چھ ستمبر یومِ دفاع پاکستان اور سات ستمبر یومِ ختمِ نبوت

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۴ اگست ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اگست ہمارا یوم آزادی کا مہینہ ہے۔ ۱۴ اگست کے حوالے سے ملک بھر میں تقریبات ہو رہی ہیں۔ ستمبر ہمارا دفاعِ پاکستان کا مہینہ ہے، پورا مہینہ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے مقالات، مضامین، سیمینار، پروگرام، جلسے ہوتے رہیں گے اور ہم دفاعِ وطن کے عنوان سے اپنے جذبات، موقف اور احساسات کا اظہار کریں گے۔ اسی دوران ستمبر میں ہی ربیع الاول شروع ہو جائے گا پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کے ساتھ محبت و عقیدت کے پروگرام چلتے رہیں گے۔

دفاع پاکستان کے حوالے سے چھ ستمبر تو ملک کے جغرافیائی سرحدوں کا یومِ دفاع ہے، انڈیا کی فوجوں نے لاہور پہ حملہ کیا تھا جو پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اور قوم نے متحد ہو کر ناکام بنا دیا تھا۔ بہت بڑا حملہ تھا اور انڈیا کی بڑی ناکامی تھی کہ ان کا لاہور پر قبضہ کرنے کا پروگرام ناکام ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے چھ ستمبر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کا دن ہے۔

جبکہ ۷ ستمبر کو یومِ تحفظِ ختمِ نبوت ہے جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا دن ہے۔ وہ بھی دفاعِ پاکستان ہے اور یہ بھی دفاعِ پاکستان ہے۔ سات ستمبر کو اب سے ۵۰ سال پہلے ۱۹۷۴ء میں پاکستانی عوام کی طویل جدوجہد کے بعد ملک کی پارلیمنٹ نے یہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے کہ قادیانی ایک نئی نبوت کے نئی وحی کے پیروکار ہیں اس لیے یہ مسلمان نہیں ہیں اور ان کو پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ پوری قوم کا متفقہ فیصلہ تھا اور پچاس سال پورے ہونے پر ’’گولڈن جوبلی‘‘ کے طور پر اجتماعات ہو رہے ہیں۔

سب سے بڑا اجتماع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سات ستمبر کو مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں ہوگا جس میں تمام مکاتبِ فکر کے راہنما خطاب کریں گے اور پوری قوم ایک دفعہ پھر ختم نبوت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ اور ایمان کا اظہار کرے گی کہ ہم وہیں کھڑے ہیں۔ دنیا نے بہت جتن کیے ہیں، بین الاقوامی اداروں، دنیا بھر میں قادیانیوں کے سرپرستوں، اور ملک کے اندر ان کی لابیوں نے ۵۰ سال بڑے جتن کیے ہیں لیکن الحمد للہ وہ مسلمانوں کے جذبات اور ملک کے دستور کے فیصلہ میں ردوبدل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ یومِ ختمِ نبوت کے حوالہ سے خوشی کا اظہار ہوگا اور قوم اپنے عزم کا اعادہ کرے گی کہ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ملک کا پہرہ دیں گے۔ چھ ستمبر کا حوالہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے پہرے کی یاد ہے اور سات ستمبر ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی یاد ہے۔

سات ستمبر کو جب ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تو اس میں مسلم لیگ تھی، پیپلز پارٹی تھی، عوامی نیشنل پارٹی تھی، جمعیۃ علماء پاکستان تھی، جماعت اسلامی تھی اور جمعیۃ علماء اسلام بھی تھی۔ قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تھے اور قائد حزبِ اختلاف حضرت مولانا مفتی محمودؒ تھے جبکہ ان کے ساتھ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی، حضرت مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی، حضرت مولانا محمد ذاکر جھنگ والے اور دیگر اکابر علماء رحمہم اللہ تعالیٰ تھے۔ علماء کی اچھی خاصی ٹیم تھی، انہوں نے یہ معرکہ سر کیا تھا۔ بنیادی فیصلہ حکمران پارٹی کا تھا اور الحمد للہ آج بھی مجھے خوشی ہوتی ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی اپنے کارناموں میں یہ شمار کرتی ہے کہ ہم نے ملک کو دستور دیا اور ہم نے ختمِ نبوت کا مسئلہ حل کیا، ان کا کریڈٹ بہرحال بنتا ہے۔ اس مناسبت سے میں بھٹو مرحوم کے حوالے سے دو واقعات ذکر کرنا چاہوں گا۔

ایک واقعہ اس دوران کا ہے جب اسمبلی میں بحث چل رہی تھی کہ قادیانیوں کا اسٹیٹس کیا ہے اور ان کی ملک میں حیثیت کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے؟ قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر احمد تھے، ان کو اسمبلی میں بلایا گیا اور گیارہ دن بحث مباحثہ چلتا رہا۔ ایسے ہی نہیں فیصلہ ہوا بلکہ بحث مباحثے کے بعد پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا، سیاسی پارٹیاں اور ملک کے تمام طبقات سڑکوں پر تھے، تاجر بھی تھے اور وکیل بھی تھے، اساتذہ بھی تھے اور سٹوڈنٹس بھی تھے، پوری قوم کا اجتماعی مطالبہ تھا۔

قادیانیوں کا ایک دجل یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیتیں بھی پڑھیں گے، حدیثیں بھی پڑھیں گے اور اپنے حق میں استدلال کریں گے۔ اسمبلی میں بھی یہی ہوا کہ مرزا ناصر احمد نے قرآن پاک کی آیتیں اور حدیثیں پڑھنی شروع کر دیں تو حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر جمعیۃ علماء اسلام کی مجلسِ شوری کے اجلاس میں بھٹو مرحوم کے ایک سوال کا ذکر کیا۔ اب ظاہر بات ہے کہ کسی مسئلے پر دونوں طرف سے قرآن پاک کے آیتیں اور حدیثیں پڑھی جا رہی ہوں جبکہ سننے والوں کو قرآن کا علم ہو اور نہ حدیث سے واقفیت ہو تو کنفیوژن پیدا ہو گی۔ بھٹو صاحب نے مفتی صاحب سے کہا کہ میں کنفیوژ ہو رہا ہوں، وہ بھی آیتیں پڑھتے ہیں اور آپ بھی آیتیں پڑھتے ہیں، وہ بھی حدیثیں پڑھتے ہیں اور آپ بھی حدیثیں پڑھتے ہیں۔ اب یہ فطری بات ہے کہ عام آدمی جو قرآن و حدیث دونوں سے بے خبر ہے وہ الجھن کا شکار ہو گا۔ بھٹو صاحب نے مفتی صاحب سے کہا کہ مجھے قرآن کریم سے آپ سادہ سی بات بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

مفتی صاحب نے کہا سادہ سی بات یہ ہے کہ قرآن پاک کے پہلے پارہ کے پہلے رکوع میں اللہ پاک نے بات صاف کر دی ہے۔ سورۃ البقرہ کی پہلی دو آیتیں: ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الم ذٰلك الكتاب لا ريب فيہ۔ ہدى للمتقين۔ الذين يؤمنون بالغيب ويقيمون الصلوٰۃ ومما رزقناہم ينفقون‘‘۔ اللہ پاک نے متقین کی تعریف کی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں: وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ "والذين يؤمنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك" وہ لوگ مومن ہیں جو آپ پر نازل کی ہوئی وحی کو مانتے ہیں اور آپ سے پہلے پیغمبروں کی وحی کو مانتے ہیں۔ مفتی صاحب نے کہا کہ اگر بعد میں کوئی نبی آنے والا ہوتا تو اس کا بھی یہاں ذکر ہوتا۔ کیونکہ قرآن پاک قیامت تک کے لیے ہے، اگر بعد میں بھی کوئی نبی آنا ہوتا تو "من بعدک" بھی ہوتا جو کہ نہیں ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ مفتی صاحب! میں بات سمجھ گیا ہوں، مسئلہ حل ہو گا، ان شاء اللہ۔

دوسری بات جو بھٹو صاحب کی یادداشتوں میں چھپی ہوئی ہے، اس میں بھٹو صاحب نے قادیانی مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا کو ناراض کر کے میں نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا؟ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا چھوٹا فیصلہ نہیں تھا، بہت بڑا فیصلہ تھا مگر پوری قوم کے مطالبہ پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ یہ احمدی لوگ پاکستان میں وہی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کا کوئی فیصلہ اور کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر نہ طے ہو۔ وہ مذہبی پہلو تھا اور یہ سیاسی پہلو تھا ملک کی سالمیت اور خودمختاری کا۔ دیکھیں، امریکہ میں یہودی کتنے ہیں؟ ایک یا ڈیڑھ فیصد۔ اور امریکہ کی سیاست، معیشت، میڈیا اور امریکی پالیسیوں پر کنٹرول کس کا ہے؟ اب اسرائیل اور فلسطینی کی جنگ ہو رہی ہے تو امریکہ کس کی پشت پر ہے؟ علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘‘ جو آج نظر آرہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ہر ظلم کی سرپرستی کر رہا ہے۔ تو بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل برداشت نہیں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہو اور کنٹرول مرزائی کریں۔چنانچہ قادیانیت کا مسئلہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ بھی ہے اور ہمارے ملک کی سالمیت و خود مختاری کا مسئلہ بھی ہے۔ ہم اس وقت آئی ایم ایف اور امریکہ کے شکنجے میں ہیں۔ اگر ہم نے آزادی حاصل کرنی ہے تو قادیانیوں کی سازشوں سے بھی جان چھڑانی ہو گی۔

اس لیے چھ ستمبر کو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کا دن بھی جوش و خروش سے منائیں اور سات ستمبر کو ملک کی نظریاتی سرحدوں کے عقیدے کے تحفظ کا دن یعنی یومِ ختمِ نبوت بھی پورے جوش و خروش سے منائیں۔ سات ستمبر کو پورے ملک سے بھرپور قافلے لاہور جائیں گے تو آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ابھی سے تیاری شروع کریں، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ تعاون کریں اور شرکت کی تیاری بھی کریں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ تیار کریں اور دعائیں بھی کرتے رہیں کہ اللہ پاک اس مشن پر ہمیں استقامت نصیب فرمائے اور کامیابیاں عطا فرمائے، آمین۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ ستمبر ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter