیں ہے بلکہ وہ آسمانی تعلیمات کی پابند ہے اور اسے وحیٔ الٰہی یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کے دائرے میں اپنے معاملات سرانجام دینے ہیں۔

جناب رسول اکرمؐ نے تجارت کی بڑی فضیلت بیان کی ہے، خود تجارت کی ہے اور تجارت کے احکام و قوانین کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے۔ ان ساری باتوں کو آنحضرتؐ کے ایک جامع ارشاد میں مختصرًا سمو دیا گیا ہے کہ ’’سچا اور ایماندار تاجر جنت میں انبیائے کرام، شہداء اور صالحین کا ساتھی ہوگا‘‘۔ تاجر کو جنت میں انبیائے کرامؑ کی رفاقت نصیب ہوگی لیکن اس کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ گفتگو میں سچا ہو اور دوسری یہ کہ وہ سودے میں کھرا ہو۔ یہ دو شرطیں بظاہر بڑی سادہ سی ہیں لیکن عملاً سب کچھ ہیں۔ اور اگر ان پر عمل ہو جائے کہ سوداکاری میں جھوٹ کا عنصر شامل نہ ہو اور سودے میں ملاوٹ اور کھوٹ نہ ہو تو سارا نظامِ تجارت ہی سیدھا ہو جاتا ہے۔

تجارت میں دیانت بہت عظمت اور عزیمت کی بات ہے اور مسلمانوں میں تو دیانتدارانہ تجارت اسلام کی دعوت و تبلیغ کا مستقل ذریعہ رہی ہے، لیکن خیانت کی شکایات بھی کسی نہ کسی درجہ میں ہر دور میں رہی ہیں۔ صحابیٔ رسول حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کی وفات ۳۵ھ میں ہوئی۔ گویا انہوں نے حضورؐ کے وصال کے بعد ربع صدی کا زمانہ پایا ہے اور وہ اپنے آخری دور میں شکایت کر رہے ہیں کہ تجارت میں امانت و دیانت کا معیار بدل گیا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے پہلے دور میں تجارت کے عمومی ماحول پر اعتماد ہوتا تھا اور ہم جس سے چاہتے تھے خرید و فروخت کر لیتے تھے، لیکن اب آخری دور میں یہ اعتماد قائم نہیں رہا اور خال خال تاجروں کے بارے میں شہرت ہوتی ہے کہ وہ ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کرتے ہیں‘‘۔ بخاری شریف کی اس روایت میں حضرت حذیفہؓ نے ایک دلچسپ بات یہ بھی فرمائی ہے کہ ہم پہلے دور میں بڑے اعتماد کے ساتھ ہر شخص سے سودے کی خریدوفروخت کر لیتے تھے، اگر وہ مسلمان ہوتا تھا تو اس کا مسلمان ہونا ہی ہمارے اعتماد کے لیے کافی ہوتا تھا، اور اگر غیر مسلم ہوتا تو ہمیں تسلی ہوتی تھی کہ وقت کا حاکم اور نظام اسے بددیانتی سے روک لے گا۔ دوسرے لفظوں میں مسلمان اور امانت و دیانت لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے اور غیر مسلم ہونے کی صورت میں ہمیں سسٹم اور نظام پر اعتماد ہوتا تھا کہ یہ نظام اور سسٹم کسی غیر مسلم کو بھی بددیانتی کی گنجائش فراہم نہیں کرے گا۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا یہ ارشاد گرامی آج ہمارے لیے لمحۂ فکریہ بلکہ تازیانہ عبرت ہے، اس لیے کہ آج صورتحال بالکل برعکس ہو گئی ہے۔ آج تجارت میں دیانت و امانت کا اعتماد دوسری قوموں میں منتقل ہوگیا ہے اور بددیانتی اور بے ایمانی مسلمان قوموں کا تعارف بن گئی ہے، جبکہ سسٹم کا اعتماد بھی کرپشن کی دلدل میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ اور بین الاقوامی تجارت کو دیکھ لیں کہ ہم مسلمانوں کی ساکھ کیا ہے؟ اور بحیثیت پاکستانی ہماری تجارتی ساکھ دنیا کی منڈیوں میں کیا ہے؟ اس لیے تجارت و مارکیٹ کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنا وہ اعتماد بحال کریں جو حضرت حذیفہؓ کے ارشاد گرامی میں مذکور ہے اور جو کسی دور میں ہم مسلمانوں کا امتیازی نشان اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کا عنوان ہوتا تھا۔

ابلاغ و تشہیر

اب میں مسئلہ کے دوسرے رخ کی طرف آتا ہوں کہ ذرائع ابلاغ اور تشہیر و ابلاغ کے حوالے سے ہماری صورتحال کیا ہے اور ہم نے تجارت کے باب میں تشہیر کے لیے کیا کیا حربے اختیار کر رکھے ہیں؟ جہاں تک ابلاغ کی بات ہے، یہ سوسائٹی کی اجتماعی ضرورت ہے لیکن اس کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں دو پابندیوں کا بطور خاص تذکرہ ہے:

  1. ایک یہ کہ کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کے بعد اسے نشر کرو اور بلاتحقیق کسی خبر کو عام نہ کرو (سورہ الحجرات ۶) ۔ مگر ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ سنی سنائی باتوں کو ایسے سنسنی خیز انداز میں بلاتحقیق نشر کر دیا جاتا ہے کہ بہت سے مسائل بلاوجہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ نے اپنے سفر معراج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو دی جانے والی سزاؤں کے مناظر کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک منظر آپؐ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کے منہ میں درانتی ڈال کر اس کی باچھیں گردن تک بار بار چیری جا رہی ہیں، چیرنے والا ایک بار یہ عمل مکمل کرتا ہے تو وہ باچھیں درست ہو جاتی ہیں، پھر وہ انہیں دوبارہ چیر دیتا ہے، پھر وہ صحیح ہوتی ہیں تو دوبارہ انہیں چیر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل اس کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے فرشتوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ شخص ہے جو جھوٹ گھڑتا ہے اور اسے دنیا کے کناروں تک پھیلا دیتا ہے۔ خبر گھڑ کر اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات اب سے پون صدی قبل شاید عملاً سمجھ میں نہ آتی ہو مگر آج اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ اور میں حدیث کے طلبہ کے سامنے اس کی تشریح یوں کیا کرتا ہوں کہ یہ وہ نیوز ایڈیٹر ہے جو ٹیبل نیوز بناتا ہے اور چینل پر اس کی پٹی چلا دیتا ہے۔ جھوٹی خبر ٹیبل پر بنائی جائے یا محض سنی سنائی بات کو بلاتحقیق نشر کر دیا جائے، ایک ہی بات ہے اور دونوں کے نتائج ایک جیسے ہی نکلتے ہیں۔
  2. قرآن کریم نے ابلاغ کے سلسلہ میں دوسری پابندی یہ لگائی ہے کہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں فاحشہ کی اشاعت کی جائے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے (سورہ النور ۱۹)۔ مسلمان سوسائٹی میں ’’فاحشہ‘‘ کے فروغ اور اشاعت کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر دی ہے۔ یہ فاحشہ کیا ہے؟ اس کا آسان سا مفہوم یہ ہے کہ بدکاری اور اس کا ذریعہ بننے والے اسباب و اعمال کی تشہیر جرم قرار دی گئی ہے۔ بدکاری اور زنا کے بارے میں قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ نے بہت سخت لہجہ اختیار کیا ہے اور صرف بدکاری کو جرم قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ذریعہ بننے والے تمام اعمال و حرکات کو بھی، جنہیں شریعت کی اصطلاح میں ’’دواعی‘‘ کہا جاتا ہے، جرم قرار دیا ہے اور اس پر سزا مقرر کی ہے۔ اس لیے ہر وہ تشہیر جو انسان کے اندر سفلی جذبات کو ابھارتی ہے اور انسانی ذہن کو بدکاری کی طرف متوجہ کرتی ہے، فاحشہ شمار ہوتی ہے اور قرآن کریم نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔

    لیکن ہمارے ہاں تو عورت اور اس کی کم لباسی تشہیر کے فن کا نقطۂ کمال تصور ہوتی ہے۔ ہم ماچس کی ڈبیا فروخت کرنے کے لیے بھی عورت کی تصویر اور اس کی زیب و زینت کو ذریعہ بناتے ہیں۔ عورت کی تصویر اور اس کی زیب و زینت کو اپنے سامان کی فروخت کے لیے بے تحاشا استعمال کر کے ہم یہ تصور دے رہے ہیں کہ عورت کی عزت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دے رہے ہیں۔ کسی کو اس میں عورت کی عزت دکھائی دیتی ہو تو میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے خیال میں تو یہ عورت کی تحقیر ہے، اس کی توہین ہے اور اس کی تذلیل ہے اور آج کے دور میں عورت پر روا رکھے جانے والے مظالم میں سے ایک بڑا ظلم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تجارتی تشہیر کے حوالے سے ایک اور بڑے مسئلہ کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ مارکیٹنگ کے لیے غیر ضروری ترغیبات کے ذریعے عام آدمی کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا ہے کہ انسانی زندگی کے معاشی اعتبار سے تین درجے ہیں: (۱) ایک درجہ ضروریات کا ہے (۲) دوسرا سہولیات کا ہے (۳) اور تیسرا درجہ تعیشات کا ہے۔ ضروریات کا دائرہ تو ناگزیر ہے، سہولیات کا بھی جواز ہے، مگر تعیشات کا درجہ مسلم سوسائٹی میں جواز کا درجہ نہیں رکھتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے سوسائٹی میں معیشت کا توازن بگڑتا ہے اور دیگر بہت سی معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تجارتی تشہیر کا زیادہ حصہ تعیشات کے فروغ اور اس کی طرف ترغیب دلانے کے لیے مخصوص ہے۔ مقصد صرف اپنی مصنوعات کی فروخت ہے، مگر اس سے عام آدمی کی ضروریات کا مصنوعی دائرہ پھیل رہا ہے، غریب اور متوسط گھرانے کا بجٹ تباہی کا شکار ہو رہا ہے اور ناجائز کمائی کے ذرائع بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی تجارتی تشہیر کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہے جسے سنجیدگی کے ساتھ کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام معیارِ زندگی میں اس طرز کی ’’ریس‘‘ کی اجازت نہیں دیتا جو تعیشات کا ماحول پیدا کر کے سوسائٹی کو معاشی عدمِ توازن اور معاشرتی عدمِ استحکام کا شکار کر دے۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۱۹ جنوری ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter