(پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے خطیب مولانا احمد الرحمان فاضل جامعہ نصرۃ العلوم کی تصنیف ’’کورٹ میرج کی شرعی حیثیت‘‘ پر تقریظ کے طور پر لکھا گیا۔)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مغرب اپنے ہاں خاندانی نظام بکھر جانے پر سر پکڑے بیٹھا ہے جس کی ایک جھلک نوٹنگھم برطانیہ کے ایک بڑے مسیحی مذہبی راہنما فادر کینن نیل نے ایک ملاقات میں یوں بیان کی کہ آسمانی تعلیمات اور مذہبی احکام و اقدار سے بغاوت کے معاشرے پر اثرات تباہ کن ہیں، سوسائٹی بکھر کر رہ گئی ہے، پڑوسی، دوست اور رشتہ داری کا کوئی تصور باقی نہیں رہا، نفسا نفسی کا عالم ہے، خاندانی نظام تتر بتر ہو گیا ہے، ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، حتیٰ کہ مکانات بنانے والی سوسائٹیاں اب جو مکان بنا رہی ہیں وہ کسی فیملی کے رہنے کی غرض سے نہیں بلکہ ایک دو افراد کے رہنے کے لیے چھوٹے چھوٹے فلیٹ بن رہے ہیں، بدکاری، شراب اور منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے، زندگی کی ظاہری سہولتوں کی فراوانی کے باوجود ذہنی سکون غارت ہو گیا ہے اور اسمگلنگ، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
یہ انٹرویو کا ایک حصہ ہے جو میں نے خود ان سے کیا تھا اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ۵ اگست ۱۹۹۷ء کو شائع ہوا تھا، اسے میری ویب سائٹ zahidrashdi.org پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک پادری صاحب کے خیالات نہیں بلکہ روس کے سابق صدر میخائیل گورباچوف، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جان میجر، اور امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اسی معاشرتی حقیقت کا کھلے بندوں اعتراف کر چکی ہیں کہ مغرب کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بکھرتے چلے جانے کے اس عمل کو بریک لگا نے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
خاندانی نظام اور رشتوں کی تشکیل کے دو بنیادی ستون ہیں۔ اس میں ایک یہ کہ زِنا کی ہر صورت کو جرم قرار دے کر صرف باقاعدہ نکاح کو ہی مرد اور عورت کے تعلق اور نسل کی جائز بنیاد تسلیم کیا جائے، ورنہ مرد اور عورت بلکہ مرد اور عورت کے جنسی تعلقات کے موجودہ مغربی ماحول کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو نہ میاں بیوی کے رشتے کا کوئی تقدس باقی رہ جاتا ہے اور نہ ہی باقی رشتوں کا وجود قائم رہتا ہے۔ جبکہ دوسری بنیاد خاندانی نظام میں کسی ایک کی سنیارٹی کو تسلیم کرنا ہے، کیونکہ فطری بات ہے کہ کسی بھی ادارے میں فائنل اتھارٹی ایک نہ ہو تو اس کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ انسانی سوسائٹی کا کوئی بھی ادارہ یکساں اختیارات کی حامل دو متوازی اتھارٹیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح خاندانی نظام بھی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے یہ فطری اصول بیان کیا ہے کہ ’’ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجۃ‘‘ (البقرہ ۲۲۸)عورتوں کے لیے وہی حقوق ہیں جو اُن پر مردوں کے لیے ہیں۔
البتہ مردوں کو سنیارٹی حاصل ہے، یہ سنیارٹی نظام کا ناگزیر تقاضہ ہے اور اس سے انحراف کی سزا خود مغرب بھگت رہا ہے۔ اسی طرح خاندانی نظام میں ماں باپ کی سرپرستی اور نگرانی بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر عورت اپنے حقوق و مفادات کی خود حفاظت کرنے میں اکثر کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ شادی کے بعد بیوی نے خاوند کے ساتھ رہنا ہے وہ جہاں بھی رہے، مگر فقہاء اسلام نے لکھا ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ سے اتنی دور نہیں لے جا سکتا جس سے ان کے درمیان میل جول کے مواقع ختم ہو جائیں۔ جس کا ایک سبب صاحب ہدایہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ’’لان الغربیۃ توذی‘‘ کہ مسافر عورت کو اذیت دی جاتی ہے اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ یہ بھی خاندانی نظام کا ایک حصہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی تناظر میں ہمارے ہاں ایک مسئلہ مسلسل سنگینی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے کہ وَلی یعنی خاندانی سرپرست کی اجازت کے بغیر کوئی خاتون ازخود شادی کر لے تو اس کا نکاح شرعاً ہو جاتا یا نہیں؟ اس پر فقہاءِ امت کی بڑی تعداد کا موقف ہے کہ وَلی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا جبکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ نکاح ہو جاتا ہے، جسے حضرت علامہ سید انور شاہؒؒ نے یوں تعبیر کیا ہے کہ نکاح میں خاتون اور اس کے وَلی دونوں کی رضا اس نکاح کے جائز ہونے کے لیے شرط ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کی رضا کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مگر ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ماں باپ کی رضا اور علم میں لائے بغیر لڑکا لڑکی نکاح کر لیتے ہیں اور بعض عدالتیں اسے صرف اس جزئیہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیتی ہیں اور باقی متعلقہ معاملات کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ کسی کیس میں ایک جج صاحب نے اس قسم کے نکاح کو نافذ قرار دیا تو میں نے ان سے باقاعدہ تحریر طور پر عرض کیا کہ متعلقہ کیس میں لڑکی گھر سے بھاگی ہے اور جس نکاح کو عدالتی فیصلہ میں جائز تسلیم کیا گیا ہے، اس سے پہلے کم و بیش دو ماہ اس غیر محرم لڑکے کے ساتھ ہوٹلوں میں رہی ہے، جج صاحب کو یہ جزئیہ تو یاد رہا کہ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے مگر ان سے میرا یہ سوال ہے کہ نکاح سے پہلے جو سارے مراحل گزرے ہیں اس کو جج صاحب نے کون سے شرعی ضابطے کے تحت جائز تسلیم کر لیا ہے اور ان کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟
یہ صرف ایک مثال ہے اس قسم کے بہت سے کیس عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہیں جو ہمارے خاندانی نظام میں افراتفری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری طرف سے یہ گزارش ایک عرصہ سے کی جا رہی ہے کہ اپنے خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار و روایات کو مغربی فلسفہ و ثقافت کی بھینٹ چڑھا دینے کی بجائے ہمیں اسلامی تعلیمات اور شرعی احکام و قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے۔ اور شرعی احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح میں بھی سوسائٹی کے مجموعی ماحول اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے موقف اختیار کرنا چاہئے۔
ہمارے فاضل دوست مولانا احمد الرحمان صاحب نے اسی صورتحال میں پاکستانی معاشرے میں رونما ہونے والے بعض واقعات کی بنیاد پر اس مسئلہ پر علمی انداز میں بحث کی ہے اور اس موقف کی تائید میں دلائل پیش کیے ہیں کہ خاندانی سرپرست یعنی وَلی کی رضا کے بغیر کسی عورت کا نکاح جائز تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جس سے ان کا مقصد معاشرے میں اس عنوان سے مسلسل بڑھتے چلے جانے والی خاندانی افراتفری کو روکنا اور عدالتی نظام کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اپنے خاندانی نظام اور تہذیبی اقدار و روایات کا تحفظ بھی جج صاحبان کی ذمہ داری اور اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے۔
مولانا احمد الرحمان صاحب کی اس کاوش کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ان کی اس محنت کو قبول فرمائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں، آمین یارب العالمین۔