موت کی سزا: اقوام متحدہ اور آسمانی تعلیمات

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۸ء

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے موت کی سزا ختم کرنے کی قرارداد منظور کر لی ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے قوانین میں موت کی سزا کو ختم کر دیں۔ روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق یہ قرارداد ۵۴ کے مقابلہ میں ۱۰۴ ووٹوں سے منظور کی گئی ہے جبکہ ۲۹ ملکوں کے نمائندوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

ایک عرصہ سے اقوام متحدہ میں اس قرارداد کے لیے کام ہو رہا تھا اور بالآخر اسے ایک سفارش کے طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ انسانی جان ہر حال میں قابل احترام ہے، ہر شخص کو اپنی جان کے تحفظ کا حق حاصل ہے اور ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی جان و مال کا ہر حال میں تحفظ کرے، اس لیے موت کی سزا انسانی حقوق کے منافی ہے اور اسے دنیا کے کسی ملک کے قانون میں باقی نہیں رہنا چاہیے۔

مگر یہ بات نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ سابقہ آسمانی مذاہب اور ان کے احکام و قوانین بھی اس کی حمایت نہیں کرتے۔ قرآن کریم نے انسانی جان کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے، لیکن سورۃ المائدہ آیت ۳۳ میں ’’بغیر نفس او فساد فی الارض‘‘ کی شرط عائد کر کے واضح کیا ہے کہ کسی انسان کو ناحق قتل کرنے والے اور سوسائٹی میں فساد پھیلانے والے شخص کو جان کی حرمت حاصل نہیں ہے۔ بلکہ سورۃ البقرہ آیات ۱۷۸ اور ۱۷۹ میں قصاص کے قانون کو مسلمانوں پر فرض قرار دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا انسانی سوسائٹی میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے اور زندگی کی ضمانت ہے۔ اسی طرح جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں جہاں یہ فرمایا کہ ’’ان دماء کم وأموالکم واعراضکم وأبشارکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شہرکم ھذا‘‘ (بخاری شریف) بے شک تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں اور تمہارے چمڑے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے حج کے دن کی، حج کے مہینہ کی اور بلد الحرام کی حرمت ہے، وہاں قصاص کے قانون کی اہمیت بھی بیان فرمائی اور اسلامی تعلیمات و حکام کے ایک لازمی حصہ کے طور پر اس کا تذکرہ فرمایا۔

اسلام نے کسی انسان کی ناحق جان لینے کے علاوہ زنا، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت، توہین رسالت اور دیگر جرائم پر بھی اپنے قوانین میں موت کی سزا رکھی ہے اور نسل انسان کے بنیادی مقاصد و مصالح کے تحفظ کے لیے اسے ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ اسلام سے قبل کے آسمانی مذاہب میں بھی موت کی سزا کے قوانین موجود تھے اور اسلام نے نہ صرف ان کے تسلسل کو بر قرار رکھا ہے بلکہ سورۃ المائدہ آیت ۴۵ میں جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان کے عنوان سے قصاص کا جو قانون بیان کیا ہے وہ توراۃ ہی کے حوالہ سے بیان کیا ہے جو آج بھی بائبل کی کتاب ’’خروج‘‘ کے باب ۲۱ آیت ۲۳ تا ۲۵ میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:

’’لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔‘‘

اسی طرح بائبل نے قصاص کے علاوہ بھی متعدد جرائم میں موت کی سزا مقرر کی ہے، چنانچہ بائبل کی کتاب ’’احبار‘‘ باب ۲۰ کی آیت ۱ تا ۱۹ میں کہا گیا کہ:

  • اپنی اولاد کو مولک (غیر اللہ) کی نذر کرنے والے کو جان سے مار دیا جائے۔
  • جو شخص اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کرے وہ جان سے مار دیا جائے۔
  • جو شخص دوسرے کی بیوی سے زنا کرے زانی اور زانیہ دونوں کو جان سے مار دیا جائے۔
  • سوتیلی ماں سے صحبت کرنے پر دونوں کو جان سے مار دیا جائے۔
  • بہو سے صحبت کرنے پر دونوں کو جان سے مار دیا جائے۔
  • مرد کے مرد سے صحبت کرنے پر دونوں کو جان سے مار دیا جائے۔
  • کوئی عورت کسی جانور سے صحبت کرے تو دونوں کو جان سے مار دیا جائے، وغیر ذلک۔

اس لیے سنگین جرائم پر موت کی سزا آسمانی تعلیمات کا حصہ ہے، فطری قانون ہے اور انسانی سوسائٹی میں امن و امان اور دینی و اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے، جسے ختم کرنا انسانی معاشرے کو بد اَمنی اور روحانی و اخلاقی فساد کے جہنم میں دھکیل دینے کے مترادف ہوگا۔ اس بنا پر ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی مذکورہ قرارداد کو آسمانی تعلیمات سے انحراف اور نسل انسانی کے اجتماعی مفاد و مصلحت کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں اور تمام آسمانی مذاہب بالخصوص عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نسل انسانی کو اس ہمہ جہت انارکی کی طرف لے جانے والے رجحانات کی روک تھام کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter