ایک دبنگ شخصیت کی رخصتی

   
۱۰ جنوری ۲۰۱۳ء

ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے انتقال پر نہ صرف پاکستان میں، بلکہ پورے عالم اسلام کے دینی و سیاسی حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کی قومی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ قاضی صاحب کا صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق تھا۔ وہ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الرب رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ قاضی صاحب مرحوم نے خود مجھے بتایا کہ ان کا گھرانہ صوبہ سرحد میں جمعیت علمائے ہند کا مرکز تھا اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی صوبہ سرحد میں آمد پر قاضی صاحب کا گھر ان کی فرودگاہ ہوتا تھا۔ قاضی حسین احمد نے بتایا کہ ان کے خاندان کو حضرت مدنیؒ سے گہری عقیدت تھی اور ان کا نام حسین احمد حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نام پر رکھا گیا تھا۔

قاضی صاحبؒ نے یہ بھی بتایا کہ وہ حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہیں، اس طرح کہ وہ چھ سال کی عمر تک بولنے کی صلاحیت سے محروم تھے اور گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت مدنیؒ کی تشریف آوری پر ایک بار میرے والد محترمؒ نے مجھے حضرت مدنیؒ کی گود میں بٹھا دیا اور کہا کہ حضرت! یہ آپ کا پوتا ہے، چھ سال کا ہو گیا ہے، لیکن بول نہیں سکتا، اس کے لیے دعا فرمائیں۔ قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ حضرت مدنیؒ نے مجھے دم کیا، سر پر ہاتھ پھیرا اور منہ میں تھوکا، اس کے بعد میں نے بولنا شروع کر دیا۔ قاضی صاحبؒ یہ واقعہ بیان کر کے کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہوں۔ قاضی صاحبؒ کے بھائی مولانا عبد القدوس رحمہ اللہ تعالیٰ بھی فاضل دیوبند تھے اور کچھ عرصہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے ہیں۔

میرا رابطہ قاضی حسین احمد سے اس دور میں ہوا، جب وہ میاں طفیل محمد مرحوم کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم منتخب ہوئے۔ میں اس وقت پاکستان قومی اتحاد کا صوبائی سیکرٹری جنرل تھا اور جماعت اسلامی قومی اتحاد میں شامل اہم جماعت تھی، اس حیثیت سے میرا رابطہ زیادہ تر جماعت کے صوبائی امیر مولانا فتح محمد مرحوم سے رہتا تھا، لیکن قاضی صاحب سے بھی مختلف حوالوں سے ملاقات ہو جاتی تھی۔

بعد میں سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کے پیش کردہ شریعت بل کے حوالے سے ملک بھر میں تحریک منظم ہوئی تو مختلف دینی جماعتوں کا مشترکہ فورم ”متحدہ شریعت محاذ “ کے نام سے قائم ہوا، جس کے صدر مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک اور سیکرٹری جنرل قاضی حسین احمد منتخب ہوئے، جبکہ سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی۔ متحدہ شریعت محاذ کے دیگر رہنماؤں میں مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ، مولانا معین الدین لکھویؒ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور مولانا محمد اجمل خانؒ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔

جماعت اسلامی کے عمومی تنظیمی مزاج سے ہٹ کر قاضی حسین احمدؒ میں تحرک اور توسع زیادہ تھا، جس کی وجہ سے وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ گھل مل کر کام کرنے کے عادی تھے اور اس حوالے سے انہیں جماعت کے اندرونی حلقوں میں بسا اوقات تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑتا تھا، لیکن قاضی صاحبؒ کے اس توسع اور تحریکی مزاج نے جماعت اسلامی کو ایک متحرک عوامی جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی دوران قاضی صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہو گئے، مگر اس سے ان کے مزاج اور ترجیحات میں کوئی فرق نہیں آیا۔

مجھے ان کے ساتھ متحدہ شریعت محاذ کی ٹیم میں کچھ عرصہ اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا اور ہمارا رابطہ رفتہ رفتہ بے تکلف دوستی میں تبدیل ہو گیا، جو اس کے بعد بھی جاری رہا اور بہت سے دینی کاموں میں ہماری شرکت رہی۔ بہت سے دوسرے دوست بھی اپنے اپنے بارے میں یہ محسوس کرتے ہوں گے، لیکن مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا کہ قاضی حسین احمدؒ کی میرے ساتھ بے تکلفی ہے۔ اس لیے کہ وہ بہت سی باتیں اعتماد کی فضا میں ایسی کر جایا کرتے تھے جو شاید اس بے تکلفی اور اعتماد سے ہٹ کر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ہمارا حال بھی یہ تھا کہ بہت سے معاملات میں ہم قاضی حسین احمدؒ کے ساتھ ایسے کھلے ماحول میں مشاورت اور گفتگو کر لیا کرتے تھے، جو اس سطح کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ، خاص طور پر جماعت اسلامی کی قیادت کے کسی ذمہ دار فرد کے ساتھ بظاہر مشکل لگتی تھی۔

متحدہ شریعت محاذ کے علاوہ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی ہمارا ساتھ رہا، جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کا پرچار کرنے اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات، اصطلاحات اور شعائر کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا اور ”امتناع قادیانیت آرڈیننس“ کا صدارتی آرڈیننس جاری ہوا، جس کی بعد میں پارلیمنٹ نے بھی توثیق کر دی۔

ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل نو کے مرحلے میں قاضی صاحبؒ نے مجھے خود دعوت دی اور فون پر بات کی۔ ان کا خیال تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کی مرکزی ٹیم میں ان کے ساتھ کوئی اہم ذمہ داری قبول کر لوں، لیکن میں نے خود کو گزشتہ دو عشروں سے انتخابی اور تحریکی سیاست سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے، نظریاتی، فکری اور علمی محاذ پر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے ”پاکستان شریعت کونسل“ کے نام سے مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی امارت میں ایک مستقل فورم موجود ہے، جو انتخابی اور تحریکی سیاست سے الگ رہتے ہوئے علمی و فکری محاذ پر نفاذِ اسلام کے لیے مصروفِ عمل رہتا ہے، اس لیے ملی یکجہتی کونسل کی نئی صف بندی میں شریک ہونے سے میں نے معذرت کر لی۔

قاضی حسین احمد پاکستان کی قومی سیاست اور دینی تحریکوں کا ایک متحرک کردار تھے۔ انہوں نے جس جوش و جذبے اور خلوص و تدبر کے ساتھ ملک و قوم اور دین و شریعت کے لیے محنت کی وہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter