حالات حاضرہ اور پاکستان شریعت کونسل کا موقف

   
تاریخ : 
۱۷ مئی ۲۰۱۸ء

متحدہ مجلس عمل نے مینار پاکستان پارک میں پرہجوم جلسہ عام منعقد کر کے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو میں اس میں شریک تھا بلکہ مولانا فضل الرحمان اور جناب سراج الحق کے خطابات میں نے اسٹیج پر ان کے پیچھے بیٹھ کر سنے اور اس بات پر اطمینان حاصل ہوا کہ دینی جماعتوں کے اس اتحاد کا جوش و خروش، عزم و حوصلہ اور اس کے ساتھ عوامی اعتماد کی بھرپور لہر اس کے روشن مستقبل کی غمازی کر رہی ہے۔

میں متحدہ مجلس عمل کے گزشتہ دور میں بھی اس کا سپورٹر تھا بلکہ گوجرانوالہ میں حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کی قومی اسمبلی کے الیکشن میں شاندار کامیابی میں بحمد اللہ تھوڑا بہت حصہ میرا بھی شامل تھا۔ جبکہ والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اس الیکشن میں گکھڑ کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار جناب بلال قدرت بٹ کی کھل کر حمایت کی تھی جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور گکھڑ کی حد تک الیکشن میں انہوں نے اکثریت حاصل کر لی تھی جس کی وجہ ہر شخص کی زبان پر یہ تھی کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی اعلانیہ حمایت کی وجہ سے وہ گکھڑ شہر میں یہ کامیابی حاصل کر پائے ہیں۔ اس لیے اب دوبارہ متحدہ مجلس عمل میدان میں آئی ہے تو میرے لیے یہ بہرحال خوشی کی بات ہے اور میں ہر مناسب موقع پر اس کی حمایت کر رہا ہوں۔

مجھ سے بعض دوستوں نے سوال کیا ہے کہ پاکستان شریعت کونسل خود کو انتخابی سیاست سے الگ تھلگ کہتی ہے تو اس کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میری سرگرمیوں میں متحدہ مجلس عمل کی اس حمایت کی گنجائش کہاں تک ہے؟ میں نے ان سے عرض کیا کہ پاکستان شریعت کونسل کی شروع سے طے شدہ پالیسی یہ ہے کہ وہ بطور جماعت انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی، اس کی مرکزی قیادت بالخصوص امیر اور سیکرٹری جنرل خود الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اور کسی بھی انتخابی مہم میں پاکستان شریعت کونسل کا نام اور حوالہ استعمال نہیں ہوگا۔ اس سے ہٹ کر پاکستان شریعت کونسل کے راہنما اور کارکن اپنے طور پر ذاتی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے اور کسی پارٹی یا شخص کی حمایت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے ۱۵ مئی کو اسلام آباد میں سرکردہ جماعتی احباب کو مشاورت کے لیے اسلام آباد میں طلب کیا اور ان کی زیر صدارت اجلاس میں اس پالیسی کی دوبارہ توثیق کی گئی ہے جس کا میں نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔ اجلاس میں جن دیگر مسائل پر غور و خوض کے بعد رائے قائم کی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • پاکستان میں اس وقت ریاستی اداروں کے درمیان کشمکش کی جو صوتحال دکھائی دے رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے اور اضطراب انگیز ہے۔ اداروں میں ٹکراؤ کسی بھی ریاست کے لیے تباہ کن ہوتا ہے اس لیے ہماری تمام اداروں اور مقتدر حلقوں سے اپیل ہے کہ خدا کے لیے ملک و قوم پر رحم کیا جائے اور دستور پاکستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر ریاستی ادارہ اپنے فرائض سر انجام دے۔ جبکہ باہمی اعتماد و احترام کو بحال کرنے کے لیے سنجیدہ محنت کی جائے جو تمام محب وطن حلقوں کی ذمہ داری ہے۔
  • قومی سیاست میں دینی جماعتوں کے اتحاد کو ہم وقت کی سب سے اہم ضرورت سمجھتے ہیں اور اسی حوالہ سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں بلکہ اس کا دائرہ وسیع کرنے اور اس میں دیگر دینی جماعتوں کو شریک کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ خدانخواستہ انتخابات میں دینی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کی صورت میں ان کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور باہمی تعاون و اشتراک کی صورت پیدا کرنے کی محنت کریں۔
  • اسلام آباد سے ایک پاکستانی شہری کے قتل کے مقدمہ کے ملزم کرنل جوزف کی ڈرامائی وطن واپسی کو ہم ملکی وقار اور خودمختاری کے تقاضوں کے منافی سمجھتے ہیں اور اسے سفارتی استثنا کے استعمال کی انتہائی مکروہ صورت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔ قوانین ملکی ہوں یا بین الاقوامی ان کا بنیادی مقصد انسانی جان و حرمت کا تحفظ ہوتا ہے اور کسی قانون کو انسانی قتل جیسے معاملہ میں ملزم کی رہائی کے لیے استعمال کرنا عدالتی نظام کی توہین کے مترادف ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور تمام قومی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کے دستور و قانون کے احترام اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کریں۔
  • پاکستان شریعت کونسل ملکی انتخابات میں براہ راست حصہ دار نہیں بنے گی البتہ ملک کے تمام ووٹروں بالخصوص دینی کارکنوں اور جاعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ (۱) پاکستان کے نظریاتی تشخص (۲) ریاستی خودمختاری (۳) قومی وحدت (۴) ملکی سالمیت (۵) نفاذ اسلام (۶) تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت کے قوانین (۷) دستور و قانون کی بالادستی (۸) اور اسلامی و مشرقی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں اولیت دیں اور کسی بھی جماعت یا امیدوار کی حمایت کے لیے ان امور کی پاسداری کی تحریری یقین دہانی کا اہتمام کریں۔ نیز ان امور سے انحراف اور ان کے منافی سرگرمیوں کی مرتکب جماعتوں اور امیدواروں کی حوصلہ شکنی کریں۔
  • بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کا قیام اور اس موقع پر بہت سے مظلوم فلسطینیوں کی المناک شہادت امریکی جارحیت کا کھلم کھلا اظہار ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ عالم اسلام کے حکمرانوں اور راہنماؤں کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے اور زبانی مذمت کی بجائے مل بیٹھ کر اس کی روک تھام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے امریکی ہٹ دھرمی کے خلاف متفقہ موقف اختیار کیا جائے اور بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت دینے کی پالیسی کو مسترد کیا جائے۔
  • حرمین شریفین، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے خلاف سازشوں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور سعودی عرب کی وحدت و سالمیت کو درپیش خطرات کا عالم اسلام کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے داخلی دینی و تہذیبی ماحول کا تحفظ بھی ضروری ہے کیونکہ عالمی استعمار پورے عالم اسلام کی طرح سعودی عرب کے داخلی دینی و تہذیبی ماحول کو سبوتاژ کرنے اور اسے مغربی تہذیب کی شکارگاہ بنانے کے لیے کچھ عرصہ سے سرگرم دکھائی دے رہا ہے جس کا نوٹس لینا ضروری ہے اور عالم اسلام کی علمی و دینی قیادت کو اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
  • ملک میں سوشل میڈیا اور دیگر دائروں میں دینی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان مختلف مسائل پر بحث و مباحثہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے جو زبان اور لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ہم سب دینی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بحث و مباحثہ میں باہمی الزام تراشی، توہین و تحقیر اور طنز و استہزا سے مکمل گریز کرتے ہوئے دلیل اور شستگی کے ساتھ مسائل پر بحث و مکالمہ کے رجحان کو فروغ دیں۔
  • پاکستان کے سرکردہ دینی راہنماؤں شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرورؒ، حضرت مولانا مشرف علی تھانویؒ، ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا حسین احمد قریشیؒ آف بھوئی گاڑ کی وفات حسرت آیات تمام علمی و دینی حلقوں کے لیے صدمہ کا باعث اور عظیم نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

اس موقع پر پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے پنجاب کے لیے کونسل کے نئے صوبائی تنظیمی ڈھانچے کی منظوری دی جس کے مطابق نئے صوبائی عہدیدار درج ذیل ہوں گے: امیر مولانا قاری جمیل الرحمان اختر لاہور، نائب امیر اول مولانا صلاح الدین فاروقی ٹیکسلا، نائب امیر دوم مولانا عبد الاحد بلال ملتان، نائب امیر سوم مولانا قاری عبید اللہ عامر گوجرانوالہ، سیکرٹری جنرل مولانا مفتی محمد نعمان پسروری، ڈپٹی سیکرٹری اول مولانا قاری عبد المالک فاروقی جھنگ، ڈپٹی سیکرٹری دوم مولانا فیصل احمد جوہر آباد، رابطہ سیکرٹری قاری محمد عثمان رمضان لاہور، سیکرٹری اطلاعات حافظ عبید الرحمان معاویہ لاہور، سیکرٹری مالیات مفتی محمد نعمان گوجرانوالہ۔

پاکستان شریعت کونسل کی نئی صوبائی مجلس عاملہ رمضان المبارک کے بعد اجلاس منعقد کر کے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter