تحفظِ حقوقِ نسواں بل: سسٹم کو درست کیا جائے

   
۴ نومبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل کی بحث پھر سے قومی حلقوں میں شدت اختیار کرنے والی ہے، اس لیے کہ ۱۰ نومبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جس کے بارے میں وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ اس میں تحفظ حقوق نسواں بل کو سلیکٹ کمیٹی کی تجویز کردہ صورت میں منظور کر لیا جائے گا، جبکہ متحدہ مجلس عمل نے اس دھمکی کا پھر سے اعادہ کیا ہے کہ ”خصوصی علماء کمیٹی“ کی سفارشات کے بغیر اس بل کو منظور کیا گیا تو اس کے ارکان اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔ مگر اس بحث اور تقابل سے قطع نظر راقم الحروف نے گزشتہ دنوں بعض ایسے حضرات سے رابطہ قائم کیا، جو عدالتی سسٹم سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں خاصے تجربے کے حامل ہیں۔ میری شروع سے رائے ہے کہ حدود آرڈیننس کے غلط استعمال یا جرائم کے کنٹرول میں ان کے مؤثر نہ ہونے کے حوالے سے جو شکایات عام طور پر پائی جاتی ہیں، ان کا تعلق قوانین سے نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویے اور عدالتی سسٹم سے ہے۔ اس لیے ان حضرات سے رائے لینی چاہیے، جو عدالتی سسٹم کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں گزشتہ ربع صدی سے قضا اور افتاء کا نظام سرکاری طور پر موجود ہے اور جج صاحبان کے ساتھ قاضی صاحبان اور مفتی صاحبان بھی تحصیل اور ضلع کی سطح پر عدالتی فرائض سرانجام دیتے ہیں، آزاد کشمیر میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ساتھ ضلع قاضی بھی شریکِ کار ہوتے ہیں اور اسلامی قوانین کے حوالے سے دونوں مشترکہ طور پر فیصلے کرتے ہیں، چنانچہ اس ضمن میں ان کا تجربہ اور معلومات زیادہ مستند اور وسیع ہیں۔ اس پس منظر میں راقم الحروف نے آزاد کشمیر کے بعض سیشن جج، ضلع قاضی اور ضلع مفتی صاحبان سے اس بارے میں رائے طلب کی ہے۔ ان میں سے تین بزرگوں نے اپنی رائے اور تجاویز سے نوازا ہے۔ مولانا قاضی بشیر احمد آزاد کشمیر کے بزرگ علماء میں سے ہیں، کم و بیش ربع صدی تک ضلعی قاضی کے طور پر فرائض سرانجام دینے کے بعد گزشتہ سال ریٹائر ہوئے ہیں اور اب ضلع باغ میں باڑی گہل کے مقام پر ایک دینی درسگاہ چلا رہے ہیں۔ مولانا مفتی رویس خان ایوبی بھی آزاد کشمیر کے بڑے علماء میں سے ہیں، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور طویل عرصے سے میر پور کے ضلع مفتی ہیں، جبکہ سردار ریاض احمد نعمانی باغ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مستند عالم دین بھی ہیں۔ مولانا قاضی بشیر احمد نے لکھا ہے کہ

”نیشنل کمیشن فار اسٹیٹس ویمن“ نے حدود آرڈیننس کو عورتوں کے مفاد کے خلاف قرار دے کر ان میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مسئلے پر آج کل پورے ملک میں گرما گرم بحث ہو رہی ہے، چنانچہ اس وقت قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل پیش ہے اور معاملے کو سلجھانے کے لیے حکومت نے اپوزیشن کے مشورے کے بعد خصوصی علماء کا ایک کمیشن قائم کیا ہے، اس کمیشن نے کافی غور و خوض کے بعد اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ہمیں خصوصی علماء کے اس موقف سے مکمل اتفاق ہے۔ حدود میں کسی طرح کی ترمیم یا تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قومی خواتین کمیشن کا یہ اعتراض کہ حدود قوانین کی مختلف دفعات کو خواتین کے خلاف امتیازی طور پر استعمال کیا اور ان کو عرصہ دراز تک بے بنیاد مقدمات میں الجھا کر جیلوں میں رکھا جاتا ہے، درست نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی تحقیق خود اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔

در حقیقت یہاں دو چیزیں قابل غور ہیں۔ ایک قانون اصل یعنی Substantive Law، دوسری چیز طریقہ کار یعنی Procedure، جہاں تک امر اول کا تعلق ہے، اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں ہے اور اس کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ کوئی زیادتی بھی نہیں پائی جاتی۔ جہاں تک دوسری چیز، یعنی طریقہ کار کا تعلق ہے، یہ قابل غور ہو سکتا ہے۔

  1. تعزیراتِ پاکستان کے تحت چالان پندرہ دن کے اندر عدالت مجاز میں پیش ہونا چاہیے، جیسا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۷۳ کا منشا ہے۔ لیکن اس میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے، اس کا ازالہ کرنے کے لیے چالان کو بروقت عدالت مجاز میں پیش کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
  2. مقدمے کی سماعت کی رفتار کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گواہان وغیرہ کی حاضری کو مقررہ تاریخ پر یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں فریقین مقدمہ اور ان کے وکلاء کی عدالت مجاز میں موجودگی کے علاوہ خود عدالت مجاز کے پریذائیڈنگ آفیسر کی حاضری کو بھی یقینی بنایا جائے۔
  3. چالان کی فہرست میں غیر ضروری گواہان اور ملزمان کو درج نہ کیا جائے، ورنہ مقدمے کی کارروائی غیر ضروری طور پر طویل ہو جائے گی۔
  4. حدود قوانین کا ایک مخصوص مزاج ہے، اس کو سمجھنے کے لیے پولیس کو خصوصی تربیت دی جائے، تاکہ پولیس عدالت مجاز میں غلط چالان پیش نہ کرے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی رپورٹ (FIR) کی بنیاد پر پولیس چالان پیش کر دیتی ہے اور مقدمے کی کافی عرصے تک سماعت کے بعد عدالت اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ پولیس نے یہ چالان غلط پیش کیا ہے، لہٰذا وہ کسی دوسری عدالت مجاز میں ازسرنو کارروائی کرتی ہے، اس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔
  5. حدود کا معاملہ دیگر قوانین سے بہت مختلف ہے۔ عدالت مجاز سماعت مکمل کرنے کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ حد کا جرم تو ثابت ہو چکا ہے، لیکن اس جرم کی جو سزا تجویز ہے وہ نافذ نہیں کر سکتی، اس لیے کہ اس سزا کو نافذ کرنے کی شرائط پوری نہیں۔ تو ایسی صورت میں اگر عدالت اپنے زیر سماعت دفعہ سے ملزم کو بری کر دے یا یہ قرار دے کہ اس کو اس عدالت میں پیش کیا جائے جو تعزیرات پاکستان کے تحت سماعت کی مجاز ہو تو اس طرز عمل سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ لہٰذا اس طرح کی پریشانیوں کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے اندر یہ قرار دیا جائے کہ حدود کے مقدمات کو سماعت کرنے والی عدالت اپنے زیر سماعت مقدمات میں اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ جرم تو ثابت ہو چکا ہے، لیکن کسی فنی وجہ سے اس کو حد کی سزا نہیں دی جا سکتی تو اس عدالت کو اختیار ہے کہ وہ اسی مواد کی بنیاد پر، جو اس کے سامنے پیش ہوا ہے، متبادل سزا تجویز کرے۔ اس صورت میں مقدمہ یکسو ہو جائے گا اور طوالت سے بچ جائے گا۔
  6. خواتین کی شکایت کا ازالہ حدود کے قوانین میں ترمیم یا تنسیخ سے نہیں ہو گا، بلکہ سماعت کے طریق کار اور پولیس کی تفتیش کے طریق کار میں اصلاح کرنے سے ہو گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ کے تحت تعزیراتِ پاکستان ۱۸۹۸ء کا اس آرڈیننس پر بھی اطلاق ہوتا ہے، اس کا نقصان یہ ہوا کہ حدود کے مقدمات کے اندراج اور تفتیش میں پولیس کو اختیارات کے غلط استعمال کا موقع مل جاتا ہے اور لوگوں کو ظلم، جبر اور ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی کو جواز بنا کر وہ حدود کے قوانین پر اعتراض کرنے لگتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ پولیس کی تفتیش اور مقدمات کے اندراج کا ایک نیا اور مخصوص طریق کار وضع کیا جائے، جو حدود کے مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔
  7. تعزیرات پاکستان ۱۸۹۸ء میں اصلاح کرنے سے خواتین کی شکایات کا ازالہ ممکن ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار میں تعزیرات پاکستان کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ وہ خامیوں کا ازالہ اور نشاندہی کر کے ظلم اور زیادتیوں کا ازالہ کر سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تعزیرات پاکستان کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا ہے۔“

یہ تحریر مولانا قاضی بشیر احمد کی ہے، جس پر باغ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سردار ریاض احمد نعمانی صاحب نے لکھا ہے کہ

”جناب قاضی صاحب کے فاضلانہ موقف سے راقم کو سو فی صد اتفاق ہے۔ اگر طریق سماعت کی پیچیدگیوں کو احسن طریق پر لایا جائے، پولیس کی تربیت بھی ہو اور ان کی نزاکت سے ان کو واقف کیا جائے تو درستی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔“

جبکہ میرپور کے ضلع مفتی مولانا قاضی رویس خان ایوبی لکھتے ہیں کہ

”آپ کی تجویز کردہ تمام ترامیم اگر منظور بھی کر لی جائیں تو بھی کسی قانون کا عملی نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ہمارا عدالتی نظام درست سمت میں حرکت نہ کرے۔ پولیس کا فرنگیانہ سسٹم جب تک چلتا رہے گا، کسی بھی قانون کا قانون بن جانا مفید نہیں۔ پولیس وہ بنیادی پتھر ہے، جہاں سے تنفیذ کی دیوار کی نیو کھڑی ہوتی ہے۔ ایف آئی آر کیا ہے؟ ضمنیاں کیا ہوتی ہیں؟ حد کسے کہتے ہیں؟ شبہ کیا شے ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ حبس اور تعذیب میں کیا فرق ہے؟ نصابِ شہادت پورا نہ ہو تو تعزیری سزاؤں کی کیا صورت ہو گی؟ اگر مقدمہ حدود آرڈیننس کے تحت درج ہوا ہے اور حد ثابت نہیں ہو سکی تو تمام تر قرائن کے باوجود مجرم صرف اس لیے بچ نکلتا ہے کہ جس دفعہ کے تحت عدالت میں چالان پیش ہوا ہے، استغاثہ اسے ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ۔۔۔ جب تک تھانوں میں فقہ اور حدیث پر معلومات رکھنے والے لوگ نہیں ہوں گے، حدود آرڈیننس بازیچۂ اطفال بنا رہے گا۔ قصور حدود آرڈیننس کی دفعہ بندی یا قانون کی توضیح کا نہیں، یہاں صورت حال یہ ہے کہ ”کلاشنکوف“ نابالغوں کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے اور ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تم چوروں کا پیچھا کرو۔ شریعت کورٹ یا اپیلٹ بینچ وفاقی سطح پر قائم ہیں اور مقدمے کی ابتدا وسطانی سطح (سیشن جج) سے شروع ہوتی ہے یا تعزیری جرائم میں تحتانی (سب جج) سے، جبکہ تحصیل، فوجداری عدالت اسلامی فقہ جاننے والوں سے خالی ہے، سیشن کورٹ خالی ہے تو مقدمات یکسو کیسے کیے جا سکتے ہیں؟“

حدود آرڈیننس کے مؤثر نہ ہونے یا ان کے غلط استعمال کے بارے میں یہ تاثرات ان حضرات کے ہیں جو عدالتی سسٹم کا حصہ ہیں، مقدمات سنتے اور فیصلے کرتے آ رہے ہیں اور ان سے میری اس گزارش کی تائید ہوتی ہے کہ حدود آرڈیننس کے بارے میں جو شکایات کسی درجے میں جائز بھی ہیں، ان کی ذمہ داری قوانین پر نہیں، بلکہ سسٹم اور پروسیجر پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن ہم اس کی طرف توجہ دینے کی بجائے حدود آرڈیننس کے پیچھے لٹھ لیے پھر رہے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل کے نام سے حدود آرڈیننس میں تجویز کی جانے والی ترامیم کا اصل مقصد ان قوانین کی اصلاح اور انہیں قابل عمل بنانا نہیں، بلکہ ان کو ختم کرنا یا مزید غیر مؤثر بنا دینا ہے اور اس کی وجہ مغرب کا وہ دباؤ ہے جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور چند نافذ شدہ اسلامی قوانین کو ناکام بنانے کے لیے مسلسل جاری ہے۔

میں اپنے اس موقف کی تائید میں ایک اور شہادت کا اضافہ کرنا چاہوں گا اور وہ اس معاملے کے سب سے اہم فریق پولیس کا ہے۔ اسے پنجاب پولیس کے سابق آئی جی حاجی حبیب الرحمٰن صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ روزنامہ ”نیشن“ لندن میں ۹ اگست ۱۹۹۸ء کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں پنجاب پولیس کے سابق سربراہ فرماتے ہیں کہ

”کچھ عرصہ ہوا میں باہر گیا۔ وی آنا میں یونائیٹڈ نیشنز کا فورم تھا۔ یو این او والوں نے مجھے انوی ٹیشن کارڈ براہ راست بھیجا تھا۔ میں ایشین ممالک کی نمائندگی کر رہا تھا، اس طرح یورپ کے علاوہ ایشیا کے نمائندے بھی تھے، وہاں ہم نے کرائم پریونیشن (Crime prevention) پر ایجنڈا تیار کرنا تھا۔ میں نے پیپر پڑھا۔ ”انٹروڈکشن آف اسلامک لاء ان پاکستان“ میں ضیاء الحق کے سزا کے نظریے کے خلاف بولا۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ”تھیوری آف پنشمنٹ“ کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ آگ آپ کے سامنے ہے، اس میں بچہ یا کوئی پاگل یا کوئی بندہ انگلی مارے تو آگ سے اس کی انگلی جل جاتی ہے تو وہ دوبارہ آگ کے قریب نہیں جائے گا، چاہے بچہ ہو، چاہے پاگل ہو یا کوئی اور ہو۔ اگر آپ نے آگ میں انگلی دی اور آپ کی انگلی نہیں جلی تو پھر آپ آگ میں انگلی داخل کرتے رہیں گے۔ میں نے کہا کہ بیس سال ہو گئے کسی چور کا ہاتھ نہیں کٹا۔ میں نے کہا یہ اقدام قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اسلام کہتا ہے: اسلام میں داخل ہو جاؤ ”کافۃ“ پورے کے پورے۔ آپ بائی پازٹ نہیں آ سکتے، آپ مسلمان ہوں گے تو پورے ہوں گے یا تو آپ مسلمان ہیں یا نہیں ہیں۔ جاہل آدمی بھی یہ قدم نہیں اٹھائے گا کہ سسٹم تو وہی ہے، لیکن سزائیں آپ قرآن کی انٹروڈیوس کریں۔ میں نے کہا: سسٹم جو ہے وہ سرمایہ دارانہ ہے۔ آپ کا اقتصادی نظام غیر قرآنی، آپ کا سیاسی نظام، آپ کا عدالتی نظام غیر قرآنی، آپ کا سوشل اکنامک نظام غیر قرآنی ہے، پولیٹیکل سسٹم غیر قرآنی تو آپ سزائیں قرآنی کیسے دے سکتے ہیں؟“

ان گزارشات اور حوالہ جات کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بے چارے حدود آرڈیننس کو ”چاند ماری“ کی مشق کا ہدف بنائے رکھنے کی بجائے صورت حال کا اس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ یہ صرف حدود آرڈیننس کا مسئلہ نہیں، بلکہ دوسرے قوانین کے حوالے سے بھی یہی شکایت ہے کہ موجودہ عدالتی سسٹم اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ قوانین کے مؤثر نفاذ اور اس کے نتیجہ خیز ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، مگر ہم اس رکاوٹ کو دور کرنے اور اس سے پیچھا چھڑانے کی بجائے کوہلو کے بیل کی طرح قوانین میں ترامیم اور ترامیم در ترامیم کے بے مقصد عمل کے گرد چکر کاٹتے جا رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter