مسلمان ممالک کا اسرائیل کو دہشت گرد قرار دینے پر اتفاق

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۰۹ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۲ فروری ۲۰۰۹ء کی خبر کے مطابق سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں گزشتہ دنوں بچوں کے بارے میں منعقد ہونے والی مسلمان ملکوں کی دوسری سالانہ بین الاقوامی کانفرنس میں ۳۶ مسلمان ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسرائیل کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے اسے دنیا میں مسلمانوں کے اجتماعی فورم کی طرف سے دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کرانے کی مہم چلائی جائے گی۔

بہت سے حلقوں کی طرف سے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے جرأتمندانہ اور حقیقت پسندانہ فیصلہ قرار دیا گیا ہے اور ہم بھی اسے لائق تحسین سمجھتے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں اس کا نتیجہ خود فریبی اور آپس میں ایک دوسرے کو تسلی دینے کے سوا کچھ نہیں ہو گا اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اور عالمی استعماری قوتوں کے زیر سایہ جو کچھ کرنے جا رہا ہے اس کا راستہ اس قسم کی رسمی قراردادوں اور اعلانات سے نہیں رکے گا بلکہ اس کے لیے عالم اسلام اور عالم عرب کو متحد ہو کر کوئی عملی اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔

کس قدر المیہ کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت اور تشدد و بربریت کے شرمناک مظاہرہ کے دوران نہ عالم عرب کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر سکا اور نہ ہی عالم اسلام کو توفیق ہوئی کہ وہ اسرائیلی جارحیت کا راستہ روکنے کے لیے کوئی مشترکہ قدم اٹھا سکے، اور اب سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہوئے ۳۶ مسلمان ممالک اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف مہم چلانے کی سوچ رہے ہیں۔ بہرحال سوچ کی حد تک سہی یہ ایک اچھا فیصلہ ہے مگر اصل ضرورت کسی پروپیگنڈا مہم کی نہیں بلکہ عالم اسلام اور عالم عرب کی اسرائیل کی طرف سے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام اور عالم عرب کے حکمران مل بیٹھ کر متفقہ طور پر اسرائیل اور اس کے سر پرستوں کو دوٹوک لہجہ میں یہ بات کہہ دیں کہ فلسطینی عوام کے ساتھ آئندہ کوئی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی اور اسرائیل کو بالآخر عالمی رائے عامہ اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق اور مطالبات کے سامنے سرنڈر ہونا پڑے گا۔ جب تک عالم اسلام اور عالم عرب کے حکمران متفقہ طور پر اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یہ دو ٹوک پیغام نہیں دیتے، محض قراردادوں اور پراپیگنڈا مہموں کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کے زہر کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter