ملک بھر میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی تنظیم نو کا کام جاری ہے، رکن سازی کے بعد مرحلہ وار انتخابات کا سلسلہ چل رہا ہے اور مرکزی و صوبائی جماعتی انتخابات کی طرف پیشرفت ہو رہی ہے، اس کے ساتھ ہی ’’تحفظ ناموس رسالتؐ ملین مارچ‘‘ کے عنوان سے اجتماعات بھی تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور ایک درجن کے لگ بھگ شہروں میں کامیاب عوامی ریلیوں کے بعد اب ۲۸ اپریل کو مانسہرہ میں بڑا عوامی مظاہرہ کرنے کی تیاریاں نظر آرہی ہیں۔ بعض دوستوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی اور مجھ سے بھی مختلف مقامات سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان پے در پے عوامی مظاہروں کی آخر ضرورت کیا ہے؟ میں مولانا فضل الرحمٰن کی اس پالیسی کے بارے میں اس سے قبل اس کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ حالات کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہے اور ان کا رخ بھی صحیح ہے، البتہ رفتار کی تیزی پر میرے ذہن میں بھی اس حد تک تحفظ ضرور موجود ہے کہ ابھی شاید فائنل راؤنڈ کا وقت نہیں آیا اور اس سے قبل بہت سا ہوم ورک باقی ہے۔ میرے خیال میں اس حوالہ سے دو تین باتوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
- ایک یہ کہ قومی سیاست میں دینی قوتوں کا موجود و متحرک رہنا انتہائی ضروری ہے جس کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جو دینی جماعتیں قومی سیاست میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سامنے آئی تھیں انہوں نے ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل اور ۱۹۷۴ء میں تحفظ ختم نبوت کے دستوری فیصلہ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اور پھر ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ میں ملک گیر اور متحدہ عوامی سیاسی قوت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، وہ فضا آج موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی سیاسی وحدت کے اس دائرے کو توڑنے کے لیے کراچی میں لسانی عصبیت کا کارڈ کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور جب وہ استعمال کرنے والوں کی توقع سے بھی بڑھ کر مؤثر ثابت ہوا تو ملک کے دیگر حصوں میں ایسے کارڈ تلاش کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی جو دینی جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کو توڑنے اور مستقبل میں اس کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے کام آسکیں۔ یہ ایک مسلسل اور مربوط عمل تھا جس کا نتیجہ سب کو دکھائی دے رہا ہے کہ دینی قوتوں کی سیاسی وحدت و ہم آہنگی کا ۱۹۷۷ء والا ماحول اب قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ ان جماعتوں میں سے قومی سیاست میں آج صرف جمعیۃ علماء اسلام قدرے مضبوط سیاسی قوت کے طور پر دکھائی دیتی ہے جبکہ دیگر جماعتیں اپنے سیاسی ماضی کویاد کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہیں۔
- دوسرا یہ کہ قومی سیاست میں اگر دینی جماعتوں کا مؤثر وجود اور ان کی سیاسی وحدت ملک و قوم کی ضرورت ہے تو اس کے لیے تحریک نظام مصطفٰیؐ میں شامل تمام دینی جماعتوں کو میدان عمل میں متحرک ہونا چاہیے تھا مگر یہ کام صرف جمعیۃ علماء اسلام کر رہی ہے اور اگر کسی دوست کو اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں ہو رہا تو ہم اس کے لیے دعا کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔
- تیسری بات میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ قابل توجہ ہے کہ کیا قومی سیاست میں متحرک دینی جماعتوں کو اپنا ایجنڈا، پالیسی اور ترجیحات خود طے کرنی ہیں یا مختلف ملکوں کے دارالحکومتوں، سفارت خانوں اور ’’خلائی اسٹیشنوں‘‘ میں اس کی پلاننگ ہوتے رہنی ہے؟ بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مشن پر خود کو کاربند کہنے والوں کو اب حتمی طور پر اس بات کا فیصلہ کر لینا ہوگا۔ ہمارا تاریخی تسلسل یہ ہے کہ ہم نے قومی اور بین الاقوامی معاملات میں اپنے فیصلے ہمیشہ خود کیے ہیں۔ ہمارے فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن کیا ہم نے کسی مرحلہ میں کوئی فیصلہ کسی کے کہنے پر یا کسی کے اشارے پر کیا ہے؟ تحریک شیخ الہندؒ کے ایک شعوری کارکن اور تاریخ کے ایک باخبر طالب علم کے طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔
اس حوالے سے آج کا ماحول بدلا ہوا نظر آرہا ہے جبکہ میرے نزدیک اپنے فیصلے غلط یا صحیح خود کرنے کا اختیار دینی جماعتوں بالخصوص شیخ الہندؒ کے نام لیواؤں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے اور اس سے صرف نظر کرنا خودکشی کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حوالوں سے یہ جنگ تمام دینی قوتوں کو مل کر لڑنی چاہیے مگر فی الوقت مولانا فضل الرحمٰن اس معرکہ میں تنہا کھڑے نظر آرہے ہیں اسی لیے میں ان کی اس مہم کی حمایت کر رہا ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
ان گزارشات کے ساتھ میں اپنے وطن ہزارہ کے علماء کرام، دینی کارکنوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ۲۸ اپریل کو مانسہرہ کے ’’ناموس رسالتؐ ملین مارچ‘‘ کو اپنی روایات کے مطابق شاندار کامیابی سے ہمکنار کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب العالمین۔